(پہلی قسط)
کہتے ہیں کہ برصغیر کی آزادی اور تقسیم میں دو چیزوں کا بہت عمل دخل تھا۔ ایک ریل اور دوسرا اخبار۔ یہ ایک الگ المیہ ہے جس پر کبھی بات ہونی چاہیے کہ برصغیر آزاد اور تقسیم ایک ساتھ ہوا۔
یہ دو چار برسوں کی بات نہیں بلکہ کم از کم دو صدیوں کا قصہ ہے جب لوگ اپنے بھاری بھاری سامان اٹھائے، جانوروں سمیت ریل میں سوار ہوتے اور پھر وہیں رہ جاتے۔ گھر سے دور بھی گھر جیسا ماحول ملتا تو لمبا سفر بھی لمبا نہ لگتا۔ لوگ ریل کے ڈبے میں داخل ہوتے تو اجنبی ہوتے مگر جب اترتے تو ایک دوسرے سے اس قدر مانوس ہو چکے ہوتے تھے کہ جدائی پر آنکھیں چھلک پڑتی تھیں۔
یہ ریل کی ایجاد ہی تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو دوردراز علاقوں میں بیاہنا شروع کردیا تھا۔ لوگ ریل کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے اور پھر راستے میں پڑنے والے ریلوے اسٹیشن بھی مسافروں کا ایسے استقبال کرتے تھے جیسے وہ مسافر نہیں بلکہ مہمان ہوں۔ ایسے وہ تمام ریلوے اسٹیشن جو جنکشن بھی ہوتے تھے، وہاں تو جب ریل رکتی تو چاند رات کا سا سماں ہوتا۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر اس شہر کی سوغاتیں تو لگی ہی ہوتی تھیں مگر ساتھ میں نان پکوڑے، سموسے اور ذرا سستے پکوان ضرور لگے ہوتے جن سے ہر مسافر اپنا جی خوش کرسکے۔
کھانے پینے کی باتوں کو تو ایک طرف رکھیں، ہر بڑے ریلوے اسٹیشن پر سب سے زیادہ ہجوم کتابوں، اخبارات اور رسائل کے ٹھیلوں پر ہی ہوتا تھا۔ بچوں کی دو دو روپے والی کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں الگ سے پڑی ہوتیں۔ عمرو عیار، ٹارزن کی واپسی اور نہ جانے کیا کیا خوب صورت سے عنوانات ہوتے تھے ان کے۔ عمر کے اس پچھلے حصے میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان پندرہ سے بیس صفحات کی چھوٹی چھوٹی کتابوں کی قمیت کسی صورت بھی دو روپے سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ کاغذ اگرچہ کہ انتہائی نچلے درجے کا ہوتا تھا مگر ہم بچوں کو اس وقت کیا معلوم تھا کہ معیاری کاغذ کیا ہوتا ہے اور غیرمعیاری کیا۔ ہمیں تو اس وقت بس یہ خوشی ہوتی تھی کہ دو روپے میں پوری کی پوری کہانی مل جاتی تھی۔
جہاں تین چار بہن بھائی ہوتے وہاں تو سب کی چاندی ہوجاتی اور جب کی میں بات کر رہا ہوں، اس زمانے میں کم از کم پانچ بچے تو ضرور ہی ہوتے تھے۔ ہر ایک بچہ اپنی کہانیوں کی کتاب صرف دو روپے میں خرید لیتا اور پھر ایک دوسرے سے بدل کر کہانیاں پڑھتے۔ کیا ہی بھلا زمانہ تھا اور پھر کیا ہی اس زمانے کی باتیں تھیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی کو میرے دو روپے والی کہانیوں کی کتاب عجیب لگے۔ میں بھی کسی زمانے میں ایسے ہی عجیب محسوس کرتا تھا جب قادر بھائی مجھے گلی محلے کی ایک آنا یا دو آنے والی لائبریری کے بارے بتایا کرتے تھے۔ قادر بھائی بھی ناں، جب سے گئے ہیں نہ جانے کس کس موقع پر یاد آجاتے ہیں۔ ریل کے قصے کچھ ایسے قصے ہیں جو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتے۔
ہر وہ شخص جس نے فقط ایک بار بھی ریل پر سفر کیا ہو، اس کے پاس بھی ایسے ایسے قصے سنانے کو ہوں گے کہ لطف آ جائے گا۔ قصے تو میرے پاس بھی بہت ہیں مگر فی الحال میں آپ کو چار درویشوں اور ایک بکرے کا حال سناؤں گا جو شہرِاقتدار سے تھل ایکسپریس پر سوار ہوئے اور سرِزمین اولیاء جو کسی زمانے میں نیل کی بھی سر زمین تھی، کو جاتے تھے، مگر ان چاروں درویشوں میں سے کوئی ایک بھی شہرِاقتدار کا باسی نہ تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک بکرا جو ان درویشوں کا ہم سفر تھا، وہ بھی شہرِاقتدار سے تعلق نہ رکھتا تھا۔
کہانی دراصل یہ ہے کہ تین درویش جو منٹگمری کے آس پاس کہیں رہتے تھے مگر منٹگمری کا باسی کوئی بھی نہ تھا، نے فیصلہ کیا کہ وہ سات دریاؤں کی سرزمین جسے کسی زمانے میں سپت سندھو کہا جاتا تھا، کا ایک گول چکر لگانے کا فاصلہ کیا۔ اس گول چکر پر تو بات کچھ لمحوں کے بعد کریں گئے مگر پہلے ذرا سپت سندھو پر بات ہوجائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ سندھ، جہلم، چناب، راوی، بیاس، ستلج اور ہاکڑا۔۔۔ یہ وہ سات دریا تھے جو اس سر زمین سے گزرتے تھے۔
