امریکا کی شمالی اور جنوبی کیرولینا ریاستوں کے جنگلات میں ایک ہفتے سے مختلف مقامات پر خوفناک آگ بھڑک رہی ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق خشک موسم، تیز ہواؤں اور غیر معمولی درجہ حرارت کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔

جس کے باعث امریکا کی قومی موسمیاتی سروس نے قریبی رہائشی علاقوں سے ہزاروں افرار کو فوری طور پر انخلا کی ہدایت کی گئی۔

ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

فائر فائٹرز علاقے میں پانی کے چھڑکاؤ اور بیک برننگ آپریشنز کر رہے ہیں۔ رہائشیوں کو ان آپریشنز کے دوران دھوئیں سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اب تک کسی بھی آگ کے سبب ہونے والے نقصانات کی تفصیل نہیں دی گئی۔

جنوبی کیرولائنا کے گورنر ہیری میک ماسٹر نے ریاست میں ایمرجنسی کی حالت کا اعلان کرتے ہوئے جنگلات میں آگ جلانے پر پابندی کی توثیق کی۔

گورنر نے کہا کہ آگ جلانے پر یہ پابندی لامتناہی طور پر نافذ رہے گی۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ٹیرف وار: نکل گئی ساری ہیکڑی

اگر آپ مغربی سوشل میڈیا کو فالو کرتے ہوں تو یقیناً واقف ہوں گے کہ وہاں اب یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ’سوشل میڈیا ہی مین سٹریم میڈیا ہے۔‘

ان کی یہ بات یوں درست ہے کہ ان کے مین سٹریم میڈیا سے ناظرین کا اعتماد اٹھ چکا۔ جس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ سی این این جیسے نیوز چینل کی بھی پرائم ٹائم ویورشپ محض 3 لاکھ رہ گئی ہے۔ امریکی ناظر اس بداعتمادی کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ مین سٹریم میڈیا پر فری سپیچ باقی نہیں رہی۔ وہاں سے اب اسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے ہی پیش ہو رہے ہیں۔ ان چینلز پر کوئی ایک بھی صحافی اب ایسا نہیں بچا جو ان لگے بندھے بیانیوں سے ہٹ کر کچھ کہنے کی ہمت رکھتا ہو۔ اگر کوئی غلطی سے جرات کر بھی لے تو اگلے ہی روز خود کو چینل سے باہر پاتا ہے۔ اور مہینہ بھر آرام کے بعد وہ سیدھا یوٹیوب چینل کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔

یوں انگریزی زبان بولنے والے ممالک کے یوٹیوب چینلز اب تیزی سے عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ابھی گزشتہ ماہ ہی روسی دفتر خارجہ نے امریکا اور آسٹریلیا کے 3 یوٹیوب چینلز کے میزبانوں کو ماسکو مدعو کیا، جہاں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے ان سے ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو کی۔

سفارتکاری کی دنیا میں سرگئی لاروف ایک لیجنڈ کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ پچھلے 21 سال سے روس کے وزیر خارجہ ہیں، اور اس سے قبل وہ 10 سال تک اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے تھے۔ یوں عالمی سیاست میں انہیں احترماً ’ڈین آف ڈپلومیسی‘ کہا جاتا ہے۔ اور ان کے احترام کا یہ عالم ہے کہ شدید تناؤ والے ایام میں بھی کسی امریکی ذمہ دار نے کبھی سرگئی لاروف کے لیے ہلکا جملہ استعمال نہیں کیا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے متعلق مغربی میڈیا میں طرح طرح کے توہین آمیز جملے آئے روز ملیں گے، مگر سرگئی لاروف کے حوالے سے آپ کو ایسا کچھ بھی نہیں ملے گا۔ سو یہیں سے آپ اندازہ لگا لیجیے کہ جب لاروف جیسا شخص ملاقات کے لیے مغربی یوٹیوب چینلز سے 3 افراد کو ملاقات کے لیے ماسکو مدعو کررہے ہوں تو ان کی اہمیت کیا ہوگی۔

