اتحاد حکومت پر مثبت تنقید کرے تو فائدہ ہوتا ہے ، علی گوہر
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
لاہور:
رہنما مسلم لیگ (ن) علی گوہر بلوچ کا کہنا ہے کہ اس قسم کا تاثر حکومت کی طرف سے بالکل نہیں ہے کہ حکومت غیر محفوظ اور خوف زدہ ہے، جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمارے اتحاد تھے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہم نے پورے ملک میں پُرامن جلسے کیے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ اس کا بہتر بتا سکتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر یہ اتحاد بنانا چاہیں تو اتحاد حکومت پر مثبت تنقد کرے تو فائدہ ہوتا ہے حکومت کو.
رہنما تحریک انصاف ولید اقبال نے کہا کہ میرے خیال میں یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے، آج کا اخبار کھولیں تو پہلے صفحہ پر ایک رپورٹ آئی ہوئی ہے، میں بطور مثال آپ کو بتانا چاہ رہا ہوں دہشت گردانہ حملوں میں جنوری کے مقابلے میں فروری میں ڈبل سے بھی زیادہ شہریوں کی شہادتیں ہوئیں تو سیاسی کارکنوں کو اور سیاسی جماعتوں کو دہشت گرد قرار دینا انھیں دہشت گردی کے کیسوں میں ڈالنا ، فوجی عدالتوں کے اندر ان کے لوگوں کو ٹرائی کرنا اس کے بجائے اپنی ترجیحات کو اصل دہشت گردوں کے خلاف رکھیں تفریق ہونی چاہیے.
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کے خدوخال کو تو ابھی حتمی شکل ملنی ہے.
سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز نے کہاکہ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ 8 فروری کے الیکشن سے پہلے ہی جو صورتحال دیکھنے میں آ رہی تھی اس میں بے دریغ اسٹیٹ کا استعمال ہوا ہے جس میں مختلف امیدواروں کو پیچھے کیا گیا ہے اور دوسروں کو آگے کیا گیا ہے.
دیکھیں اہم بات یہ ہے کہ میرا کہنا معنی نہیں رکھتاجو معنی رکھتی ہے وہ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے یہ فیصلہ دیدیا ہے کہ پی ٹی آئی کا نشان غلط تعبیر کے تحت ان سے چھینا گیا تھا، جو بھی ان کی سیٹیں ہیں جو جیتی ہیں وہ ان کو دی جائیں اور ان کی مطابقت میں ریزرو سیٹوں کا حصہ بھی ان کو دیا جائے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خطرات سے بھری دنیا
ہم سب جیسا بچپن گزارتے ہیں، اس میں ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا مگر جب ہمارے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہر آنے والا دن انھیں پہلے سے ذرا سا بڑا کر دیتا ہے تو ہم ان کے حوالے سے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں، ہر وقت انھی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انھیں ایسا بچپن مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی یادیں ہمارے بچپن سے بہتر ہوں ۔
دل چاہتا ہے کہ ان کے لیے سب سے اچھا تلاشیں، خواہ وہ کوئی لباس ہو، کھانا، اسکول یا اس سے بڑا کوئی انتخاب۔ ہم انھیں وہ سب کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ مانگتے ہیں ، وہ بھی جو وہ نہ مانگیں اور ہمیں علم ہو کہ اس کے پاس ہونا چاہیے۔ دوسروں کے بچوں کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمارے بچوں کے پاس بھی ہونا چاہیے، یہی ہماری خواہش ہوتی ہے۔ ہمارے سارے سپنے اپنے بچوں کے گرد ہوتے ہیں، اپنی خواہشات تو درکنار… اپنی ضروریات کو بھی ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہم سے جو کچھ بن پاتاہے وہ اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں مگر ہم سے کچھ بنیادی غلطیاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو ان خطرات سے آگاہ نہیں کرتے جن کے بارے میں ہم ان کی پیدائش کے فوراً بعد سے خود پریشان رہتے ہیں۔ انھیں کوئی بیماری نہ ہو جائے، ذرا سی بے احتیاطی سے انھیں کوئی چوٹ نہ لگ جائے۔ بچے کی پرورش میں اس کے نئے نئے بننے والے والدین چھوٹی سے چھوٹی بات پر پریشان ہو کر یا تو ڈاکٹر وںکے پاس دوڑتے ہیں یا نانیوں دادیوں سے ٹونے اور ٹوٹکے پوچھتے ہیں۔