سندھو کو مرکزی دریا مانا گیا تو اس سر زمین کو ست سندھو یا سپت سندھو کہا جانے لگا۔ حکم رانی ایک ایسے راجا کی تھی جو S کی آواز سے ان جان تھے اور اسے H کی طرح ادا کرتا تھا۔ یہ وجہ بنی کہ دوسرے علاقے سے آنے والے لوگ خاص کر عرب جب یہاں آئے تو انھوں نے بھی ’’سپت سندھو‘‘ کو ’’ہپت ہندو‘‘ سمجھا۔ مزید آگے چل کر ہپت ہندو صرف ہندو رہ گیا اور یہی لفظ ہندو، ہندوستان بن گیا۔
یہی ہندو لفظ جب یونانیوں کے یہاں پہنچا تو Hindu لفظ Indos بنا کیوں کہ یونانیوں کے پاس H اور U کی آواز ہی نہیں تھی۔Indos جب لاطینی زبان میں گیا تو India بن گیا۔ سر زمین جو کبھی اپنے سات دریاؤں کی وجہ سے سپت سندھو کہلاتی تھی، پانچ دریاؤں کی وجہ سے پنج آب کہلائی جانے لگی۔ اب پنجاب کے نام پر ہمارے پاس جو ہے کم از کم اس میں تو پانچ دریا نہیں بہتے۔ نہ جانے اس زمین کو اب کیا کہا جائے گا۔ تو میں کچھ لمحوں پہلے بات کر رہا تھا اس گول چکر کی جو چار درویشوں نے پنجاب میں بذریعہ ریل لگانے کا فیصلہ کیا۔
منصوبہ تو تین درویشوں کا تھا جو منٹگمری کے آس پاس ہی کہیں مقیم تھے مگر ان تینوں نے فیصلہ کیا کہ وہ منٹگمری سے رات اپنا سفر عوام ایکسپریس کے ذریعے شروع کریں گے اور راستے کی رنگینیوں کو دیکھتے ہوئے بھری دوپہر لاہور پہنچ جائیں گے اور پھر جب عوام ایکسپریس دریائے جہلم کو پار کر کے پوٹھوہار کے علاقے میں داخل ہوگی تبھی اصل نظارے شروع ہوں گے۔ ان تین درویشوں نے سوچ لیا تھا کہ جوں ہی ریل گاڑی سیٹی بجاتی ہوئی ڈومیلی ریلوے اسٹیشن سے گزرے گی تو یہ تینوں فوٹو گرافر درویش اپنا اپنا کیمرا بوگی کی کھڑکیوں سے باہر نکال لیں گے اور پھر جب ریل سوہاوہ، ترکی، مندرہ جیسے خوب صورت ریلوے اسٹیشنوں پر سے گزرے گی تو یہ ان پہاڑیوں کی خوب منظرکشی کریں گے مگر خدا کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔
عوام ایکسپریس جسے رات تقریباً تین بجے کے قریب منٹگمری پہنچ جانا چاہیے تھا، وہ اگلی صبح تقریباً دس بجے کے قریب منٹگمری پہنچی۔ دھند کی وجہ سے ریل گاڑیاں بہت ہی زیادہ تاخیر کا شکار تھیں اور یوں ابھی بہ مشکل گجرات ہی آیا تھا کہ شام کا سورج ڈوب گیا۔ جب رات کا اندھیرا پھیل چکا تو پھر اس بات سے کیا غرض کہ ریل گاڑی ڈومیلی سے گزر رہی ہے یا پھر سوہاوہ سے یا ترکی سے۔ رات جب ہوچکی تو اس بات سے کیا مطلب کہ ریل موڑ کاٹتے ہوئے سوہاوہ کی سرنگوں میں سے گزر رہی ہے یا پھر سیدھی شہرِاقتدار کو جاتی جا رہی ہے۔
اپنے شیڈول کے مطابق عوام ایکسپریس کو شام سے ذرا پہلے شہرِاقتدار یعنی کہ راول پنڈی پہنچ جانا چاہیے تھا مگر رات گئے ریل راولپنڈی کے پلیٹ فارم نمبر 3 پر رکی اور پھر پشاور کو روانہ ہوگئی۔ تین درویشوں کو سفر کی تھکان کم تھی اور منصوبے کے پہلے حصے کے ناکام ہو جانے کا دکھ زیادہ تھا۔ تینوں درویش اپنی عارضی منزل کی جانب روانہ ہوئے جہاں انھوں نے رات گزارنی تھی۔ ایسے میں ایک چوتھا درویش بھی تھا جو ابھی تک جموں کے قریب راجا سِل کے آباد کیے ہوئے شہر میں اپنی آل اولاد کے ساتھ استراحت کر رہا تھا۔
اس درویش کو بھی رات ایک بجے والی لاری سے شہرِاقتدار کی جانب روانہ ہونا تھا۔ چوتھے درویش کے لیے راول پنڈی پہنچنا قدرے آسان تھا منصوبے کے دوسرے حصے کی شروعات راول پنڈی سے ہونا تھی۔ کچھ دن پہلے ہی مجھے خبر ملی تھی کہ میرے گھر کے قریب ہی ایک لڑکا سڑک پر ہی ایک تھیلا لگاتا ہے جس کے انڈے والے برگر بہت ہی لذیذ ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ کچھ وقت پہلے ہی میں نے کھانے پینے کے معاملے میں ذرا اختیاط برتنا شروع کردی تھی مگر پھر اکثر سوچنے لگا کہ اگر ایک برگر کھانے سے ہی میرا وزن بڑھنا ہے تو برگر کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اب اگر دنیا میں انسان اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی پوری نہ کرے تو اس کے دنیا میں آنے کا کیا فائدہ۔ میں نے دو عدد انڈے والے برگر پیک کروائے، ماجد کو ساتھ لیا اور لاری اڈے کی طرف چل پڑا۔ راتوں میں خنکی تو تھی ہی مگر دھند نہیں تھی جب کہ جنوبی پنجاب ان دنوں شدید دھند کی لپیٹ میں تھا۔