قابل غور نکتہ یہ ہے ان 3 مہمانوں میں سے جو 2 امریکی تھے، ان میں ایک انڈریو لپانوٹانو تھے۔ لپانوٹانو ڈبل کیریئر کے مالک شخص ہیں۔ ان کا پہلا کیریئر قانون کے شعبے کا ہے۔ وہ 25 سال امریکا میں جج رہے ہیں۔ وہاں سے ریٹائر ہوئے تو فاکس نیوز پر 25 سال قانونی امور کے تجزیہ کار رہے۔ وہاں سے کک آؤٹ کئے گئے تو یوٹیوب پر آگئے۔ یہ اپنے چینل پر خود کوئی بھاشن نہیں دیتے۔ حالانکہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس درجے کا بھاشن دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ اپنے چینل پر وہ حالات حاضرہ کے حوالے سے بس انٹرویوز کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے بھی سات، آٹھ منتخب افراد ہیں جن کا یہ ہر ہفتے 25 منٹ کا انٹرویو کرتے ہیں۔ ذرا ان کے ان سات، آٹھ مستقل مہمانوں کی فہرست میں سے بطور مثال صرف 4 پر ایک نظر ڈالیے۔

پروفیسر جان میرش ہائیمر، یہ پولیٹکل سائنٹسٹ ہیں، اور جارحانہ رئیلزم کی تھیوری ان کا تعارف ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ امریکا کی مشہور زمانہ یہودی لابی پر یہ اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔غزہ اور یوکرین دونوں جنگوں کے شدید مخالف ہیں۔

جج لپانو ٹانو کے دوسرے مستقل مہمان ہیں پروفیسر جیفری سیکس، معاشی امور کے پروفیسر اور ایک بے مثال سیاسی مبصر ہیں۔ امریکی اسٹیبلیشمنٹ اور اسرائیل کے پول کھولنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ بہت سے عالمی رہنماء ان سے براہ راست رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

تیسرے ہیں ایلسٹر کروک، یہ ایم آئی سکس سابق اعلیٰ افسر ہیں۔ عالمی سیاست کا جس دیانتداری سے یہ تجزیہ کرتے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سال میں دو تین بار یہ روسی حکومت کے مہمان ہوتے ہیں۔ سابق اعلی انٹیلی جنس آفیسر ہونے کا ایک بڑا ایڈوانٹیج انہیں یہ حاصل ہے کہ کسی بھی اہم حوالے سے بڑے ممالک کی بالکل درست اندر کی خبر انہی سے میسر آتی ہے۔

سکاٹ رٹر، یہ ریٹائرڈ امریکی میرین ہیں۔ سابق امریکی صدر رونالڈریگن اور آخری سوویت سربراہ میخائل گورباچوف کے مابین تخفیف اسلحہ کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت دونوں ممالک کے ماہرین کی ٹیمیں اس کام کی نگران بنی تھیں۔ امریکی ٹیم سوویت یونین گئی تھی اور سوویت ٹیم امریکا۔ اور اسلحے کی تلفی انہی کی نگرانی میں ہوئی تھی۔

سکاٹ رٹر امریکی ٹیم کا حصہ تھے، اور اسی تجربے کے نتیجے میں یہ آگے چل کر پہلی خلیجی جنگ کے بعد عراق میں اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکٹر تعینات ہوئے تھے۔ کمال یہ ہے کہ امریکا نے اپنے اس حاضر سروس فوجی افسر سے یہ بوگس رپورٹ بنانے کی فرمائش کی کہ عراق میں ممنوعہ ہتھیار موجود ہیں تو سکاٹ نے صاف انکار کردیا۔ جس کے نتائج وہ پچھلے 30 سال سے بھگت رہے ہیں۔ ابھی پچھلے ہی سال ایف بی آئی نے یہ کہہ کر ان کے گھر چھاپہ مارا ہے کہ ہمیں شک ہے تم پیوٹن کے ایجنٹ ہو۔

آپ ان 4 ناموں سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جج انڈریو کے یوٹیوب چینل پر عالمی امور کے حوالے سے کیسا پر مغز تازہ ترین تجزیہ دستیاب رہتا ہوگا۔