بچے ذرا سے بڑے ہوتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اب تک کی پریشانیاں تو بہت چھوٹی چھوٹی پریشانیاں تھیں، اس سے آگے اس سے بڑے بڑے مسائل ہیں۔ بچہ چلتا ہے تو کسی اونچی جگہ سے گر نہ جائے، لاعلمی میں کمرے یا گھر سے باہر نہ نکل جائے، بجلی کے کسی سوئچ میں انگلی نہ ڈال دے، باورچی خانے میں کسی گرم چیز سے اس کا ہاتھ نہ چھو جائے یا وہ گرم پانی اپنے اوپر نہ الٹا لے۔
ذرا سا اور بڑا ہوتا ہے ، بڑھتی عمر کے ساتھ وہ اپنے گھر کی حدود سے نکل کر گھر سے باہر جانا شروع کر دیتا ہے، وہ اسکول جاتا ہے، مسجد جاتا ہے، دوستوں کے گھروں میں جاتا ہے، بازاروں میںجاتا ہے، کسی تفریحی مقام پر جاتا ہے، غرض جہاں جہاں ہمیںجانا ہے وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہو گا، کوشش ہوتی ہے کہ وہ نظر کے سامنے رہے مگر جب وہ اسکول، ٹیوشن پر یا مسجد جاتا ہے تو ہم اس کے ساتھ نہیں ہوتے، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کو جاتا ہے تو ہم ہمہ وقت اس کے ساتھ نہیں ہوتے۔
یہ وہ وقت ہے جب ہمارا بچہ ہر طرف سے خطروں میں گھرا ہوا ہوتا ہے، اغوا ، جسمانی استحصال، تشدد، گالی گلوچ، غصہ، بری صحبتیں، سگریٹ، نشہ آور اشیاء، غلط سلط فلمیں دیکھنا، چھیڑ چھاڑ، شرارت ہی شرارت میں چوری چکاری کی وارداتیں کرنا، آپس میں ایسے خطر ناک prank کرنا جس سے خود ان کو یا کسی دوسرے کو نقصان ہو جائے۔
بغیر باقاعدہ سیکھے یا لائسنس حاصل کیے گاڑیاں چلانا، اسلحہ کا استعمال سیکھ لینا۔ ہم والدین اپنی سادگی میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ بالکل سیدھا ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے، گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر آتا ہے، مسجد جاتا ہے اور لوٹ آتا ہے۔ ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اور کہاں بچہ اپنے بچپن سے کتنا دور نکل جاتا ہے ، اس کی فطری سادگی کا رنگ اتر چکا ہوتا ہے ۔
ا س کی دوستیوں، کلاس اور صحبت سے ہم لاعلم ہوتے ہیں اس لیے ہمارے اور اس کے بیچ ایک ان دیکھی خلیج حائل ہو چکی ہوتی ہے جو اس وقت پاٹی نہیں جا سکتی۔اس دور میں اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر اس کے دماغ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے ۔
گھروں میں خراب ماحول ، بچوں کے بیچ تفریق، رشتہ داروں کی دخل اندازی اور والدین کے بیچ نااتفاقی کی وجہ سے بچے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض حادثات اور واقعات کے نتیجے میں وہ خود ایک صحت مندانہ زندگی نہیں گزار پاتے ۔ تعلیمی اداروں، کھیل کے میدا ن ، ملازمت اور کاروبار میں مقابلے کی دوڑ میں رہتے ہوئے انسان ہر وقت غصے اور جھنجلاہٹ کا شکار ہوتا اور دوسروں پرغصہ نکالتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے ہمارے قد سے اوپر چلے جاتے ہیں اور ہم ان کے لیے دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
جن بچوں کو ہم نے مرغی کی طرح اپنے پروں میں سمیٹ کر پالا ہوتا ہے وہ جب بچپن اور جوانی میں ہمارے سامنے اس دنیا کے میدان میں کھیلنے نکلتے ہیں تو ہمیں ان کی عافیت کی فکر رہتی ہے کیونکہ ان کے پاس جذبہ ہوتا ہے اور ہمارے پاس تجربہ۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے انسان کے تجربات سے نہیں سیکھتا خواہ ایک باپ بیٹے کو ممکنہ خطرات کے بارے میں سکھانا چاہے یا ماں اپنی بیٹی کو رشتوں کی لڑی میں پروئے جانے کے بعد زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانا چاہے۔