ہم دونوں نے ہی اڈے پر کھڑے کھڑے چائے پی۔ ٹھیک رات ایک بجے گاڑی چل پڑی تو میں نے ماجد کو الوداع کہا اور ایک عدد انڈے والا برگر کھا کر خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگا۔ مجھے کچھ ہوش نہ تھا کہ کب چناب گزرا اور کب جہلم۔ ایک گرم چادر میں نے اپنے اوپر اوڑھ رکھی تھی۔ شاید اس کی بھی گرمائش کا اثر تھا کہ میں آنکھ ہی اس وقت تھوڑی دیر کے لیے کھلی جب گاڑی نے ایک ریستوران کے سامنے بریک لگادیا۔ بریک اگرچہ ڈرائیور نے لگایا تھا مگر محاورے کے طور پر آپ یہی سمجھ لیں کہ بریک گاڑی نے ہی لگایا تھا۔ ایک کپ چائے پینے کے بعد میں پھر سوگیا۔ اب کی بار جب اٹھا تو راول پنڈی آ چکا تھا۔ مؤذن اللّہ کے بندوں کو اس کی جانب بلا چکا تھا۔ ایسے میں لبیک کہنا ضروری تھا۔ میں نے ایک بار پھر ہلکا پھلکا ناشتہ سا کیا اور ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگیا۔ راول پنڈی ایک بڑا سا اسٹیشن ہونے کے ساتھ ایک جنکشن بھی ہے۔
اسٹیشن کی عمارت 1881 کی ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب برصغیر پاک و ہند میں ابھی ریلوے لائن بچھنا شروع ہی ہوئی تھی۔ ریلوے ورک شاپ، انجن لوکو شیڈ، واشنگ لائن کے علاوہ یہ ریلوے کا ایک ڈویژن بھی ہے۔ وکٹورین طرز کی اس عمارت کے پانچ پلیٹ فارم ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آپ جب ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کے بالکل سامنے پلیٹ فارم 1 کی بجائے پلیٹ فارم 3 ہوتا ہے اور اسی پلیٹ فارم 3 کے پیچھے پلیٹ فارم 2 ہے۔
راول پنڈی سے لاہور جانے والی گاڑیاں پلیٹ فارم 3 پر کھڑی ہوتی ہیں جب کہ گولڑہ شریف، اٹک اور پشاور جانے والی گاڑیاں پلیٹ فارم 2 پر کھڑی ہوتی ہیں۔ میں جب ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوا تو راول پنڈی سے لاہور جانے والی نان اسٹاپ ریل گاڑی پلیٹ فارم نمبر 3 پر بالکل تیار کھڑی تھی۔ مجھے چوں کہ ملتان جانے والی تھل ایکسپریس پکڑنا تھی، اس لیے میں اسی کے پیچھے بنے پلیٹ فارم نمبر 2 کی جانب چل پڑا جہاں تھل ایکسپریس میرے انتظار میں کھڑی تھی۔
میں پہلے بھی راول پنڈی سے جھلار تک تھل ایکسپریس پر سفر کر چکا ہوں، اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ بنا کسی سے پوچھے پلیٹ فارم نمبر 2 کی جانب چل پڑا۔ آخری بوگی میں چار سیٹیں چار درویشوں کے لیے مقرر تھیں۔ میں چپ چاپ اسی بوگی میں سوار ہو گیا جس میں آدھا ڈبہ تو سواریوں کے لیے تھا مگر باقی کا آدھا ڈبا گارڈ کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس آخری بوگی کے بہت سے فوائد اور ایک دو نقصانات بھی تھے۔ آخری بوگی باقی پوری ریل سے بے نیاز تھی۔ بقیہ ریل میں کیا ہو رہا تھا، اس آخری بوگی کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ بقیہ پوری گاڑی میں اندر ہی اندر راستہ بنا تھا آخری بوگی میں ہونے کا مطلب تھا کہ یہاں کوئی نہ تو دال نمکو والا آئے گا اور نہ ہی کوئی چائے پانی والا۔ اگرچہ کہ اس بوگی میں چار درویش سفر کر رہے تھے مگر وہ اتنے بھی درویش نہ تھے کہ انھیں اپنے پیٹ کی کوئی خیر خبر ہی نہ ہوتی۔
یہ بوگی انتہائی پُر سکون تھی کہ ہر آنے والے پلیٹ فارم پر آخری ڈبا پلیٹ فارم کے بالکل آخری کونے میں لگا ہوتا اور سب مسافروں کا ہجوم شروع کے ڈبوں پر ہی ہوتا تھا۔ شہرِاقتدار کی صبح خنک زدہ تھی۔ ایک درویش تھل ایکسپریس کی آخری بوگی میں سوار ہوگیا۔ تین درویشوں کو گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن اس آخری بوگی میں سوار ہونا تھا اور آگے کسی ریلوے اسٹیشن پر اس بکرے نے بھی ان درویشوں کے ساتھ آن ملنا تھا۔ تھل ایکسپریس نے رفتہ رفتہ رینگنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر کے بعد ٹکٹ چیک کرنے والے پہلے درویش کے پاس پہنچ گئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم ٹکٹ چیک کرنے والوں کو اپنے بچپن میں ٹی ٹی صاحب کہتے تھے۔ معلوم نہیں کیوں کہتے تھے اور ان کو یوں ٹی ٹی کہنا درست تھا بھی یا نہیں مگر کہتے ہیں انھیں ٹی ٹی انکل ہی تھے۔
جلد ہی گولڑہ شریف جنکشن آن پہنچا اور تھل ایکسپریس کچھ دیر کے واسطے پلیٹ فارم پر رک گئی۔ تینوں درویش پینتالیس منٹ پہلے سے ہی گولڑہ شریف جنکشن اپنی فوٹو گرافی کی ٹھرک پوری کرنے کے لیے موجود تھے۔ مجھے دور سے ہی پیر مہر علی شاہ کی خوشبو آنے لگی۔ میں نے دور سے ہی ان کو سلام پیش کیا اور اپنے تین درویشوں سے ملنے کے واسطے آخری بوگی سے نیچے اتر پڑا۔ گولڑہ شریف جنکشن سے ایک لائن پشاور کو جاتی ہے جب کہ دوسری لائن ترنول کی طرف مڑ جاتی ہے۔ گولڑہ شریف جنکشن کے ریلوے میوزیم کا کیا ہی ذکر کرنا، ہر شخص یہاں کی خوب صورتی، یہاں کھڑی نیرو گیج ریل اور ریل کی پرانی چیزوں کے بارے جانتا ہی ہے۔
گولڑہ جنکشن پر چاروں درویش اکٹھے ہوئے، جپھیاں ڈالی گئیں جب کہ پپیوں سے پرہیز کیا گیا۔ چند لمحوں کو تھل ایکسپریس کے آنے سے جو رونق اس جنکشن پر ہوئی تھی، وہ پھر ختم ہونے والی تھی۔ تھل ایکسپریس نے سیٹی بجائی اور اس بکرے کی جانب چل پڑی جسے اب ان چاروں درویشوں کے ساتھ شام کے سائے ڈھلنے تک سفر کرنا تھا۔ دنیا میں ترقی ریل سے شروع نہیں ہوئی۔ ریل کی پٹری تو بہت پہلے ہی بچھ چکی تھی۔ ترقی کی رفتار میں اہم کردار پہیے اور ریل کی پٹری نے ضرور ادا کیا مگر بہت سے مسائل تو رہے اور ذرائع نقل و حمل میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آسکی۔ ریل کی پٹری بچھ گئی۔ اس پر چھوٹے ڈبے بھی بنادیے گئے جن کو تیزرفتار گھوڑے کھنچتے تھے۔ پہاڑوں سے کوئلہ نکالنا ہو یا دوسری معدنیات کو نکالنا مقصد ہو، ریل کی پٹری بچھائی جاتی جسے مضبوط آدمی کھینچا کرتے تھے۔
مشینی ترقی کو پہیے تب لگے جب بھاپ ایجاد ہوئی۔ خدا نے بھی کیا کیا سوچ انسان کو بخشی ہے۔ یہاں کسی نے چائے کا پانی کیتلی پر چڑھایا اور تو اس کی ٹونٹی سے بھاپ نکلنے لگی۔ سائنس داں آدمی تھا۔ بے چارے کو اپنے کسی تجربے کے لیے خاموشی کی ضرورت ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ تخلیقی کاموں کے لیے تنہائی درکار ہوتی ہے۔ ایک تنہا انسان ہی ایک اچھا تخلیق کار ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ مصور ہو، سائنس داں ہو، اچھا ادب تخلیق کرنا ہو یا پھر کسی نئی روح کی تخلیق ہو۔ اگر آپ اپنی ذات سے لطف اندوز ہونا نہیں جانتے، تنہائی سے لطف سے واقف نہیں تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ ایک تخلیق کار ہو سکتے ہیں۔ وہ بے چارہ سائنس داں بھی اسی لئے تنہائی میں کچھ کام کر رہا ہو گا کہ چائے کی طلب نے اسے پانی کی کیتلی چولہے پر رکھنے پر مجبور کیا۔ ٹونٹی سے بھاپ نکلی تو بھاپ کے شور نے اس سائنس داں کے تخیل کو پریشان کیا ہوگا۔
بھاپ کے شور کو ختم کرنے کے لیے اس غریب اور معصوم انسان نے کیتلی کی ٹونٹی کو بھی ڈھانپ دیا جس سے کی کیتلی کا ڈھکن اوپر کو اٹھنے لگا۔ سائنس داں آدمی تھے، میری طرح کا نکما انجنیئر تھوڑا تھا۔ فوراً متوجہ ہوا کہ بھاپ میں اتنی طاقت ہے کہ کیتلی کے ڈھکن کو اوپر اٹھا سکے۔ پس وہی دن انسان کی ترقی کا اہم دن ٹھہرا اور یوں انجن کی ایجاد کی طرف پہلا قدم اٹھا۔ ایک عرصہ تک بھاپ سے چلنے والا انجن کمروں میں ہی بند رہا۔ صنعتی کام تو دے رہا تھا مگر بے چارہ کھلی فضاؤں میں سانس نہ لے سکا۔ بھلا ہو انیسویں صدی کے امریکی انجنیئر رابرٹ فولٹن کا جس نے انجن کو ایک بحری کشتی میں نصب کیا اور اس کا پہیا گھمانے میں کام یاب ہوگیا۔ اس کشتی کو چلانے والے انجن پر نظریں ایک انگریز انجنیئر جارج اسٹیفن نے گاڑ لیں۔ جارج بھی میری طرح بڑا ہی کوئی حاسد قسم کا انسان تھا۔
دوسروں کی کام یابیوں سے بڑا ہی حسد کرتا تھا مگر اس کا حسد منفی نوعیت کا نہ تھا بلکہ وہ بھی میری طرح حسد کو ایک مثبت شے کے طور پر لیتا تھا۔ جارج نے جب انجن کو کشتی پر یوں سیرسپاٹے کرتے دیکھا تو من ہی من میں ٹھان لی کہ وہ انجن کو پانیوں سے نکال کر زمین پر لائے گا اور اس کے مدد سے مختلف چیزوں کو دوڑائے گا۔ تجربات ہونے لگے، نئے نئے ماڈل بننے لگے۔
ریل کی پٹری تو پہلے سے ہی تھی مگر چوں کہ انھیں صرف گھوڑے کھنچتے تھے، اس لئے ان کی رفتار تو کم ہی تھی مگر مضبوطی بھی زیادہ نہ تھی۔ انجن کے لئے نئی فولادی اور مضبوط پٹری کو بچھایا گیا اور ایسی ریل کار بنالی گئی جو بھاپ سے چلنے والے انجن سے چلتی تھی مگر شروع شروع میں ابھی اسے صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا تھا۔ جلد ہی تقریباً 1830 میں جارج نے پہلی بار تاجِ برطانیہ کے دو بڑے شہروں لیور پول اور مانچسٹر کے درمیان ایک باقاعدہ نظام کے تحت مسافر گاڑی چلادی جس کی ابتدائی رفتار تقریباً ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔
اس کے بعد کیا امریکا، کیا افریقہ ہر جگہ بس بھاپ اڑاتا ہوا انجن اپنے پیچھے چند ڈبوں کو لے کر گھومتا رہتا۔ مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے ہونے لگا اور دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں۔ ریل اور ترقی کا سفر ایک ساتھ چلتا رہا مگر جب پیسوں سے پیٹ کافی حد تک بھر گیا تو ماحول سے دوستی کا بھی خیال آیا۔ سوچ آئی کہ کوئلہ انجن کو تو چلا تھا مگر اس سے بننے والا کالا دھواں ماحول کو شدید متاثر کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو ریل کو بجلی سے چلانے کا فیصلہ ہوا مگر بعد میں انجن صاحب کو وزنی بیٹریوں سے بھی چلایا گیا مگر ریل کی رفتار زیادہ نہ ہوسکی۔
واضح رہے کہ ریلوے انجن کو لوکو موٹیو Locomotive، بھاپ سے چلنے والے انجن کو اسٹیم لوکو موٹیو اور برقی انجن کو الیکٹرک لوکو موٹیو کہا جاتا ہے، مگر ہم سادہ بندے صرف انجن کے لفظ سے ہی گزارہ کریں گے۔ ریل کی پٹریوں پر بھاپ سے چلنے والا اور برقی انجن تو چل ہی رہا تھا کہ اسی دوڑ میں 1912 میں ڈیزل انجن بھی شامل ہوگیا۔ رفتہ رفتہ تجربات سے ثابت ہونے لگا کہ یہ ڈیزل انجن ہی سب سے بہتر اور تیزرفتار انجن ہے۔ دوسرے انجن خاص کر بھاپ سے چلنے والے انجن کو آہستہ آہستہ متروک کردیا گیا۔ بھاپ سے چلنے والے انجن کی سیٹی کہیں گم سی ہوگئی اور اب ڈیزل انجن ہی ہر جگہ دنداناتے پھرتے ہیں۔ انگریز جب ساری دنیا میں اپنے اسٹیم انجن کی بدولت اپنا منہ کالا کرواچکے تو چپکے سے سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ انھوں نے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ یہ فتوحات کسی بھی صورت ممکن نہ تھیں اگر انھیں اندر سے تعاون فراہم نہ ہوتا۔ میسور کے ٹیپوسلطان سے لے کر پنجاب کے سکھ حکم راں، سب اپنوں کی سازش کا شکار ہوئے اور یوں انگریز برسراقتدار آئے اور اپنے ساتھ کالا دھواں چھوڑنے والا کالا انجن بھی لائے۔
وجہ عوام کی سہولت تو نہ تھی مگر اپنی فوجی نقل و حمل ضرور آسان اور مضبوط بنانا تھی۔ اگرچہ کہ بعد میں یہی ریل عوام کی سہولت کے لیے بھی استعمال ہوئی بلکہ ہو رہی ہے۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو ریل کا نظام تو دور کی بات ہے، مناسب سڑکیں تک نہ تھیں۔ انھوں نے سڑک پر توجہ دینے کی بجائے ریل پر توجہ مرکوز کی اور علاقے پر علاقے فتح کرتے چلے گئے۔ پہلی ریلوے لائن بمبئی سے ’’تھانے‘‘ کے درمیان چلائی گئی جب کہ آپسی فاصلہ 34 کلومیٹر کا تھا۔ پٹری کی چوڑائی پانچ فٹ چھے انچ رکھی گئی اور مزید پٹریوں کے لیے یہی معیار مقرر کیا گیا مگر بعد میں اس سے تنگ پٹریاں بھی اکثر علاقوں میں بچھائی گئیں جنھیں میٹر گیج اور نیرو گیج کا نام دیا گیا۔ پہلی مسافر ریل گاڑی کے بارے دل چسپ بات یہ بھی تھی کہ اس کی چار سو مسافروں کے لیے تیرہ ڈبے تھے اور ان تیرہ ڈبوں کو تین انجن کھینچ رہے تھے۔
تینوں انجنوں کے نام بھی رکھے گئے تھے جو صاحب، سلطان اور سندھو تھے۔ ہے ناں یہ دل چسپ بات۔ ایک بار جب ریل گاڑی ہندوستان میں چلنا شروع ہوئی تو پھر نہ انگریز رکے اور نہ ہی ان کی ریل۔ دریاؤں، نہروں پر پُل تعمیر ہونے لگے۔ انگریز طورخم اور چمن کے راستے ریل کو افغانستان میں لے گئے جب کہ ان کا منصوبہ تھا کہ ہندوستان کو ریل کے ذریعے برطانیہ سے ملا دیا جائے۔ ان تمام منصوبوں پر تیزی سے کام جاری تھا کہ جرمنی میں ہٹلر کو نہ جانے کیا مستی سوجھی کہ اس نے جنگِ عظیم اول چھیڑ دی۔ انگریز اور اس کے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا ڈالے۔ چند ہی دنوں میں پورے کا پورا یورپ ہڑپ کرگیا مگر اس قدر بے وقوف اور لاعلم تھا کہ شدید سردیوں میں روس پر حملہ کردیا۔ وہاں ایسا پھنسا کہ پھر نکل نہ سکا۔ اگرچہ کہ ہٹلر ہار گیا مگر اس نے انگریزوں کا اچھا خاصا نقصان کردیا۔ رہی سہی کسر جنگِ عظیم دوم نے پوری کردی۔
اتحادی ایٹم بم کی بدولت جنگ تو جیت گئے مگر انگریزوں کا اس قدر نقصان ہوچکا تھا کہ انھیں نہ صرف ہندوستان سے نکلنا پڑا بلکہ اور بھی بہت سے علاقے انھیں اس وقت حالی کرنا پڑے۔ انگریزوں نے چودہ اگست 1947 کو ہندوستان آزاد اور تقسیم کردیا۔ تقسیم کے وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں آٹھ ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن موجود تھی جس میں الحمدللّہ ہم نے آج تک ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں کیا جب کہ دوسری جانب بھارت میں یہ باسٹھ ہزار کلو میٹر تھی جسے وہ اب تقریباً دو گنا کرچکے ہیں۔ آج روس اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی ریلوے بھارت کے پاس ہے۔
بھارت نے نہ صرف اپنی مسافر گاڑیوں بلکہ مال بردار گاڑیوں پر بھی محنت کی جب کہ ہماری حکومتوں نے ریل کی بجائے سڑک پر محنت کی۔ جان بوجھ کر ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی گئی، ریلوے کو نقصان پہنچایا گیا اور رفتہ رفتہ ریلوے لائنیں خالی ہونے لگیں۔ دنیا بھر میں جہاں مال گاڑیوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کو سب سے محفوظ اور سستا ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، وہیں ہمارے یہاں مہنگا رحجان ہے کہ مال گاڑیوں کی ترسیل بھی ٹرکوں اور ٹریلروں سے ہوتی ہے۔ ہم وہ عظیم لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہر ادارے کو تباہ کیا ہے۔ کسی دوسرے کو ہمیں نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
گولڑہ شریف جنکشن سے تھل ایکسپریس چلی تو چاروں درویش آپس میں کچھ علیک سلیک کرنے لگے، اپنے اپنے غمِ روز گار بتانے لگے۔ گمان ہی نہ پڑتا تھا کہ راجہ سِل کے آباد کردہ شہر کا درویش ان سب سے پہلی بار مل رہا ہے۔ باتوں ہی باتوں میں تھل ایکسپریس اپنی رفتار کم کرنے لگی اور ٹیکسلا کے جنکشن پر رک گئی۔ اگر آپ لفظ جنکشن کے مطلب سے آشنا نہیں تو سمجھ لیں کہ جنکشن وہ ریلوے اسٹیشن ہوتا ہے جہاں سے آپ آگے کی جانب ہی دو مختلف سمتوں میں جا سکتے ہیں۔ اب بات ٹیکسلا کی چل رہی ہے تو اسی کی مثال لے لیجیے کہ آپ اگر گولڑہ شریف سے ٹیکسلا پہنچیں تو یہاں سے آپ سیدھا واہ کینٹ کی طرف بھی جا سکتے ہیں اور حویلیاں کی طرف بھی مڑ سکتے ہیں۔
انگریز سرکار کی مہربانی کہ وہ ریلوے لائن کو حویلیاں تک لے گئے۔ ہم نے بھی انگریزوں کی بات کو حرفِ آخر جانا اور حویلیاں سے آگے بڑھنا اپنے لیے غالباً گناہ تصور کرلیا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ عربوں کی طرح ہمارے بھی عقائد بدل رہے ہیں۔ سنا ہے چین حویلیاں سے ہی ریلوے لائن کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے جو کہ درہ خنجراب سے ہوتی ہوئی کاشغر تک جائے گی۔ خدا چین کو جزائے خیر عطا کرے جو ہمارے نئے مائی باپ بننے جا رہے ہیں۔ ٹیکسلا کی دفاعی اہمیت اور یہاں موجود ہیوی انڈسٹریز سے تو سب واقف ہیں ہیں اور یہاں کی تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اہمیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ٹیکسلا کا شمار وادیِ سندھ کی تہذیب کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔
اس شہر کا ذکر بدھ مت، ہندو مت، اور جین مت کی کتابوں میں موجود ہے۔ تقریباً دو سو قبل از میسح ٹیکسلا میں چھوٹے بڑے مختلف شہر آباد تھے جن میں سب سے مشہور شہر ’’سرکپ‘‘ تھا۔ محکمہ آثارِقدیمہ کو یہاں سے سونے اور چاندی کی زیورات بکثرت ملتے رہے ہیں جن پر بنے ہوئے نقش و نگار یہاں کے رہنے والوں کے ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔ کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی سات تہوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ شہر تقریباً چار سو سال تک آباد رہا۔ اس شہر کو سب سے زیادہ ترقی کنشک بادشاہ کے عہد میں ملی۔ کنشک بادشاہ بدھ مت مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ کنشک بادشاہ کی فتوحات کا سلسلہ شمالی ہند سے لے کر پامیر کے پار تک پھیلا ہوا تھا جن میں کشمیر کا سارا علاقہ بھی شامل تھا۔
کتابوں میں ہے کہ کنشک بادشاہ کا پایہ تخت پاکستان کا موجودہ شہر پشاور تھا۔ بادشاہ نے اس شہر یعنی پشاور کو بدھ مت اور علم کا مرکز بنا دیا تھا۔ بادشاہ کو جو شہرت کی بلندیاں نصیب ہوئیں وہ اس کی جنگی فتوحات کی بدولت نہیں بلکہ مذہبی خدمات کی بدولت ملیں۔ اگرچہ کہ کنشک قبولِ بدھ مت سے پہلے ایک ظالم بادشاہ تھا مگر پھر نہ جانے کیوں اپنے مظالم سے توبہ تائب ہوگیا۔ مختلف شواہد کے مطابق کنشک بادشاہ یونانی، ایرانی اور ہندو دیوتاؤں کی بھی عبادت کیا کرتا تھا مگر بنیادی طور پر وہ بدھ مت کا ہی پیرو کار تھا۔ ’’سرکپ‘‘ میں آج بھی بہت سے لوگ آپ مورتیاں اور سکے بیچتے نظر آتے ہیں جو کہ ظاہر سی بات ہی سب نقل ہی ہے۔ آپ ٹیکسلا سے نکلیں تو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہی واہ کینٹ اور حسن ابدال ہیں۔ واہ کینٹ اگرچہ کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے مگر اپنے قد کی بدولت ایک بڑا شہر ہے۔ شرح خواندگی آپ تقریباً سو فی صد ہی سمجھ لیں۔
اس کے ساتھ ہی سکھ مذہب کے ماننے والوں کا ایک شہر حسن ابدال ہے جہاں گردوارہ پنجہ صاحب ہے۔ واہ وہ شہر جس کا نام مجھے کبھی بھی سمجھ نہیں آیا۔ نہ جانے کیوں، کیسے اور کب کسی نے اس کا نام واہ رکھ دیا تھا۔ واہ شہر کا پرانا نام ’’جلال سر‘‘ تھا۔ شہنشاہ اکبر کے دورِحکومت میں، اکبر کا جرنیل مان سنگھ 1581سے 1586 تک اس علاقے میں رہا۔ اس شہر کی خوب صورتی کے پیش نظر مان سنگھ نے واہ میں ایک بارہ دری اور باغ بنوایا اور اس باغ میں یہاں بہنے والے چشمے کے پانی کو ایک چھوٹی نہر کے ذریعے تالاب تک لایا گیا۔
29 اپریل 1607 کو مغل بادشاہ جہانگیر کابل جاتے ہوئے جب یہاں سے گزرا تو یہ خوب صورت جگہ دیکھتے ہی اس کی زبان سے نکلا ’’واہ‘‘۔ چوںکہ مغلوں کی زبان فارسی تھی اور فارسی میں واہ حیرت کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے، لہٰذا شہنشاہ کا یہ لفظ تاریخ کے ورق پر ثبت ہوگیا اور اس علاقے کو جلال سر کی بجائے ’’واہ‘‘ کہا جانے لگا۔ جہانگیر نے اس کا ذکر اپنی تزک جہانگیری میں بھی کیا ہے۔ بعد میں مغل بادشاہ کابل یا کشمیر جاتے ہوئے اس جگہ قیام کرتے رہے۔ برطانوی دورحکومت میں اس باغ کو1865ء میں واہ کے نواب حیات خان کی تحویل میں دے دیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پلیٹ فارم نمبر عوام ایکسپریس ریلوے اسٹیشن راول پنڈی سے چاروں درویش تین درویشوں کنشک بادشاہ میں سوار ہو ریلوے لائن تین درویش اسٹیشن کی جانے والی چار درویش انجن کو ا کی وجہ سے کی بدولت سکتے ہیں کی بجائے کرتا تھا دنیا میں ریل گاڑی انھوں نے کے ذریعے تھی مگر دو روپے کی جانب رہا تھا ہوتا ہے کے ساتھ اور پھر اور ایک درویش ا گیا اور میں کچھ ایک بار کے قریب نے والی گیا مگر تھا مگر تھے اور کار ہو نہ تھی جب ریل نے لگی کر رہا کی بات اپنے ا نہ تھا کے بعد کی طرف ئے اور بہت سے کا تھا نے بھی تھی کہ کے پاس اور اس کیا ہو تھا کہ کے لیے رہی ہے ا نہیں
پڑھیں:
نئے پلیئرز کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں
کراچی:’’ ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اب انگلینڈ کو کسی نئے کپتان کی ضرورت ہے، جنوبی افریقہ سے میچ کے بعد میں قیادت چھوڑ دوں گا‘‘
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران جب جوز بٹلر نے یہ کہا تو صحافیوں کو خاصی حیرت ہوئی کیونکہ ہمارے ملک میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کے بعد صرف باتیں ہوئیں عملی طور پر کچھ نہ ہوا، لوگ بھی کچھ دن بعد بھول گئے۔
اب 29 سال بعد پاکستان میں کوئی آئی سی سی کا ایونٹ ہو رہا ہے اور ہماری ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں چند دن بعد ہی گھر بیٹھ گئی، ان دنوں عوام بہت غصے میں ہے، ٹی وی پر بیٹھے بعض سابق کرکٹرز ریٹنگ کے چکر میں آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں، کسی کے پاس مسائل کا حل موجود نہیں لیکن سوشل میڈیا پر ویوز کیسے بڑھائیں یہ سب جانتے ہیں۔
پاکستان ٹیم کا ایونٹ میں سفر ختم ہوئے کئی دن گذر چکے لیکن پی سی بی ہمیشہ کی طرح خاموش رہ کر عوامی غم و غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہا ہے، اعلیٰ حکام، کپتان، کوچ، سلیکٹرز کسی نے بھی آگے بڑھ کر ناقص کارکردگی کی ذمہ داری قبول نہ کی۔
ایک پھل فروش اور ریڑھی والے کو بھی علم ہے کہ شکست کی بڑی وجہ خراب ٹیم سلیکشن تھی لیکن انہی سلیکٹرز کو اب دورہ نیوزی لینڈ کیلیے اسکواڈ منتخب کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
سننے میں آ رہا ہے کہ مکمل طور پر نوجوان کرکٹرز پر مشتمل اسکواڈ چنا جائے گا، یہ ہمارے ’’آئین اسٹائن‘‘ عاقب جاوید کا ایک اور غلط فیصلہ ہوگا،گذشتہ برس جب گرین شرٹس کا مکمل اسکواڈ کیویز کے دیس گیا تو ابتدائی چاروں ٹی ٹوئنٹی ہارنے کے بعد بمشکل آخری میچ میں فتح ملی تھی۔
نئے پلیئرز کو نیوزی لینڈ کی پچز پر کھیلنے کا موقع دینا ان کے کیریئر سے کھیلنے کے مترادف ہوگا، کیویز کے تو بچوں کو بھی ہم گذشتہ برس اپنے ہوم گرائونڈ پر نہیں ہرا سکے تھے، سیریز 2-2 سے برابر رہی تھی، حال ہی میں اس نے ہوم گرائونڈ پر ہمیں مسلسل تین ون ڈے میچز میں شکست دی۔