سرگئی لاروف کے دوسرے امریکی مہمان لیری جانسن تھے۔ اگر حیرت ہو تو کم ازکم اس حیرت پر حیرت نہ کیجیے گا کہ لیری جانسن سی آئی اے کے سابق اعلیٰ افسر ہیں۔ سی آئی اے میں ان کا اہم کیس لاکربی طیارہ کیس ہے جس کی تفتیش ان کے سپرد ہوئی تھی۔امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے ادھیڑنے میں ان کی مہارت مسلمہ ہے۔ اگر یہ ہمارے ملک میں ہوتے تو جہلا نے سوال اٹھانا تھا ’ان سرکاری افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد ہی حق گوئی کیوں یاد آتی ہے؟‘ مگر پڑھے لکھے مغرب میں یہ احمقانہ سوالات نہیں اٹھائے جاتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سرکاری افسر سسٹم اور آڈرز کا پابند ہوتا ہے۔ وہ سروس میں رہتے ہوئے ڈسپلن نہیں توڑ سکتا۔ چنانچہ ان میں سے جو حق گو نہیں ہوتے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی یا کنٹریکٹ جاب کی آپشن اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے سروس میں رہتے ہوئے سسٹم کی تباہ کاریاں دیکھ رکھی ہوتی ہیں، وہ بعد از ریٹائرمنٹ اپنا بڑھاپا اسی کے خلاف کام میں وقف کر لیتے ہیں۔ اور یہ ان کی دیانت ہی ہوتی ہے کہ روسی وزیر خارجہ یہ تک نظر انداز کردیتا ہے کہ یہ تو سابق سی آئی اے افسر ہے۔

اگر آپ غور کیجیے تو ہم نے آپ کے سامنے مغربی یوٹیوب چینلز کے بس چار، چھ نام ہی لیے ہیں۔ پوری لسٹ کا تو شاید ہمیں ادراک ہی نہ ہو۔ نہایت قابل، اعلیٰ شعور رکھنے والوں سے مغربی سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ اور یہ سب وہ ہیں جو مین سٹریم مغربی میڈیا پر آپ کو نظر نہیں آسکتے۔ کیونکہ حقیقت کی دنیا میں فری سپیچ وہ لولی پاپ ہے جو وہ ترقی پذیر ممالک میں اپنے بھاڑے کے ٹٹوؤں سے بس پروپیگیٹ ہی کرواتے ہیں۔ خود امریکا میں فری سپیچ اس بری طرح ممنوع ہے کہ آزاد رائے رکھنے والوں کو اب اپنے یوٹیوب چینلز کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ اور اس کے سبب ان کے مین سٹریم میڈیا کی ویورشپ زمین بوس ہوچکی ہے۔ جس کے نتیجے میں اب وہاں یہ تصور قوت پکڑ چکا کہ سوشل میڈیا  ہی اب مین سٹریم میڈیا ہے۔جس کے لیے وہاں ’متبادل میڈیا‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے سوشل میڈیا کے بارے میں یہ دعویٰ چھوڑیے تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہی مین سٹریم میڈیا ہے؟ تصور ہمارے ہاں بھی یہی ہے کہ مین سٹریم میڈیا پر اسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے کو چیلنج کرنا جرم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہمارا سوشل میڈیا کوئی ایسا متبادل مقام ہے جہاں مجموعی طور پر یہ حسرت پوری ہوتی نظر آتی ہو؟

ہمارے سوشل میڈیا پر تو جہل کا یہ عالم ہے کہ ایک پوسٹ کئی افراد نے شیئر کر رکھی تھی، سو ہم نے بھی پڑھ لی۔ خلاصہ اس کا یہ تھا کہ ڈونلڈٹرمپ نے ٹیرف وار اس لیے چھیڑی تھی کہ اس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ گر جائے تو وہ لوگوں کو کہہ سکیں کہ ان کی کمپنی کے شیئرز خرید لو، یہی ٹھیک وقت ہے۔ اور جب لوگوں نے شیئرز خرید لیے تو ٹرمپ نے ٹیرف والی سکیم 90 روز کے لیے معطل کردی جس سے اسٹاک مارکیٹ چڑھ گئی اور یوں ٹرمپ کی کمپنی کے شیئرز فلاں تناسب سے چڑھ گئے۔

