WE News:
2025-03-04@06:30:28 GMT

کابل، طالبان، حقانیہ: پرانے ساز اور  نئے نغمے

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

امریکا نے چاہا، امریکا آگیا۔ امریکا نے چاہا، امریکا چلا گیا۔ اس آنے جانے کے بیچ کئی زمانے ہیں۔ پہلا زمانہ تو وہ ہے جس میں امریکا نے افغانستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کے الٹے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی۔ تب ساتھ آنے والے لوگ مجاہد، لڑاکے، زمین زادے اور فریڈم فائٹر کہلائے۔ ان کو پگڑیوں داڑھیوں اور بو بھری جرابوں کے ساتھ اوول میں خوش آمدید کہا گیا۔ کسی نائب صدر نے ان سے نہیں کہا کہ اوول آفس میں داخل ہونے کے بھی کچھ ادب آداب ہوتے ہیں۔

سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تو امریکا نے مجاہدین کی ایک پوری بریگیڈ کو گندے بچے کہہ دیا اور کابل کی چابیاں طالبان کے سیدھے ہاتھ پر رکھ دیں۔ تقریباً 9برس تک وہ سخت گیر اسلامی قوانین، اقلیت مخالف بیانیے اور عورت دشمن رویے کے ساتھ اقتدار میں رہے۔ دنیا کی ہزار شکایتوں کے باجود امریکا نے یہ سب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔ ان کے اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے پاکستان میں جاری جہادی سرگرمیوں، رسائل و جرائد، جلسے جلوسوں، جنازے کی غائبانہ نمازوں اور عالمی چندہ مہم کو بھی برداشت کیا گیا۔

لیں جی نائن الیون ہوگیا۔ ماضی اور حال کے بیچ ایک گہری لکیر کھینچ دی گئی۔ اب دنیا یا تو نائن الیون سے پہلے تھی یا اب نائن الیون کے بعد ہے۔ اس نئے منظر نامے میں امریکا نے طالبان کو سرتاسر بدی کا محور قرار دے دیا ہے۔ طالبان غلط، ان کا سایہ غلط۔ان کے نام جیسے جن بچوں کے نام ہیں وہ بچے غلط، جس گلاس میں پانی پیا وہ گلاس غلط، خود پانی بھی غلط، زندہ رہنے کے لیے انہوں نے جو آکسیجن کھینچی وہ آکسیجن بھی غلط۔

مکمل غلط والے اس بیانیے کے تحت برسوں تک جنگ جاری رہی۔ وقت آیا کہ سورج نے بہت سہولت سے پلٹا کھایا اور دنیا کو بتایا کہ اب ہم طالبان کو 2مختلف دھڑوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک دھڑا گڈ ہے دوسرا دھڑا بیڈ ہے۔ بیانیہ ساز کارخانوں میں ابھی اس گڈ اور بیڈ کے مصالحے مکس ہو ہی رہے تھے کہ خبر آئی کہ چشم ساقی نے اب گڈ اور بیڈ کو بھی دو دو دھڑوں میں دیکھنا شروع کردیا ہے۔ زیادہ گڈ اور کم گڈ، زیادہ بیڈ اور کم بیڈ، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے والی اس  پوری صورتحال سے گزرتے ہوئے کہانی دوحہ مذاکرات تک آگئی۔

دنیا کی ہر بڑی اسکرین پر اب ایک ہی منظر ہے۔ صحافی طالب کا دامن نچوڑ رہا ہے اور امریکی نمائندے وضو کر رہے ہیں۔ طالبان کے پاپ دھل گئے، اور نائن الیون کے بعد افغانستان کا ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے جو سیاست دان، افسران، کماندان اور قوم قبیلے کام آئے تھے وہ سب غلط ہوگئے۔ امریکا نے ایسے ہی منہ موڑ لیا جیسے ان دنوں یو ایس ایڈ کے ذمہ داروں سے موڑا ہوا ہے۔ میسج ڈیلیور ہو رہا ہے، بلو ٹک بھی آرہا ہے مگر جواب نہیں آرہا۔

قطر کے ست ستارہ ہوٹلوں میں طالبان کے ساتھ مسلسل مذاکرات کے نتیجے میں امریکا نے باور کروا دیا کہ افغانستان کے دستخطی یہ ہوں گے۔ ان کو طاقت کے ٹیکے  بھی نہیں لگانے مگر انہیں مرنے بھی نہیں دینا ہے۔ طاقت کے کاروبار میں اسے کسی کے اختیار کو legitimacy  دینا کہتے ہیں۔

جیسے برطانیہ نے متحدہ ہندوستان سے نکلتے وقت اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک سیاسی بندو بست کرنا ضروری سمجھا تھا، ٹھیک اسی طرح امریکا نے بھی ضروری جانا کہ جاتے جاتے کابل میں ایسی فیلڈنگ لگائی جائے جو خواستہ نخواستہ ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی رہے۔

برطانیہ جب بندوبست کر رہا تھا تو وہ پاکستان کو سوویت یونین کے آگے ریت کی بوری کی طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے کابل میں امیر عبد الرحمان یا امیر دوست محمد خان کی حکومتوں کو وہ سویت قوتوں کے سامنے ریت کی بوریاں بنا کر رکھتا تھا۔ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکا طالبان کو ریت کی بوری بناکر روس اور چین کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔

امریکی ریاضی کے مطابق جب بندوبست مکمل ہوگیا تو امریکا نے سامان سمیٹا، طالبان کے لیے پچھلا دروازہ کھولا، بھاری اسلحہ چھوڑا، فون فلائٹ موڈ پر لگایا اور افغانستان سے نکل گیا۔ زمین و آسمان کی ساری نصرتیں طالبان کے ساتھ شامل حال ہوگئیں اور ایک کے بعد ایک علاقہ فتح کرتے ہوئے وہ کابل میں داخل ہوگئے۔

امریکا کا خیال تھا کہ اگر معاملات سیاسی قوتوں کے حوالے کردیے گئے تو افغانستان پڑوسی ممالک کے قریب چلا جائے گا۔ تاجکستان، اس سے آگے روس، پھر ایران اور چین سے افغانستان کا خوشگوار تعلق امریکا کو وارے میں نہیں پڑتا۔ یہ سوچ کر امریکا نے کابل کے دروازے طالبان پر کھول دیے کہ روس سے ملنے والے پرانے دکھ یہ کسی حد تک تو یاد رکھیں گے۔ دکھ درد سے کوئی تو تنازعہ جنم لے گا، اور ایک تنازعہ ہی تو ہے جو آٹو طریقے سے ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہا ہوتا ہے۔

امریکا کی روانگی کے بعد جب طالبان شہر در شہر چڑھے آرہے تھے تو افغان سیاست دان، مشران، امدادی کارکنان، موسیقار، صحافی و ادیب، خواتین کھلاڑی و صحافی، ہیلتھ ورکرز اور سول سوسائٹی کے نمائندے بین الاقوامی اداروں کے ملازم خوف کے مارے افغانستان سے فرار ہونے لگے۔ جو شہری طالبان کی سوچ اور عقیدے پر نہیں تھے وہ بھی اڑان بھرتے جہازوں کی دم سے لٹک گئے۔

اس پوری بھگدڑ میں سب سے پہلے ایک طالب دشمن اور امریکا نواز بزرگ کو بھی فرار ہونا چاہیے تھا۔ وہ کہیں بھی باآسانی فرار ہوسکتا تھا، مگر وہ کابل میں اپنے گھر کے پائیں باغ میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ قہوہ پیتا رہا۔ اس بزرگ نے صدر اشرف غنی کو بھی پیغام بھجوایا، دیکھو آسمانوں پر فیصلے ہوچکے ہیں، مزاحمت مت کرنا۔