ہر کوئی آگ سے ہاتھ جلا کر ہی سیکھتا ہے کہ آگ جلاتی ہے، ہم لاکھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیں مگر وہ عمر کے اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں اولاد خود کو اپنے والدین سے بڑھ کر عقل مند اور معاملہ فہم سمجھنے لگتی ہے۔ انھیں والدین old school والے اور پرانے خیالات کے حامل لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے والدین اس سے تیس برس پہلے اس عمر میں تھے تو وہ وقت پرانا تھا، اس وقت حالات مختلف تھے مگر پھر بھی موجودہ حالات کے تناظر میں بھی بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں کہ والدین اس وقت بھی اولاد کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
اپنے ارد گرد خطروں سے بھری دنیا کو دیکھ کر صرف اپنے ہی نہیں، دوسروں کے بچوں کے بارے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔ سب والدین ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر ایک جانور بھی اپنی اولاد سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اس کے تحفظ کی خاطر اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے تو انسان کو تو اپنی اولاد اس سے کہیں پیاری ہوتی ہے کیونکہ وہ جذبات بھرا دل اور پرسوچ دماغ رکھتا ہے ۔ وہ بامعنی الفاظ بولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسے خوشی ، دکھ ، محبت، نفرت اور غصے کے اظہار کا قرینہ آتا ہے ۔ جانور ایک وقت کا کھا لیں تو انھیں اگلے وقت کے رزق کی فکر نہیں ہوتی مگر انسان اپنے ہی نہیں بلکہ اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کی فکر میں بھی مبتلا رہتا ہے، اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے ، بچت کرتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے۔
اگر سوچا جائے تو اس وقت اس دنیا میں جتنے بھی خطرات ہیں وہ کسی اور کے نہیں بلکہ خود انسانوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ جب چیزوں کو ہم اس دور میں فتنہ سمجھتے ہیں یا خرابی کا باعث… وہ سب انسانوں ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ ایجادات، جن کی وجہ سے زندگی میں سو آسانیاں ہیں، وہی ایجادات سو مسائل کا باعث بھی ہیں، سارا فرق ان کے استعمال کا ہے۔ جس طرح سانپ کے اپنے زہر کا تریاق اس کے اندر ہوتا ہے، کوئی تالا چابی کے بغیر نہیں بنایا جاتا، اسی طرح ہر مسئلے کا حل اس کی سمجھ بوجھ میں ہی چھپا ہوتا ہے۔
رشتہ داروں میں مخلص بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی، انھیں پہچاننا بڑوں کا کام ہے اور بچوں کو ان سے بچا کر رکھنا بھی۔ دوستوں میںبھی وفادار ہوتے ہیں اور دل میں بغض رکھنے والے، آپ کی خوشی میں خوش ہونے والے بھی اور آپ کی خوشی میں دکھی ہوجانے والے بھی۔ آپ کی ذہانت سے متاثر ہوکر آپ کے دوست بننے والے بھی اور آپ کی ذہانت سے حسد میں مبتلا ہوکر آپ کو نقصان پہنچانے والے بھی، بظاہر دوستی کا لبادہ اوڑھ کر آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے، آپ کو بری لت میں مبتلا کر کے آپ کی زندگی کی کھلی راہوں کو مسدود کر دینے والے بھی۔اپنے بچوں کو اچھا کھلائیں، پہنائیں، پڑھائیں اور بسائیں مگر ان کے اندر اچھے برے کی پہچان کا شعور اس کی بہت کم عمری سے سکھانا شروع کر دیں کیونکہ جونہی وہ آپ کے قد کو پہنچ جائیں گے وہ خود کو آپ سے زیادہ عقل مند سمجھنا شروع کر دیں گے اور سمجھنے سمجھانے کا وقت گزر چکا ہو گا۔ صرف یہی نہ سمجھائیں کہ دنیا میں کیا کیا برائیاں، خرابیاں اور خطرات ہیں، یہ پہلے سکھائیں کہ وہ ایسے نہ بنیں کہ جس کی وجہ سے کوئی دوسرا خطرے میں مبتلا نہ ہو۔