واشنگٹن — 

حال ہی میں لگ بھگ فٹ بال گراونڈ کے برابر سائز کے ایک سیارچے کے کچھ برسوں میں زمین کی جانب بڑھنے کی دریافت نے عوام کے ذہنوں میں سائنس فکشن فلموں جیسے تباہ کن مناظر ابھارے تھے۔اگرچہ اب ایسٹرائیڈ 2024 وائے آر فور” کے زمین سے ٹکرانے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن امریکی خلائی سائنسدان اس کے زمین پر ٹکرانے کے امکانات کو کم کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین پیش گوئی کے مطابق سائنس دانوں نے دسمبر 2032 کو زمین تک پہنچنے والی اس خلائی چٹان کے ٹکرانے کے امکانات کو مزید کم کر دیا ہے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے مطابق اس چٹان کےجسے "ایسٹرائیڈ 2024 وائے آر فور” کا نام دیا گیا ہے، زمین سے ٹکرانے کے امکانات 0.

28 فیصد ہیں۔

قبل ازیں، اس سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے امکان کو 2.6 فیصد بتایا گیا تھا۔ لیکن زمین پر اس چٹان کے ٹکرانے کے امکانات کم ہونے کے باوجود کینیڈی اسپیس سینٹر کے ایک سائنسدان نے حال ہی میں کہا کہ سائنسدان اس بات سے خوف میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ اس سے نمٹنے کی کوششوں کی وقت سے پہلے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔




ایسٹرائیڈ کی رفتار کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سال 2032 کے آخر میں 22 دسمبر کو تقریباً 38,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھے گا۔ تاہم، ناسا نے کہا ہے کہ اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات مزید کم ہو رہے ہیں۔

زمین کو نقصان سے بچانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟

ریاست الینوائے میں قائم نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے منسلک طبیعات اور فلکیات کے ماہر پروفیسر فرہاد زادے کہتے ہیں کہ "ایسا نہیں ہے کہ اس ایسٹرائیڈ کا زمین کے کسی حصے پر آ گرنا ماضی کے اس تباہ کن واقعہ کی طرح ہوگا جب ایک شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے دنیا سے ڈائینو سار ختم ہوگئے تھے۔ لیکن اگر اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں تو ہمیں اس بارے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔”

تاہم، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی سیارچے کو زمین کے عین اوپر تباہ کرنا کوئی محفوظ ترین آپشن نہیں لگتا۔

بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی چٹان کو تباہ کرنے سے ایک تو خلا میں اس کا ملبہ پھیلے گا اور دوسرا اس کے زمین پر گرنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔







No media source now available

واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں ماہر طبعیات و فلکیات پروفیسر ایرن گروہسکی کہتے ہیں کہ اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ایسٹرائیڈ 2024 کا سائز کم از کم پچاس میٹر ہے جو کہ اگر چہ بہت بڑا نہیں لیکن اتنا کم بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ لہذا اسے خلا یا فضا میں تباہ کرنے سے کوئی زیادہ اچھے نتائج شاید نہ حاصل ہو سکیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے زیادہ قابل عمل راہ یہ ہے کہ اس بات کے واضح ہونے پر کہ یہ چٹان واقعی زمین کے کسی حصے پر تیزی سے آگرے گی، اس کی "ڈارٹ مشن” کے نام سے موسوم طریقے سے سمت کو تبدیل کردیا جائے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے 2022 میں ڈارٹ مشن یعنی’ڈبل ایسٹرائیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ’ کو استعمال کرتے ہوئے زمین سے تقریبا 70 لاکھ میل دور کامیابی سے خلا میں ایک سیارچے "ڈائیمورفوس” کو ایک اسپیس شپ سے تجرباتی طور پر ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں اس کا مدار تھوڑا سا تبدیل ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر گروہوسکی کہتے ہیں کہ اس طریقے کے تحت "کائینیٹک امپیکٹ” یعنی حرکت کرتے اسپیس کرافٹ کے اثرسے ایسے سیارچے کی سمت اور مدار کو تبدیل کرنا ایک ترجیحی طریقہ ہے۔ اس طریقے سے چٹان کا رخ زمین پر زیادہ نقصان ہونے والے مقام سے کسی اور طرف موڑا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر فرہاد زادے کہتے ہیں کہ اگر چہ سائنسدانوں نے بروقت ایسٹرائیڈ 2024 کا پتا چلا لیا ہے اس کی مستقبل کی سمت اور زمین کی جانب بڑھنے کے بارے میں میں حتمی تعین میں ابھی مزید مشاہدے اور اعداد شمار کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ عالمی تعاون سے 2013 میں "انٹرنیشنل ایسٹیرائیڈ وارننگ نیٹ ورک” کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد زمین سے ممکنہ طور پر آٹکرانے والی خلائی اشیاء کی نگرانی اور ٹریک کرنا ہے۔

درست سمت کا تعین اور سیارچے کا مشاہدہ

واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں ماہر طبعیات و فلکیات پروفیسر ایرن گروہوسکی

پروفیسر ایرن گروہوسکی کہتے ہیں کہ کسی بھی خطرناک سیارچے یا چٹان کے مدار یا سمت میں تبدیلی کی کارروائی سے قبل اس کی صحیح سمت، وقت اور اسپیڈ کا تعین درکار ہوتا ہے۔

ان کے مطابق خوش قسمتی سے اس وقت سائنسدان خلا میں کسی ایسے سیارچے کا اور اس کی رفتار کا مسلسل یا بہت دیر تک مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔

"اس وقت ہم خلا میں اشیا کو طویل عرصے تک مشاہدہ کر سکتے ہیں، ان کی سمت, سائز، شکل کا اندازہ کر سکتے ہیں جس سے ان کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں امپیکٹ یعنی اثرات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔”

لیکن، وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات خلا میں اشیا اپنے مدار میں ایسے مقام پر پہنچتی ہیں جہاں سورج کی چکا چوند کر دینے والی روشنی کے درمیان آنے سے ان کا مشاہدہ یا انہیں ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔




اس طرح کا ایک واقع 15 فروری 2013 کو پیش آیا تھا جب اچانک کسی پیش گوئی کے بغیر روس کے چیلیابنسک علاقے سے ایک شہاب ثاقب آٹکرایا تھاجس سے تقریباً 1,500 لوگ زخمی ہوگئے جبکہ عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔

سیارے سے بچاو کی کوشش میں اس کی ساخت کا تعین اہم ہوگا

ایسٹرائیڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پچھلے ایک سو سال میں زمین کی طرف بڑھنے والا خطرناک ترین سیارچہ ہو سکتا ہے۔ یہ روس کے چیلیابنسک علاقے پر آکر گرنے والے شہاب ثاقب سے سائز میں دو گنا بڑا ہے اور اس سے مقامی سطح پر تباہی بھی اسی تناسب سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

سیارچوں اور شہاب ثاقب یا خلا میں موجود چٹانوں یا بکھرے ٹکڑوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نظام شمسی کی تشکیل کے وقت ٹوٹ کر بکھر جانے والے چھوٹے حصے ہیں۔




ڈاکٹر فرہاد زادے کے مطابق اس بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنا بہت ضروری ہے کہ ایسٹرائیڈ کی ساخت کیا ہے۔

پروفیسر ایرن گروہوسکی کہتے ہیں کہ اس طرح کی خلائی چیزوں کے بارے میں ڈارٹ مشن کے لیے جاننا ضروری ہے کہ کیا یہ خالصتاً چٹان ہے، اس میں کون سی دھات زیادہ ہے، کیا یہ ملبے کا ڈھیر ہے یا ایک ہی قسم کے عناصرسے بنی کوئی چیز ہے۔

وہ کہتے ہیں، ان سب عوامل اور قابل غور عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے اس سیارچے کے زمین کے ٹکرانے کے امکانات میں خاصی تبدیلی ہو سکتی ہے اور اگلے کچھ ہفتوں میں شاید اس بار ے ہمیں کچھ وضاحت حاصل ہو سکے۔