نئے پلیئرز اگر ناکام رہے تو انھیں باہر کر کے پھر سینئرز کو واپس لے آئیں گے جو بنگلہ دیش کیخلاف پرفارم کر کے دوبارہ ہیرو بن جائیں گے، ابھی مشکل ٹور پر مکمل قوت کے ساتھ جانا چاہیے۔
سینئرز کے ساتھ چند جونیئرز کو ضرور لے جائیں جنھیں سیکھنے کا موقع بھی ملے گا،البتہ اگر فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ چاہے ٹیم جیتے یا ہارے یہ ینگسٹرز 6 ماہ تک باہر نہیں ہوں گے۔
جب عثمان خان کو کسی ڈیل کے نتیجے میں مسلسل اسکواڈ کے ساتھ رکھا جا رہا ہے تو نوجوان پلیئرز کے ساتھ بھی ایسا کرنا غلط نہ ہوگا۔
بنگلہ دیش کیخلاف ’’ نام نہاد‘‘ سپر اسٹارز کو کسی صورت نہ کھلائیں اور آرام کا موقع دیں،میں جانتا ہوں آپ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے، اس لیے یاد دلاتا چلوں کہ امریکا میں کیا ہوا تھا، نوآموز میزبان ٹیم نے بھی ہمیں زیر کر لیا تھا،اس کے اہم کردار وہاب ریاض اب مینٹورز کے باس ہیں، دبئی میں میچ دیکھنے بھی گئے تھے حالانکہ ان کا وہاں کیا کام تھا، وہ پس پردہ رہ کر معاملات چلا رہے ہیں۔
اطلاعات یہی ہیں کہ عاقب جاوید اکیڈمیز کا کام سنبھال لیں گے، اب بھی ملبہ چند کھلاڑیوں پر گرا کر دیگر کو بچا لیا جائے گا، خطرناک بیماری میں مبتلا مریض کا درست علاج نہیں کیا جا رہا، پیناڈول کھانے سے وہ کیسے ٹھیک ہو گا؟ سرجری بھی انہی ڈاکٹرز سے کروا رہے ہیں جنھوں نے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس حال پر پہنچایا، ایسے کیسے پاکستان کرکٹ ٹھیک ہو گی۔
سابق کرکٹرز بھی مخلص نہیں اور اس وقت تک سچ بولتے ہیں جب تک انھیں پی سی بی میں نوکری نہیں مل جاتی، ان کا کام ہے کہ مسائل کی درست نشاندہی کریں لیکن وہ موجودہ کرکٹرز سے اپنا ذاتی اسکور سیٹل کر رہے ہوتے ہیں۔
ماضی کے ایک ’’ عظیم ‘‘ فاسٹ بولر صرف اس لیے بابر اعظم سے چڑتے ہیں کیونکہ انھوں نے اس کے بتائے ہوئے ایجنٹ سے معاہدہ نہیں کیا تھا، عاقب جاوید کی ٹی وی پر باتیں سن کر ہمیں لگتا تھا کہ ان کے پاس ملکی کرکٹ کے مسائل کا حل ہے اور ان سے اچھا دنیا میں کوئی اور ہے ہی نہیں لیکن افسوس پاور ملنے پر وہ تو دیگر سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔
دنیا میں سب سے آسان کام تنقید کرنا ہی ہے، اگر آپ کسی خامی یا غلطی کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن اس کا حل نہیں بتاتے تو فائدہ کیا، ہمارے سابق کرکٹرز نے آج تک اپنے کتنے متبادل تیار کر کے دیے،ٹی وی چینلز کا یہ حال ہے کہ محمد رضوان کی انگریزی کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں اور بیچارے شان مسعود کو اچھی انگلش پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں، اگر کوئی اچھی بات کرے تو ویوز نہیں آئیں گے، جتنا شور مچائیں گے اتنی ہی ریٹنگ ملے گی، پی سی بی نے بڑے بڑے معاوضوں پر کئی سابق اسٹارز کو ملازمتیں فراہم کیں انھوں نے ملک کو کون سا ٹیلنٹ دیا؟ عبدالرزاق نے کسے چھکے لگانا سکھا دیا۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے سربراہ عبداللہ خرم نیازی دبئی میں مفت میچ دیکھنے گئے، ان کے دور میں کیا بہتری آئی، چیئرمین محسن نقوی کو وہاب ریاض، عبداللہ خرم نیازی اور ان جیسے دیگر افراد سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا، انھیں کہیں اور جاب دلا دیں، کون وزیر داخلہ کو منع کرے گا۔
محسن نقوی نے اسٹیڈیمز بنا دیے، بھارتی بورڈ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی لیکن ان کی محنت پر ٹیم کی شکستیں پانی پھیر رہی ہیں، وہ طاقتور شخصیت ہیں اور ملکی کرکٹ کیلیے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں، جس طرح کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں کرکے بہتری کی امیدیں لگائی جا رہی ہیں اسی طرح وہ ایک بار اپنی ٹیم میں بھی تبدیلی کر کے دیکھیں۔
لالچی اور خود غرض بعض سابق کرکٹرز سے چھٹکارہ پا کر ملک سے مخلص افرادکو ذمہ داری سونپیں پھر دیکھیں کیسے معاملات میں بہتری آتی ہے، اب تو ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ بھی سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں، کرکٹ کو ہاکی بننے سے روکنا ہے تو ایک بار آستینیں بھی جھاڑ کر دیکھ لیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)