 لکھنے والے کو چھوڑیے شیئر کرنے والوں کو بھی اتنی عقل نہ تھی کہ امریکا کیپٹل ازم کا گھر ہے۔ جس درجے کا معاشی شعور وہاں کا عام شہری رکھتا ہے وہ ہمارے معاشی امور کے ماہرین کے ہاں بھی نہیں ملتا۔ وہ 28ٹریلین ڈالرز کا جی ڈی پی رکھنے والی معیشت یوں ہی نہیں بن گئی۔ ایسے ملک میں پاکستانی سطح کے ٹوٹکے نہیں چلتے کہ اپنی کمپنی کے شیئرز بکوانے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کردی جائیں۔ ایسے صدر کو تو جے پی مورگن ہی کچا چبا جائے۔

اے آئی سے ہی پوچھ لیا ہوتا تو وہ بتا دیتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ 80 کی دہائی سے فری مارکیٹ اکانومی کا مخالف ہے۔ اور وہ اس دور سے ہی ٹیرف والا پہاڑا رٹے جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے اس زمانے میں نیویارک کے ایک اخبار میں اشتہار دے کر اپنا یہ تصور عوام تک پہنچانے کی کوشش کی تھی کہ فری مارکیٹ اکانومی ایک دن ہمیں لے ڈوبے گی۔ ہمیں ٹیرف والے کلاسیکل سسٹم کی طرف جانا چاہیے۔ مگر 40 سال بعد جاکر جب انہوں نے اپنا یہ خواب پورا کرنے کی کوشش کی تو ہوش ان کے اسٹاک مارکیٹ نے نہیں بونڈز مارکیٹ نے اڑا دیے۔ یہ بونڈز مارکیٹ میں آنے والا زلزلہ تھا جس نے ٹرمپ کو ریورس گیئر پر مجبور کیا۔

 سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ٹیرف والی اسکیم سے حاصل کیا کرنا چاہتا تھا؟  معاشی بلیک میلنگ کے لیے ٹول حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ذرا اے آئی سے 2 سوالات پوچھ لیجیے۔ پہلا یہ کہ ایسے ممالک کی تعداد کتنی ہے جن کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار چین ہے؟ وہ آپ کو جواب دے گا کہ ایسے ممالک کی تعداد 124 ہے جن کی سب سے زیادہ تجارت چین کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد آپ یہی سوال اے آئی سے امریکا کے حوالے سے کیجیے۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ صرف 31 ممالک ایسے ہیں جن کی سب سےزیادہ تجارت امریکا کے ساتھ ہے۔ سو وہ جو ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیرف کارڈ کھیلتے ہی کہا تھا کہ نشانہ بننے والے ممالک ہم سے بات چیت کریں۔ اس بات چیت میں ٹرمپ نے یہی بلیک میلنگ کرنا تھی کہ اگر ٹیرف ختم کروانا ہے تو چین کی جگہ امریکا کو اپنا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنایے۔ چین نہیں، ہم سے زیادہ تجارت کیجیے تاکہ ہم 33 کھرب ڈالرز قرضوں کے بوجھ سے نکل سکیں۔ مگر بونڈز مارکیٹ ٹرمپ کی جڑوں میں ایسی بیٹھی کہ فلمی اصطلاح کے مطابق نکل گئی ساری ہیکڑی !

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ کے ملازم حمزہ کا قتل سابق ایس پی اسلام آباد نے کیا،ڈی آئی جی آپریشنز جواد طارق
  • کولمبیا: زرد بخار پھیلنے پر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ، عوام سے ویکسین لگوانے کی اپیل
  • ٹیرف وار: نکل گئی ساری ہیکڑی
  • طوفانی بارش، شانگلہ  میں دفعہ 144 نافذ  
  • جنگلات کی 6 ہزار کنال اراضی خرد برد ریفرنس
  • امریکا نے جنگ چھیڑی تو ایران فاتح ہوگا
  • افغانستان میں امریکی ہتھیار، پاکستان کے استحکام کے لئے خطرہ۔۔۔!امریکی اخبار کے خوفناک انکشافات
  • گورنر سٹیٹ بینک نے عوام کو خوشخبری سنا دی
  • گورنر سٹیٹ بینک نے عوام کو خوشخبری سنا دی 
  • تیل کی قیمتوں میں کمی سے امریکی ٹیرف کا منفی اثر کم ہو جائے گا: گورنر اسٹیٹ بینک