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: کے زمین سے ٹکرانے کے ٹکرانے کے امکانات ایسٹرائیڈ 2024 پروفیسر ایرن کہتے ہیں کہ کے بارے میں اس کے زمین کے ٹکرانے کے مطابق خلا میں کا تعین زمین کی سکتا ہے زمین کے میں کہا

پڑھیں:

سائنسدانوں کی اہم کامیابی، ایک اور سیارے پر زندگی کے ٹھوس ترین آثار دریافت

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)غیر ملکی سائنسدانوں کو ہماری دنیا کے علاوہ ایک اور دور دراز سیارے پر زندگی کے اب تک کے سب سے بڑے آثار مل گئے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق محققین کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ انہیں ہماری زمین کے علاوہ زندگی کے بارے میں اب تک کا سب سے مضبوط اشارہ ملا ہے۔

رپورٹ کے مطابق زندگی کے یہ اثا ہمارے اپنے نظام شمسی میں نہیں ہیں بلکہ ایک سیارے پر ملے ہیں جسے K2-18b کہا جاتا ہے۔

یہ سیارہ ہماری زمین سے 120 نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک ستارے کے گرد زیر گردش ہے۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے K2-18b کے ماحول میں 2 گیسوں- ڈائمتھائل سلفائیڈ، یا ڈی ایم ایس اور ڈائمتھائل ڈسلفائیڈ، یا ڈی ایم ڈی ایس کا پتا لگایا ہے۔

زمین پر یہ گیسز بنیادی طور پر مائکروبیل حیات جیسے سمندری فائٹوپلانکٹن جئسے جاندار عناصر سے پیدا ہوتی ہیں۔

محققین نے ایک پریس کانفرنس میں احتیاط اور جوش و خروش کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کی دریافت حقیقی جانداروں کے بجائے حیاتیاتی عمل کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور اس حوالے سے مزید مشاہدات کی ضرورت ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے فلکیاتی طبیعیات دان اور ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی قیادت کرنے والے مصنف نکو مدھوسودھن نے کہا کہ بہر حال یہ وہ پہلے اشارے ہیں جو ہمیں اجنبی دنیا کے بارے میں ملے ہیں جو ممکنہ طور پروجود رکھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں تبدیلی کا لمحہ ہے جہاں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ سہولیات کے ساتھ ممکنہ طور پر قابل رہائش سیاروں میں حیاتیاتی نشانات کا پتا لگانا ممکن ہے، ہم فلکیات کے مشاہداتی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
مزیدپڑھیں:زلزلہ آنے پر ہاتھیوں نے کیا کیا؟ ویڈیو دیکھنے والے حیران رہ گئے

متعلقہ مضامین

  • ژالہ باری کے دوران سولر پینلز اور گاڑیوں کے شیشوں کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟
  • سائنسدانوں کی اہم کامیابی، ایک اور سیارے پر زندگی کے ٹھوس ترین آثار دریافت
  • شاداب خان نے خانہ کعبہ کو دیکھ کر پہلی دعا کیا کی تھی؟
  • سائنسدانوں کی اہم پیش رفت، ایک اور سیارے پر زندگی کے آثار دریافت
  • بڑھتے حادثات پر حکومتی بے حسی
  • کیا واقعی بشری بی بی کے پاس جادو کی چھڑی ہے؟ عمران خان مرشد کیوں کہتے ہیں؟
  • کیا واقعی بشریٰ بی بی کے پاس جادو کی چھڑی ہے؟ عمران خان مرشد کیوں کہتے ہیں؟
  • کینسر ہوگا یا نہیں، یہ بات لائف اسٹائل کیسے طے کرتا ہے؟
  • ہمیشہ سے نیلے نہیں تھے بلکہ۔۔۔سمندر اربوں سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ؟سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف
  • بھارت اورچین کے بڑھتے تجارتی تعلقات‘سال2024میں دونوں ملکوں کے درمیان 118اعشاریہ4ارب ڈالر کی تجارت ہوئی