چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط دوم)
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں بالفور ڈیکلریشن کے نتیجے میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد یورپی یہودیوں نے جس بے فکری سے فلسطینی ساحلوں پر اترنا شروع کیا۔اس کے سبب صدیوں سے آباد فلسطینی عربوں اور نووارد قبضہ گروپ کے درمیان خونی لکیر کھنچنا ناگزیر تھا۔گزشتہ مضمون میں ہم نے انیس سو بیس اور اکیس کے فسادات کا بالتفصیل ذکر کیا۔ ہر نیا فساد گزشتہ سے زیادہ شدید ہوتا گیا اور پھر انیس سو انتیس کا خونی سنگِ میل آ گیا۔اسے عبور کرنے کے بعد برطانیہ کی زیرِ نگرانی خانہ جنگی کا ایک طویل دور شروع ہوا اور اختتام بشکلِ اسرائیل اس خطے کے سینے میں مغربی استعماری میخ گڑنے پر ہوا۔
فلسطین کی عرب سیاسی قیادت نے انیس سو بیس کے عشرے میں یہ برطانوی تجویز قبول کر لی کہ مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں آبادی کے ہر طبقے کو حصہ بقدرِ جثہ ملنا چاہیے۔مگر چھ فیصد یہودیوں کی قیادت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ایک قاش کے بجائے پورا سیب لینا چاہتی تھی۔
اگرچہ انیس سو اکیس کے فسادات کے بعد قابض برطانوی انتظامیہ نے امیگریشن کو محدود کرنے کے علاوہ مقامی زمینوں کی بلااجازت خرید و فروخت پر بظاہر پابندی عائد کر دی مگر چور دروازے سے دونوں کام جاری رہے اور برطانوی انتظامیہ نے یوں ظاہر کیا گویا اسے چور دروازے کا علم ہی نہ ہو۔
چھ اگست انیس سو انتیس کو تل ابیب میں مسلح یہودی ملیشیا ہگانہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے چھ ہزار حامیوں کا جلسہ ہوا جس میں انیس سو اٹھائیس میں ہونے والے اس فیصلے کو مسترد کر دیا گیا کہ پورا اقصی کمپاؤنڈ مسلم اوقاف کی ملکیت ہے اور عبادت کے خواہش مند غیر مسلم صرف طے شدہ جگہ تک ہی جا سکتے ہیں اور اپنے ساتھ کوئی ایسی شے نہیں لا سکتے جس سے جارحیت کا احتمال ہو۔
چودہ اگست کو یروشلم میں کمپاونڈ کی مقدس مغربی دیوار تک لگ بھگ سات ہزار یہودی جلوس کی صورت میں پہنچے اور وہاں بعض مقررین نے اردن تا ساحلِ بحیرہِ روم ارضِ اسرائیل کے نعرے لگا کے کشیدگی کئی گنا بڑھا دی۔دوسری جانب سے بھی اعلانِ جہاد ہو گیا اور پمفلٹ تقسیم ہونے لگے کہ یہودی پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہ رہے ہیں۔چھرے نکل آئے اور املاک کو آگ لگنے لگی۔
ایسے حالات کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کے پاس افرادی قوت مضحکہ خیز حد تک کم تھی۔پورے فلسطین میں سو سے بھی کم برطانوی فوجی ، پانچ سے چھ جنگی طیارے اور چھ بکتر بند گاڑیاں تھیں۔پولیس کی نفری لگ بھگ ڈیڑھ ہزار تھی۔اس میں تقریباً پونے دو سو برطانوی افسر اور سپاہی تھے۔
برطانوی انتظامیہ نے یہودیوں کے تحفظ کے لیے اٹھارہ سابق یہودی فوجیوں ، اکتالیس یہودی پولیس کانسٹیبلوں اور ساٹھ سویلینز کو ڈنڈے اور دیگر ہتھیار رکھنے کی اس شرط پر خصوصی اجازت دی کہ یہ طاقت صرف املاک پر حملے سے دفاع میں استعمال ہو گی۔جب کہ عرب اکثریت کو اپنے تحفظ کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی۔مگر جس طرح سے یہ مسلح طاقت استعمال ہوئی۔اس کے صرف چار دن بعد ہی انتظامیہ نے یہ اسلحہ واپس لے لیا۔
انیس سو انتیس کے فسادات کے بعد جو برطانوی تحقیقاتی کمیشن جسٹس والٹر شا کی سربراہی میں بنا اس کے مطابق فساد کی فوری وجہ چودہ اور پندرہ اگست کو یروشلم کے قدیم شہر میں مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کی مغربی دیوار تک عبادت کے لیے جانے والے یہودی جلوس کی جانب سے ہیکل سلیمانی کو بحال کرنے کے لیے اشتعال انگیز نعرے تھے۔
نیز انیس سو پچیس میں طے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین اپنے ساتھ کرسیاں بھی لائے اور عورتوں اور مردوں کو الگ کرنے والی ایک پارٹیشن بھی کی۔اس کے سبب عربوں کا یہ خدشہ بدظنی میں بدل گیا کہ یہودی بتدریج پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہتے ہیں۔عرب قیادت نے بھی تحمل و بردباری دکھانے کے بجائے اس طرح کے پمفلٹ تقسیم کیے کہ یہودی مسجدِ اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنے آ رہے ہیں۔