طالبان کے نمائندوں کی ایوان صدر میں اشرف غنی سے ایک مختصر ملاقات ہوئی۔ سلام اور وعلیکم سلام کے بیچ  ہی شطرنج کی بساط پر مہرے بدل گئے۔ امر اللہ صالح نے پنجشیر کی راہ لی۔ اشرف غنی اڑن کٹولے پر بیٹھ کر لاہوت و لامکان کی طرف نکل گئے۔ کابل کا بزرگ اب بھی تسلی سے 30دانوں والی تسبیح پھیرتا رہا۔ آنے والوں کو آتے ہوئے اور جانے والوں کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

یہ مطمئن بزرگ کیوں نہیں بھاگا۔ اب کہاں ہے اور کیا سوچتا ہے؟ اگلی نشست میں بات کرتے ہیں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فرنود عالم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: نائن الیون امریکا نے طالبان کے کابل میں کے ساتھ کے بعد کو بھی کے لیے

پڑھیں:

افغان پناہ گزین پاکستان میں کتنا وقت رہ سکیں گے؟

حکومت پاکستان کی جانب سے زبانی طور پر افغان مہاجرین کو 28 فروری تک ملک چھوڑے کی ڈیڈلائن دی گئی تھی، جس کی وجہ سے ملک بھر بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی میں عارضی طور پر مقیم افغان باشندوں میں غیر یقینی اور خوف کی صورتحال ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ جن افغان شہریوں کے پاس ویزا یا کسی دوسرے ملک منتقلی کا خط ہے وہ 31 مارچ تک ان شہروں سے نکل جائیں۔ مگر افغان سفارت خانے نے پاکستان کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے یکطرفہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں رجسٹرڈ افغان باشندے پاکستان میں مزید قیام کرسکیں گے یا نہیں؟ فیصلہ آج ہوگا

تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے حالات آسان بنانے کی کوشش کررہا ہے اور افغان حکام سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ واپس جانے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

پاکستان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانوں کو عزت اور وقار کے ساتھ میزبانی فراہم کی گئی ہے اور انہیں ہراساں کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

واضح رہے کہ اب حکومت پاکستان کی جانب سے صرف ویزا ہولڈر یا پھر کسی دوسرے ملک منتقلی کا خط حاصل کرنے والے افغانوں کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔

’موجودہ وقت میں ہماری حالت ایسی ہے جیسے ایک مچھلی کی بغیر پانی کے ہوتی ہے‘

اسلام آباد میں مقیم ایک افغان خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس صورتحال نے ہماری حالت بالکل ویسی ہی کردی ہے، جیسے ایک مچھلی کی حالت بغیر پانی کے ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی بھی یہیں رہائش پذیر ہیں لیکن اس ساری صورتحال نے انہیں اس تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ آگے ان کے ساتھ اب کیا ہونے جارہا ہے، اور ابھی کتنا کچھ باقی ہے جس کا انہوں نے سامنا کرنا ہے۔

’ہمیں نہیں پتا کہ ہمیں اب آخر کرنا کیا ہے، یوں محسوس ہورہا ہے جیسے ہم کسی قید خانے میں بند ہو چکے ہیں اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس قید خانے سے اگر نکل بھی گئے تو جائیں گے کہاں، کیونکہ اپنی منزل سے ہم بھٹک چکے ہیں اور اب کہاں جانا ہے؟ اس حوالے سے بالکل بھی کچھ نہیں سمجھ آرہا۔‘

ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان بھی واپس نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں ہماری جان کو خطرہ ہے۔

’اتنے برسوں بعد اچانک ہمیں نکالا جانا صدمے کا باعث ہے‘

جڑواں شہروں میں گزشتہ 20 برس سے رہنے والے ایک افغان کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً 20 برس پہلے پاکستان آئے تھے اور پاکستان نے انہیں خوش آمدید کہا تھا مگر یوں اچانک سے اب اتنے برسوں بعد ہمیں یہاں سے نکالا جارہا ہے جو ان افراد کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے جو ایک مدت سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس ساری ہلچل اور پولیس کے چھاپوں کی وجہ سے انہوں نے فروری کے شروع میں ہی اپنی فیملی کو پشاور منتقل کردیا تھا۔

’میرا یہاں کاروبار ہے، اگر میں خود بھی پشاور چلا جاؤں تو ہم چند ہفتوں بعد ہی سڑک پر آجائیں گے۔ فی الحال میں نے اس وقت اپنے ایک افغان دوست کے گھر پناہ لی ہوئی ہے تاکہ گرفتاری سے بچا رہوں، کیونکہ میرے اس افغان دوست کے پاس پاکستانی ویزا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ ان کو بھی 31 مارچ تک کا وقت دیا گیا ہے، لیکن اس کے بعد کیا ہوگا یہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 20 سال زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے جو پاکستان میں گزرا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے تو سب بھول چکا ہے، بچے بھی یہاں پلے بڑھے ہیں اور سب سے اہم بات کاروبار بھی چھوٹا ہی سہی مگر چل رہا تھا، اور زندگی بہترین تھی۔ کابل کے حالات تو اب ایسے نظر نہیں آرہے کہ وہاں جایا جائے۔

’پاکستان سے واپس افغانستان نہیں امریکا جاؤں گا‘

ایک مزید افغان باشندے نے افغانوں کے حوالے سے اس ساری صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ فی الفور ان افراد کو پاکستان سے نکالے جانے کی ہدایت کی گئی تھی جن کے پاس یو این ایچ سی آر کا کارڈ تھا، لیکن جن افراد کے پاس ویزا ہے وہ جون تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں رہ سکتے ہیں۔

’چونکہ یو این ایچ سی آر کارڈ ہولڈرز یہاں برسوں سے مقیم ہیں اور انہیں افغانستان میں کسی قسم کا کوئی تھریٹ نہیں ہے، جس کی وجہ سے انہیں پاکستان واپس افغانستان بھیج رہا ہے اور وہ بغیر کسی پریشانی کے بآسانی جا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ افغان مہاجرین کے لیے بہت پریشان کن صورتحال بن چکی ہے، لیکن امریکا میں بات چیت جاری ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ وہ پاکستان کے بعد امریکا ہی جائیں گے۔

پاکستان میں موجود کتنے افغان شہری بیرون ملک آبادکاری کے منتظر ہیں؟

دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان کے مطابق پاکستان میں موجود افغان شہری جو بیرون ملک آبادکاری کے منتظر ہیں، قریباً 80 ہزار کو مختلف ممالک اپنے ہاں آبادکاری کے لیے لے گئے ہیں جبکہ 40 ہزار کے لگ بھگ اب بھی پاکستان میں ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2023 کے بعد سے کم از کم 8 لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ایک لاکھ 98 ہزار 5 سو 54 افغان باشندے افغانستان واپس لوٹ چکے ہیں

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں یہ بھی کہاکہ منتقلی کے منتظر افغانوں نے پاکستانی حکام کی طرف سے وسیع پیمانے پر ہراسگی کی اطلاع دی ہے جبکہ وہ صرف الزام ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افغان پناہ گزین افغانستان اقوام متحدہ پاکستان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان سرحد طورخم پر پھر جھڑپ، طالبان جنگجو ہلاک
  • امریکا افغانستان سے اپنا جنگی سامان کیوں واپس لینا چاہتا ہے؟
  • پاکستان میں افغانستان سے دراندازی  ، ایک اور افغان دہشتگرد کی شناخت
  • مصنوعی ذہانت
  • خیبرپختوا حکومت نے افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے صوبائی سطح پر جرگہ تشکیل د ے دیا
  • افغانستان سے بات چیت کے لیے وفاق کے پی حکومت کے ٹی او آرز جلد منظور کرے: بیر سٹر سیف
  • افغان پناہ گزین پاکستان میں کتنا وقت رہ سکیں گے؟
  • تین ماہ کے تعطل کے بعد نجی افغان ٹی وی چینل بحال
  • ٹرمپ کا افغانستان میں فوج واپس بھیجنے کا عندیہ