(گزشتہ سے پیوستہ)

گجراتی نے جدید دور میں پُرتگِیز [Portuguese] اور انگریزی سمیت متعدد زبانوں سے الفاظ مستعار لیے ہیں، جیسے پرتگیز کا میستر (mestre) جو انگریزی میں جاکر masterہوا ، گجراتی میں مِستری بن گیا، انگریزی کا towel، گجراتی میں ٹووال (tuval) بن گیا جسے اُردو میں تولیا یا تولیہ کہا جانے لگا (لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے والد گرامی مرحوم کے پھوپھی زاد بھائی اور اُن کا گھرانہ راجستھان میں قیام کے سبب، تووال ہی بولتا تھا اور بولتا ہے)، پرتگیز میں sabãoکا مطلب ہے صابُن یا سابُن، گجراتی میں اسے ’سابُو ‘ کہتے ہیں، مگر اس لفظ کی تحقیق بہت پیچیدہ ہے۔ میری پرانی معلومات کے مطابق یہ سابُن یا علاقے کے فرق سے ہابُن، قدیم ہندوستانی زبانوں میں موجود تھا جو عربی میں گیا تو صابون اور (جدید عربی میں) صافون ہوگیا اور ہم اردو والے عربی کے زیرِاثر اِسے صابُن ہی کہنے اور لکھنے لگے۔ پرتگیز کا ananás، اردو ہی میں انناس نہیں، بلکہ گجراتی میں بھی اناناس ہے۔ پرتگیز کا padre، گجراتی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں پادری بن گیا ، حالانکہ اس کا پرانا تعلق سنسکرت کے پاتر سے ہے جو پہلوی اور فارسی سے ہوتا ہوا یورپ گیا اور بتدریج تبدیل ہوکر انگریزی میں father ہوگیا۔

ہندی کا بنگلا یا بنگلہ، گجراتی میں بنگلو ہوا اور بنگلہ میں جاکر بنگلہ ہی بنا جسے انگریزی نے اپنایا تو Bungalow بنادیا اور پاکستانی انگریز اِسے بینگ لو کہنے لگے۔ مطلب ہے گھاس پھوس کی بنی ہوئی جھونپڑی یا مکان یا بنگال کے طرز پر بنا ہوا مکان۔ لسانی قیاس یہ کہتا ہے کہ انگریزی کا

Coolie یعنی قُلی، درحقیقت کولی یا کولھی ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے جو اِس خطّے (خصوصاً گجرات، راجستھان، تھر اور سندھ) کے قدیم ہندو باشندے ہیں۔ انگریز نے 1598 کے لگ بھگ یہ لفظ استعمال کیا اور ہندوستان کے علاوہ چین میں بھی Coolie رائج کیا۔ انگریزی کا Tank، پرتگیز سے مستعار ہے اور اِس کی جڑ میں موجود ہے گجراتی کا ٹانکھ (tankh)۔

یہاں مزید الفاظ کی فہرست نقل کرنے کی بجائے چند اور اَہم نِکات پیش کرتا ہوں:

 ا)۔ سرسری لسانی مطالعے کے بعد لوگ سماجی سطح پر گجراتی بولنے والوں کے تین گروہ بیان کرتے ہیں:

ہندو گجراتی، پارسی گجراتی، مسلم گجراتی

اس کی تفصیل میں یہ بھی شامل ہے کہ متعصب ہندوؤں کے نزدیک خالص گجراتی، قدیم دور کی طرح سنسکرت زدہ ہی ہونی چاہیے، جبکہ اس کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے اُن کے نزدیک جناح اور گاندھی دونوں کی گجراتی گھٹیا تھی۔ پاکستان میں گجراتی بولنے والوں میں جوناگڑھ اور دیگر علاقہ جات سے ہجرت کرکے آنے والے مختلف نسلوں کے لوگ (بشمول میمن) ، سُنّی خوجہ، شیعہ (اِثناء عشری) خوجہ، آغاخانی خوجہ ، بوہری اور پارسی شامل ہیں۔ پارسیوں میں البتہ اب گجراتی بولنے والے کم رہ گئے ہیں، اکثریت ایران یا عراق سے ترکِ وطن کرکے یہاں سکونت اختیار کرنے والوں کی ہے، لہٰذا اُن کی زبان بھی کھچڑی ہے۔ اُن میں بہت سے ’دَری‘ (اُن کے تلفظ کے مطابق دھری) بولتے ہیں جو درحقیقت آذری کا کوئی رُوپ ہے اور بقول اُن کے زرتُشت کی زبان ہے (یعنی زِند اَوِستا سے نکلی ہوئی)۔ یہ افغان دَری یعنی قدیم فارسی سے الگ چیز ہے، جسے سمجھنا ایک عام پاکستانی کے لیے آسان نہیں۔ یہ لوگ اپنی گفتگو میں گجراتی بھی اُسی زبان سے ملاجلا کر بولتے ہیں یا انگریزی اور اُردو کے ٹکڑے لگاتے ہیں۔

ب)۔ گجراتی کا رسم الخط برہمی، دیوناگری سے مماثل ہے اور شاید کہیں دیوناگری بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن بوہری فرقے نے اپنی تعلیمات اور لسانی ورثہ محفوظ کرنے کے لیے عربی رسم الخط ایجاد کیا، جس کا نام رکھا: لِسان ُالدّعوۃِ العَلَوِیہ یعنی عَلَویوں کی تبلیغ کی زبان۔ اُن کے بچے خواہ کہیں زیرِتعلیم ہوں، ایک وقتِ خاص پر، اپنی مذہبی کتاب سے کچھ اقتباس پڑھنے کے لیے اپنی جماعت یا اسکول کے استاد سے اجازت لیتے ہیں اور اُس مواد کو دیگر کی نظروں سے چھُپا کر پڑھتے ہیں۔ کسی دور میں آغاخانی (عُرف اسماعیلی) بھی اسی رسم الخط کے قائل تھے، خاکسار نے ایسی کتب کی جھلک دیکھی ہے، مگر پھر اُنھوں نے خالص گجراتی (یعنی برہمی) رسم الخط اپنالیا، البتہ اُن کی نئی نسل گجراتی سے دُور بھاگتی ہے (یہ پاکستان کی حد تک، خاکسار کا ذاتی مشاہدہ ہے)، اُن کا کہنا ہے کہ ہم گجراتی کیوں پڑھیں، جب کہ واسطہ انگریزی اور اُردو ہی سے پڑتا ہے؟ {اس باب میں ایک ناقابل یقین قسم کا نجی تجربہ بھی آپ کی نذر کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جب1987ء میں، ایک آغاخانی اسکول میں اس راقم نے کچھ عرصے پڑھایا تو گجراتی کے (احمدآبادی گجراتی، مگر سُنّی مسلم) اُستاد نے شُستہ اردو میں بڑی بے چارگی سے کہا کہ ان بچّوں کا کیا کروں، میری پوری محنت کے باوجود، گجراتی پڑھنے پر آمادہ ہی نہیں۔ ایسے میں آغاخانی اسکول مالک کے ایماء پر، خاکسار نے چھُٹّی کے بعد، رُک کر گجراتی کلاس کو قابو کیا اور سمجھانے کی کوشش کی}۔

ج)۔ قائداعظم محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی دونوں ہی کی مادری وآبائی زبان گجراتی تھی، البتہ قائداعظم نے فقط ابتدائی چند جماعتیں ہی گجراتی اسکول میں پڑھیں اور پھر کبھی اُسے اس طرح نہیں اپنایا کہ اس میں اظہارِخیال بھی کرتے، جبکہ گاندھی نے متعدد کُتب گجراتی میں لکھیں اور 1936ء میں گجراتی رسم الخط میں رَدّوبدل کی باقاعدہ کوشش کی سرپرستی کی۔ اُنھوں نے اپنی مذہبی کتاب ’بھَگوَت گِیتا‘ کا گجراتی میں ترجمہ کیا۔ (یہاں ایک بات پھر دُہرانی پڑ رہی ہے۔ ہمارے نہایت فاضل ومشفق بزرگ ڈاکٹر شان الحق حقّی مرحوم نے اسی کتاب کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تو چونکہ اُنھیں دیوناگری رسم الخط سے کوئی عِلاقہ نہ تھا، انگریزی میں لکھا ہوا نام Bhagvad، اردو میں بھی بھگوَد لکھ دیا۔ ناواقفین اُنھیں سنسکرت اور ہندی کا ماہر بھی لکھ دیتے ہیں، حالانکہ اُن کے والد ہندی جانتے تھے، وہ خود نہیں!)

گاندھی جی نے ’حکومت ِ خوداِختیاری‘ [Self-rule or Home rule ] کے موضوع پر گجراتی میں ایک کتاب ’ہند سَورَاج‘ بھی لکھی تھی جس پر انگریز سرکار نے پابندی لگادی تھی۔ اُن کے سوانح پر مبنی خودنوشتہ کتاب بھی گجراتی میں تھی جسے انگریزی میں The Story of My Experiments with Truth کا نام دیا گیا۔

اب آئیے ’زباں فہمی‘ کے گزشتہ شماروں سے مزید خوشہ چینی کریں:

ولیؔ گجراتی دکنی کی (جنھیں ولیؔ احمد آبادی کہنا جائز اور ولیؔ اورنگ آبادی بھی، کہنے والے کہہ دیتے ہیں) مثال یوں مشہور ہے کہ انھوں نے (بقول میرؔ صاحب) دِلّی کی نامور علمی وادبی شخصیت سعداللّہ خان گلشن ؔ کے مشورے پر، فارسی کے متعدد شعراء سے براہِ     راست اکتساب کرتے ہوئے ریختہ گوئی یا اردو غزل گوئی میں اپنے جوہر دکھائے اور داد وصول کی۔ میرے مشفق بزرگ معاصر ڈاکٹر اَنور سدید (مرحوم) نے اپنی کتاب 'اردو ادب کی مختصر تاریخ' میں ایک تازہ تحقیق کی بِناء پر ولیؔ کی گلشنؔ سے ملاقات کی روایت باطل قرار دی ہے۔ سدیدؔ صاحب نے لکھا ہے کہ ''ولیؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ اُس نے ایران کی آوارہ مزاجی کو ہندوستان کی سکون پسندی میں سمودیا۔.

.....ولیؔ کا مزاج مقامی ہے لیکن اُس نے فارسی اوزان وبحور میں یہ مزاج اس کامیابی سے سمویا کہ یہ غزل کے مزاج کا حصہ بن گیا۔........ولی ؔنے ریختہ گوئی کا جو اَنداز رائج کیا تھا، اس کی تقلید بڑے پیمانے پر ہوئی''۔ یہاں ڈاکٹر انور سدید نے ایک فہرست پیش کی جواُس عہد کے کم یا زیادہ معروف، گجراتی، دکنی و ہندوستانی شعراء پر مشتمل ہے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ پنجاب میں مقیم دلشادؔپسروری نے ولیؔ کی زمین میں غزل گوئی کرکے نام کمایا۔ ولیؔ گجراتی کے فن وشخصیت پر قاضی احمدمیاں اختر ؔ جوناگڑھی کے ''مضامین اخترجوناگڑھی'' میں شامل تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض کورمقلد یا چربہ ساز قسم کے معمولی شاعر نہ تھے، بلکہ دینی، علمی وادبی اعتبار سے اپنے عہد کے جیّد علماء و فصحاء میں شامل اور لسانی اعتبار سے رجحان ساز شاعر تھے جن کے کلام میں گوجری (قدیم اردو) اور گجراتی الفاظ وتراکیب کا بہت بڑا ذخیرہ، آج بھی دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔

ولیؔ کے جانشیں (اور اُن کے بعد سرزمین دکن کے دوسرے عظیم شاعر) سراجؔ اورنگ آبادی دکنی کا ایک شعر ہے:

پی (پیا) بِن مجھ (میرے) آنسوؤں کے شراروں کی کیا کمی

جس رات چاند نہیں ہے، ستاروں کی کیا کمی

اسے قاسمؔ نامی فارسی شاعر کے شعر کا اردو قالب قرار دیا گیا ہے:

بروزِ ہجر مَر ا بَس گُہر بار است

شبی (شبے) کہ ماہ نبا شد، ستارہ بسیار است

انھی سراجؔ کا مشہور زمانہ شعر ہے:

چلی سمت ِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن سُرُور کا جل گیا

مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں، سو ہری رہی

(آزاد دائرہ معارف یعنی وِکی پیڈیا میں اس طرح درج کیا گیا:

کبھی سمتِ غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا

مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہو، سو ہری رہی)

بعد کے دور میں ممتاز عالم، صوفی بزرگ شاہ نیاز احمد نیاز ؔ بریلوی کے کلام میں اس شعر سے استفادہ یوں نظر آتا ہے:

چلی بادِگرم فراق ہے، جلا سب وجود نیاز ؔ کا

مگر ایک عشق کی کِشتِ غم جسے دل کہیں، سوہَری رہی

شاہ نیازؔ عربی، فارسی اور اردو کے مستند عالم اور اس پائے کے سخنور تھے کہ اُن سے مصحفی ؔ نے اصلاح لی تھی۔

(زباں فہمی نمبر 170 ’’سرقہ، توارُد، چربہ اور اِستفادہ، حصہ اوّل؛ تحریر سہیل احمد صدیقی، مشمولہ روزنامہ ایکسپریس ، سنڈے میگزین، مؤرخہ 15جنوری 2023ء)

قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی نے ولی ؔ کو گجراتی ثابت کرتے ہوئے اپنی تحقیق کا خلاصہ ان نکات میں بیان کیا ہے:

وہ شاہ وجیہ الدین گجراتی (رحمۃ اللہ علیہ) کی آل سے تھے، احمد آباد میں اپنے خاندانی مدرسے میں زیرتعلیم رہے، گجراتی پیرِطریقت اور اُستاد کے شاگرد تھے، خاندانی بزرگوں کی مدح اور عزیزوں کا ذکر اپنے دیوان میں کیا، اُن کے احباب وتلامذہ میں گجراتی نمایاں تھے، اُن کے کلام میں وطن گجرات سے محبت، فراقِ گجرات میں کہا گیا قطعہ اور مثنوی درتعریفِ سُورت (گجرات) شامل، اُن کے کلام میں بعض گجراتی مقامات اور گجراتی لباس کا ذکر، اُن کے دیوان میں گجراتی الفاظ و محاورات کا ذکر، اُن کا احمد آباد میں فوت ہوکر وہیں دفن ہونا اور اُن کا قطعہ تاریخ ِ وفات (از محمد اَحسن مفتی ٔ احمد آباد ) کا گجرات ہی سے دریافت ہونا، اُن کے گجراتی دکنی ہونے کا ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں قاضی صاحب نے اُن مآخذ کا ذکر کیا ہے جو ولیؔ کو گجراتی ثابت کرتے ہیں ۔ (مضامین اخترؔ جوناگڑھی)

ولیؔ کے علاوہ قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی نے احمدؔ، اشرفؔ، رضیؔ، امینؔ، فتح شریفؔ، غلامیؔ، رحمانؔ، عاجزؔ، ہاشم علی، عُزلت، محمود گجراتی اور فخریؔ جیسے قدیم اردو شعراء کا مختصر احوال بھی قلم بند کیا ہے۔ میرؔ کے ’نِکاتُ الشعراء‘ میں احمد کو احمدیؔ گجراتی لکھا گیا ہے اور اُن کے پانچ غزلیہ اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ قاضی موصوف نے تحقیق کے بعد لکھا کہ ہمارے قدیم اردو تذکروں میں دو گجراتی ، ایک بُرہان پوری اور ایک مجہول شاعر مسمّیٰ بہ اَحمد کا ذکر نقل کیا گیا ہے، جبکہ ان کی اصل تعداد بھی ہنوز تحقیق طلب ہے۔ اشرف ؔ گجراتی، ولیؔ کے شاگر د صوفی شاعر تھے جنھوں نے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، حتّیٰ کہ مرثیہ بھی کہا۔ اُن کا ایک شعر دیکھیے:

یہ شعر سُن کے کہے ہیں صدآفریں، اشرفؔ

تمام شاعر ِ مُلکِ دَکن سُخن کی قسم

اشرفؔ کے کلام میں ولیؔ کے کلام پر کہا گیا کلام نیز ولیؔ کا اُنھیں بخشا ہوا کلام شامل ہے۔ اُنھوں نے ولیؔ کی تعریف وتقلید کے باوجود کہ اُستاد کے طفیل زبان بڑی حد تک صاف ہوچکی تھی، قدیم ومتروک الفاظ ومحاورات کا شعوری طور پر استعمال کرکے اپنی راہ الگ بھی نکالی ہے۔گجرات کی اردو میں مستعمل بعض الفاظ بشمول تمہیں (بجائے تم) ، تئیں (بجائے تُو)، انگے (آگے)، اُنُو (انھوں نے)، اَنے (اور)، مَنیں (مَیں)، تُوں (تُو)، وو (وہ)، ہوئے (ہو، ہووے)، جیوں (جُوں)، تجھ (بجائے تیرا)، مجھ (بجائے میرا)، ایتا ایتی (اتنا، اتنی)، کبھوں (کبھی)، کدھیں (کبھی)، تیونچھ (ویسا ہی)، آجھ (آج)، کال (کل)، کرناں (کرنا)، کھیلا (کھِلا) وغیرہ اشرفؔ گجراتی کے کلام میں ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض ٹھیٹھ اور متروک گجراتی الفاظ بھی اشرفؔ کے یہاں ملتے ہیں جیسے لوننا (فصل کاٹنا)، چانا (چاہنا)، ڈھپنا (ڈھکنا، سرپوش)، کُوا ٹَپنا (کنواں پھلانگنا یعنی مشکل کام انجام دینا)، پَرونا (مہمان)، جُونا (پُرانا: کراچی کی جُونا مارکیٹ۔س ا ص)، پھَٹ (تُف)، جھُرجھُرکر (گھُل گھُل کر)، ہِیل (قطار)، کھسانا (ہٹانا)، بھَٹ (برہمن: یعنی یہی آگے چل کر برادری کا نام بنا۔ س ا ص)، ٹک (وقت، ساعت)، دَھگنا (جلنا)، دھیرا رہنا (صبر کرنا: ہندی کا دھیرج رکھنا۔ س اص)، اَدھیر (بے صبری)، بھچڑنا (بھینچنا)، بھُولا پڑنا (راستہ بھُول جانا)، ریل (سیلاب: اردو کا ریلا۔ س اص)، جنتر (ساز)، سَواد (مزہ: پنجابی ودیگر زبانوں میں سُواد۔ س اص)، کاٹ (زنگ)، روندھانا (گھٹنا سینے کا)، کسالی (کسیلی، بدمزہ: کسیلا ذائقہ اردو میں بھی۔ س اص) وغیرہ (مضامین اخترؔ جوناگڑھی)

رضیؔ تمام اصناف میں رواں تھے، لیکن اُنھیں مرثیہ گوئی مرغوب تھی۔ امین ؔ گجراتی کے ہم نام اور زمانے کے لحاظ سے قریب قریب دو مزید شاعر، دکن میں ہوگزرے ہیں۔ قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی کی رائے میں ہندوی سے زبان کی صفائی کے عمل کے بعد، اردو کو ’’ریختہ‘‘ کا نام ولیؔ کے عہد میں دیا گیا (یہ اور بات کہ ریختہ کے دیگر معانی میں مخلوط ومنظوم کلام شامل ہے)۔

ولیؔ گجراتی کا دیوان، اردو کے فرینچ محسن جناب گارساں (گاخ ساں: فرینچ تلفظ) دو ۔ تاسی [Joseph Héliodore Garcin de Tassy]نے 1833ء میں شایع کیا اور اُس پر فرینچ زبان میں مقدمہ لکھا۔ (یہ نام ہمارے یہاں فرینچ سے ناواقف لوگ دِتاسی لکھتے اور پڑھتے ہیں)۔ اُن کا کلّیات پہلے پہل احسن ؔ مارہروی (شاگرد ِ داغؔ) نے مرتب کیا جو مرکزی انجمن ترقی اردو (ہند) نے 1927ء میں شایع کیا پھر 1945ء میں دوسری بار کلّیات ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی علیگ کا مرتبہ، انجمن نے شایع کیا جو گزشتہ سے بہتر تھا۔

ظلم عظیم نہیں تو کیا ہے کہ ولیؔ جیسے عظیم سخنور کی قبر، سابق وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کے ایماء پر،2002 میں متعصب ومتشدد، انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی اور اُن کے وطن احمد آباد (گجرات) کی انتظامیہ نے راتوں رات اُس پر پکّی سڑک بھی تعمیر کردی، گویا اس شعر کی عملی تصویر ہوگئی:

باقی مزار بھی نہ رہے یادگار بھی

مجھ کو مِٹانے والے مِٹادے مزار بھی!

تلامذہ غالبؔ میں شامل منشی میاں دادخاں سیاحؔ اورنگ آبادی( 1817ء تا 1907ء) کا یہ ضرب المَثَل شعر اُن کی شناخت ہے:

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

سیاحؔ کو میرزا ؔ نے ’ سیف الحق‘ کا لقب دیا تھا۔ وہ ’قلب سازی‘ (جعلی نوٹ چھاپنے) کے جُرم میں قید بھی ہوئے۔ اُن کا انتقال سورت (گجرات) میں ہوا۔ پروفیسر ظہیر احمد مدنی نے اُن کا دیوان مرتب کرکے شایع کیا۔    (جاری)

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کراچی سے بلوچ ریپبلکن آرمی سے تعلق رکھنے والا انتہائی مطلوب ملزم گرفتار

ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے اپنے دیگر ساتھیوں بشمول کمانڈر زرین عرف کرنٹ کے ساتھ مل کر سیکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد عسکری کارروائیاں کیں اور سیکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ رینجرز اور سی ٹی ڈی نے کراچی کے علاقے ملیر میں مشترکہ کارروائی کے دوران سیکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد عسکری کاررائیوں میں ملوث بلوچ ریپبلکن آرمی سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب ملزم کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے اسلحہ و ایمونیشن برآمد کرلیا۔ ترجمان کے مطابق گرفتار ملزم زبیر احمد عرف زبیو تمپ بلوچستان کا رہائشی ہے اور ملزم نے 2016ء میں بی آر اے کے کمانڈر زرین عرف کرنٹ کے گروپ میں شمولیت ختیار کی۔ گرفتار ملزم نے 2016ء میں معسکرغزن مکران بلوچستان سے 6 ماہ کی عسکری تربیت حاصل کی۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے اپنے دیگر ساتھیوں بشمول کمانڈر زرین عرف کرنٹ کے ساتھ مل کر سیکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد عسکری کارروائیاں کیں اور سیکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ملزم نے دوران تفتیش مزید انکشاف کیا کہ 2016ء میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر مند بھلو ایف سی چیک پوسٹ تمپ گریڈ اسٹیشن ایف سی کیمپ، رود بن ایف سی چیک پوسٹ پر راکٹ لانچر اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ حملے کیے۔ ان کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔

گرفتار ملزم 2016ء سے 2019ء تک بلوچستان میں انتہائی سرگرم رہا۔ گرفتار ملزم گرفتاری سے بچنے کیلئے سال 2020ء میں بیرون ملک دبئی فرار ہو گیا تھا اور بیرون ملک سے اپنا نیٹ ورک چلاتا رہا۔ ملزم بیرون ملک سے بی ایم او کیلئے فنڈنگ اور متعدد افراد کی ذہن سازی بھی کرتا رہا۔ ملزم حال ہی میں دبئی سے کراچی پہنچ کر اپنا گروپ منظم کرکے دہشتگردی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق گرفتار ملزم سے مزید اہم انکشافات متوقع ہیں، ملزم کو اسلحہ ایمونیشن سمیت مزید قانونی کارووائی کیلئے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی سے بلوچ ریپبلکن آرمی سے تعلق رکھنے والا انتہائی مطلوب ملزم گرفتار
  • کراچی؛ بلوچ ریپبلکن آرمی سے تعلق رکھنے والا انتہائی مطلوب ملزم گرفتار