افواہوں کے بازار نے یروشلم سے باہر دیگر قصبات تک پھیل کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔پہلے سے بھرے بیٹھے لوگوں کو تشدد کا موقع مل گیا۔کمیشن کے مطابق برطانوی انتظامیہ نے بھی امن و امان کے بگڑتے آثار دیکھنے کے باوجود تشفی بخش پیشگی انتظامات نہیں کیے۔پولیس میں ڈسپلن کی کمی دیکھی گئی۔شا کمشن نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یورپ سے پناہ گزینوں ( یہودیوں ) کی مسلسل آمد نے مقامی عرب آبادی کو معاشی اور زمینی محرومی کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان خدشات کا ازالہ کیے بغیر حالات مزید بگاڑ کی طرف جا سکتے ہیں۔
تئیس تا انتیس اگست کے خونی ہفتے میں سرکاری طور پر ایک سو تینتیس یہودی ہلاک اور تین سو انتالیس زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک سو سولہ عرب ہلاکتوں اور دو سو بتیس زخمیوں کا شمار کیا گیا۔مگر عرب قیادت کا دعوی تھا کہ ایک سو سولہ تو صرف پولیس نے مارے ہیں۔لگ بھگ پچاس دیگر عرب یہودیوں کے ہاتھوں مرے۔
ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک سو چوہتر عربوں اور ایک سو نو یہودیوں پر قتل اور اقدامِ قتل کی فردِ جرم عائد ہوئی۔ان میں سے چالیس فیصد عرب اور تین فیصد یہودی ملزموں کو ہی سزائیں سنائی گئیں۔
بدترین واقعہ ہیبرون ( الخلیل ) میں پیش آیا۔جب چوبیس اگست کو مشتعل عرب ہجوم کے حملے میں چھ سو میں سے پینسٹھ یہودی ہلاک اور اٹھاون زخمی ہوئے۔گزشتہ روز جافا میں ایک یہودی پولیس کانسٹیبل اور اس کے ساتھیوں نے ایک مقامی امام سمیت خاندان کے چھ افراد کو مسجد سے متصل گھر میں گھس کے قتل کر دیا۔یروشلم میں ایک یہودی گروہ نے نبی عکاشہ مسجد اور مزار کو آگ لگا دی۔انتیس اگست کو سفید نامی قصبے میں عرب ہجوم نے اٹھارہ تا بیس یہودیوں کو ہلاک اور لگ بھگ اسی کو زخمی کر دیا۔ رفتہ رفتہ حالات قابو میں آ گئے۔مگر یہ امن نہیں تھا بلکہ اگلے بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔
اس سے پہلے کہ ہم انیس سو چھتیس تا انتالیس کے پہلے عرب انتفادہ ( شورشِ عام ) کی ہڑبونگ میں داخل ہوں۔ایک عرب رہنما عز الدین القسام کا ذکر ضروری ہے۔ القسام نے عرب مزاحمتی نفسیات کو انیس سو تیس کے عشرے میں ایک نیا رخ دیا۔( جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ نے کمپاو نڈ اگست کو میں ایک کرنے کے کے بعد کر دیا ایک سو کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ سے جھڑکیاں کھانے والے زیلینسکی کو برطانوی وزیراعظم نے گلے لگا لیا؟
امریکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جھڑکیوں اور جھڑپ کے بعد یوکرین کے صر ولادیمیر زیلینسکی کا لندن پہنچنے پر پُرتپاک خیر مقدم، برطانوی وزیراعظم نے گلے لگا لیا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ زیلینسکی تنازع: اب یورپ کو تنہا ایک ’جیو پولیٹیکل ہارر مووی‘ کا سامنا کرنا ہوگا
وائٹ ہاؤس کے اوول ہاؤس میں بدترین سفارتی ہزیمت اور ٹرمپ سے جھڑکیوں اور جھڑپ کے بعد لندن پر پہنچنے پر یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کا پُر تپاک خیر مقدم کیا گیا، اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم کیئراسٹارمر نے ان سے بے در پے دو بار مصافحہ کیا اور انہیں گلے لگایا۔
لندن میں یوکرین کے صدر کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ زیلنسکی نے وزیرِ اعظم اسٹارمر سے دو بار گلے لگایا، ظاہر ہے کہ یورپ کا امریکا کے لیے پیغام تھا کہ وہ یوکرین کو کسی طور روس کے لیے تر نوالی نہیں بنے دے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے پر یوکرینی عوام کا زیلینسکی کو خراج تحسین
لندن میں اس تاریخی ملاقات اور پُرجوش استقبال پر صدر زیلینسکی نے ان کی حمایت پر برطانیہ کے عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ یوکرین کی بدلتی صورتحال کے حوالے سے روس مخالف یورپی ممالک سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں، اس اہم اجلاس قبل توقع ہے کہ یوکرینی صدر برطانوی شاہ چارلس سے بھی ملاقات کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں