پاکستان اور بنگلہ دیش میں مٹتی دوریاں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
بنگلہ دیش کو پاکستان سے 25 ہزار ٹن چاول کی ترسیل جلد مل جائے گی ۔پاکستانی وزارت خوراک کے اس اعلان نے پانچ دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان براہ راست دوطرفہ تجارت کی بحالی کی تصدیق کر دی۔
کئی دہائیوں کے تلخ تعلقات کے بعد گزشتہ اگست سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں کافی بہتری آ چکی۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر، نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے دو بار ملاقات کے بعد سے پاکستان کے ساتھ مزید دوطرفہ تبادلے ہوئے ہیں۔
وزارت خوراک نے کہا ہے کہ اس ماہ کے شروع میں ڈھاکہ نے پاکستان سے چاول درآمد کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دی۔وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری ضیا الدین احمد نے پریس کو بتایا،25 ہزار ٹن کی پہلی کھیپ 3 مارچ کو بنگلہ دیش پہنچے گی۔1971 ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے حکومتی سطح پر چاول کی درآمد شروع کی ہے۔
حالیہ نومبر میں دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے براہ راست سمندری رابطے کے بعد تجارتی تعلقات ہوئے جب ایک پاکستانی کارگو جہاز 1971 ء کے بعد پہلی بار بنگلہ دیش گیا۔بین الاقوامی تعلقات کی ماہر اور امریکی نارتھ ساؤتھ یونیورسٹی کی لیکچرار ،آمنہ محسن نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنا بنگلہ دیش کے لیے اہم اقدام ہے۔’’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات آگے بڑھیں۔
ہم ہمیشہ اپنے تعلقات کو متنوع بناتے ہیں (لیکن) سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہیں … اس تناظر میں، پاکستان سے چاول درآمد کرنے کا یہ تازہ ترین فیصلہ بہت اہم ہے،‘‘۔ انہوں نے بتایا۔ بیگم حسینہ کی حکومت نے اپنی پندرہ سالہ بلاتعطل حکمرانی میں پاکستان کے خلاف دشمنی رکھی لیکن بھارت کے ساتھ قریبی اتحاد برقرار رکھا ۔ وہ گزشتہ سال طلبہ کی زیر قیادت عوامی بغاوت کے بعد فرار ہو گئی تھیں اور بدستور جلاوطن ہیں۔ انہیں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ڈھاکہ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آ گئی۔
ڈھاکہ کا پاکستان سے چاول درآمد کرنے کا فیصلہ سیلاب اور معاشی عدم استحکام کے باعث جاری معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت نے قلت سے بچنے کے لیے بھارت سے بڑی مقدار میں چاول درآمد کرنا بھی شروع کر دیا ۔’’اس وقت، بنگلہ دیش کی مارکیٹ میں چاول کا بحران ہے، اور ہمیں مسابقتی قیمت پر مختلف ذرائع سے چاول حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔" ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر خندکر غلام معظم کہتے ہیں۔’’اس نقطہ نظر سے ایک نیا ذریعہ تلاش کرنا (چاول کی درآمد کے لیے) ہمارے لیے مثبت چیز ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ اب تجارت دوبارہ شروع ہو گئی ہے،تو بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تجارتی تعلقات بڑھانے کی صلاحیت ہے۔’’ہمارے تاجر پاکستان کی مارکیٹوں کو تلاش اور لاگت کے لحاظ سے فزیبلٹی پر غور کر سکتے ہیں۔ چاول کی درآمد کے ساتھ ساتھ دیگر اشیا کی درآمد کے مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔" معظم نے کہا۔’’پاکستان ہماری مارکیٹ میں ایک نیا اضافہ ہے، خاص طور پر بنگلہ دیش کی جاری تجارتی تنوع کی کوششوں پر غور کرتے ہوئے"۔
پاکستان اور بنگلہ دیش، جنوبی ایشیائی ممالک کے طور پر ثقافتی وابستگی، مذہبی تعلقات، اقتصادی ترقی اور ترقی کی باہمی خواہش سمیت متعدد مشترک نکات رکھتے ہیں۔ ایک امید افزا موڑ میں انھوں نے باہمی تعاون اور علاقائی ہم آہنگی کی ایک مثال قائم کرتے ہوئے اپنے دوطرفہ تعلقات کو نئے سرے سے بحال کرنے اور مضبوط کرنے کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ابھرتی ہوئی شراکت داری مشترکہ مفادات، تاریخی روابط اور خوشحال مستقبل کے وژن کی بنیاد پر استوار ہے۔
مفادات کی ہم آہنگی: دونوں ممالک غربت کے خاتمے، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور تکنیکی ترقی جیسے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں قریبی تعاون کی صلاحیت تسلیم کرتے ہیں۔عالمی ملبوسات کی صنعت میں بنگلہ دیش کی بڑھتی اہمیت اور ٹیکسٹائل، زراعت اور ٹیکنالوجی میں پاکستان کی مہارت بہتر تجارتی اور سرمایہ کاری کی شراکت کو موزوں بناتی ہے۔ صنعتی ترقی اور علاقائی تجارت جیسے شعبوں میں اپنے اہداف کو ہم آہنگ کرتے ہوئے پاکستان اور بنگلہ دیش ہم آہنگ اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی: بنگلہ دیش میں نئی نگران حکومت کی قیادت میں ایک آزاد خارجہ پالیسی بحال ہوئی ہے جس سے پاکستان سمیت تمام ممالک کے ساتھ متوازن اور نتیجہ خیز تعلقات کی راہ ہموار ہوگئی ۔ دونوں حکومتوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی مصروفیات، باہمی دوروں اور مشاورت نے سفارتی تعلقات کو زندہ کیا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کے دروازے کھولے ہیں۔
٭ تجارت اور سرمایہ کاری: دونوں ممالک تجارتی حجم بڑھانے، برآمدی شعبوں کو متنوع بنانے اور ٹیکسٹائل، زراعت اور ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ یہ تعاون ملازمتیں پیدا کرنے اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے کا امکان رکھتا ہے۔
٭ تعلیم اور ثقافت: پاکستانی اور بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں کے درمیان تبادلے کے پروگرام اور تعلیمی تعاون کا آغاز علم کے تبادلے اور ثقافتی تفہیم کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ مشترکہ ثقافتی ورثے کو منانے کی کوششوں نے عوام سے عوام کے روابط کو مزید مضبوط کیا ہے۔
٭ دفاع اور سلامتی: دونوں ممالک نے تربیتی پروگراموں، مشترکہ مشقوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دفاعی تعاون دوبارہ شروع کیا ہے۔ ان کوششوں کا مقصد علاقائی سلامتی اور استحکام کو بڑھانا ہے۔
٭ سائنس اور ٹیکنالوجی: پاکستان اور بنگلہ دیش قابل تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں جدت اور تحقیق کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ ان شعبوں میں مشترکہ منصوبے پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ویزے میں نرمی اور بہتر رابطہ: خیر سگالی کو فروغ دینے کی طرف ایک بڑا قدم ویزے کے نظام میں نرمی ہے، جس سے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے آسان سفر ممکن ہو گیا ۔ یہ اقدام نہ صرف کاروبار اور سیاحت کو آسان بناتا بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں کو قریب لاتے ہوئے خاندانی اور ثقافتی روابط کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
٭مستقبل کے لیے وژن:پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجدید شدہ شراکت داری دونوں ممالک اور جنوبی ایشیائی خطّے کے لیے خوش آئند امر ہے۔ مشترکہ اہداف پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دونوں ممالک پائیدار ترقی اور علاقائی خوشحالی کے حصول کے لیے اپنی منفرد طاقتوں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
٭ علاقائی تعاون: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی شراکت داری دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کر سکتی ہے، جس سے زیادہ علاقائی انضمام اور اقتصادی تعاون کو فروغ ملے گا۔
٭ اقتصادی ترقی: وسائل اور مہارت جمع کر کے دونوں ممالک صنعتی ترقی کو تیز کر ، نئی منڈیاں بنا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتے ہیں۔
٭ عالمی موقف: مضبوط تعلقات پاکستان اور بنگلہ دیش کو عالمی پلیٹ فارمز پر مشترکہ مفادات کی وکالت کرنے کے قابل بنائیں گے اور بین الاقوامی فورمز پر اپنے اجتماعی اثر و رسوخ کو بڑھا سکیں گے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مثبت تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 1971 ء کے واقعات کی وجہ سے ماضی میں دونوں فریقوں کی طرف سے خندق پاٹنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں، جیسا کہ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے گزشتہ دسمبر میں قاہرہ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران بھی ذکر کیا۔ اگست 2024ء میں بنگلہ دیشی حکومت کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں یکے بعد دیگرے ہونے والی پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ دونوں فریق دو طرفہ تعلقات کو مستقل بنیادوں پر مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
جوائنٹ بزنس کونسل (JBC) کی تشکیل، ایف پی سی سی آئی اور ایف بی سی سی آئی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط، کراچی اور چٹاگانگ کی بندرگاہوں کو ملانے والے میری ٹائم شپنگ روابط کی بحالی اور اعلیٰ سطح کے فوجی حکام کے دوروں کو عام اقدامات کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ اس میں ویزے کی پابندیوں میں نرمی اور دس سال کے وقفے کے بعد کراچی اور ڈھاکہ کے درمیان براہ راست پروازیں بحال کرنا شامل ہیں۔
پندرہ سال سے زائد عرصے تک جب بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت تھی، پاکستان کو ایک دشمن ریاست کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان تجارت، تعلیم، سفر، سیاحت اور دیگر شعبوں میں صرف رسمی تعلقات تھے۔پاکستانی ویزا درخواست گزاروں کے ساتھ بنگلہ دیشی قونصلر سٹاف کا معاندانہ رویہ اس نفرت کی گہرائی ظاہر کرتا جو نئی دہلی کے کہنے پر حسینہ واجد کے دور میں بوئی گئی تھی۔ بنگلہ دیشی آبادی کی بڑی اکثریت پاکستان کے لیے خوشگوار جذبات رکھتی ہے لیکن حسینہ واجد حکومت نے مختلف انداز میں کام کیا۔اپنے بیس سالہ اقتدار کے دوران( 1996 ء سے 2001 ء اور 2009 ء سے 2024 ء تک) حسینہ نے 1971 ء کے بدقسمت واقعات اور مغربی پاکستان کے ذریعے مشرقی پاکستان کے مبینہ استحصال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو بدنام کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
بنگلہ دیش میں نصابی کتب پاکستان مخالف مواد سے بھری پڑی ہیں چاہے وہ زبان کی تحریک ہے جس کی وجہ سے 22 فروری 1952 ء کو بنگلہ کو مساوی حیثیت دینے کا مطالبہ کرنے والے تین احتجاجی طلبہ کو قتل کر دیا گیا تھا یا عوامی لیگ کو اقتدار سے انکار۔ 25 مارچ سے 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں پاکستانی مسلح افواج کے ہتھیار ڈالنے تک فوجی آپریشن بھی نصابی کتب میں نمایاں طور پر موجود ہے۔پاکستان کی نصابی کتب میں صرف 1971 ء میں ہندوستانی مداخلت کے حوالے سے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی نصابی کتب کے مواد کے ساتھ ایسا نہیں جس میں واضح طور پر تین قومی دنوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی 22 فروری کو یوم زبان کے طور پر، 26 مارچ یوم آزادی کے طور پر اور 16 دسمبر کو یوم فتح کے طور پر جو پاکستان مخالف ہیں۔
عوامی لیگ دور حکومت میں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دینے کے باوجود بنگلہ دیش کی نئی نسل پاکستان سے دشمنی نہیں رکھتی۔ بنگلہ دیش کی طلبہ برادری جس نے حسینہ کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہے۔ نیز پاکستان کے مختلف حصوں بالخصوص پنجاب میں بنگلہ دیش کے حامی اجلاسوں کا انعقاد اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستانی نئی نسل بنگلہ دیش کے ساتھ دوبارہ دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔پاکستان کے خلاف دشمنی ختم ہونے کے بعد ہی دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں حالات میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ بنگلہ دیش میں کچھ قوتیں پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کے حق میں نہیں ، دونوں ممالک محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ طاقتیں نئی دہلی کی پشت پناہی سے اس سارے عمل کو پٹڑی سے اتارنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہیں۔
عوامی لیگ کے 15 سالہ دور حکومت میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را بنگلہ دیشی ریاست اور معاشرے کے اندر گہرائی تک گھس چکی۔ جب تک بنگلہ دیش میں سول سوسائٹی، میڈیا، اکیڈمی اور طلبہ برادری بھارت کو مداخلت سے نہیں روکتی، یونس کی حکومت نئی دہلی پر کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب حسینہ کی حوالگی کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکے گی۔ اور معزول بنگلہ دیشی رہنما بھارتی سرپرستی سے عبوری حکومت کو غیر مستحکم کرتے رہیں گے۔
آخری نکتہ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات مذاکرات کی طاقت، باہمی احترام اور مشترکہ خواہشات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسابقت پر تعاون کو ترجیح دے کر دونوں قومیں نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے ایک روشن مستقبل کی طرف امید افزا راستہ بنا رہی ہیں۔یہ تجدید ی شراکت داری امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ہم آہنگ تعلقات کی صلاحیت کی مثال ہے۔یہ ایک زیادہ مربوط اور تعاون پر مبنی جنوبی ایشیا کے لیے اُمید کی کرن کے طور پر ابھر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ کو فروغ دینے کے جنوبی ایشیائی دوطرفہ تعلقات بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش کی میں پاکستان سرمایہ کاری دونوں ممالک چاول درا مد بنگلہ دیشی پاکستان سے کہ پاکستان شراکت داری تعلقات میں کے درمیان تعلقات کو کرتے ہوئے تعلقات کی نصابی کتب کی درا مد کے طور پر حسینہ کی ممالک کے نئی دہلی کے لیے ا چاول کی سے چاول کرنے کے کے بعد کیا ہے
پڑھیں:
بھارت اورچین کے بڑھتے تجارتی تعلقات‘سال2024میں دونوں ملکوں کے درمیان 118اعشاریہ4ارب ڈالر کی تجارت ہوئی
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 )بھارت اور چین کے درمیان دوریاں کم ہورہی ہیں اور برکس کے بانی اراکین میں شامل دونوں ملک جہاں باہمی تجارت میں اضافہ کررہے ہیں وہیںسال2020میں سرحدی تنازعہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بند ہونے والی براہ راست پروازوں کو دوبارہ شروع کرنے پر مذکرات ہورہے ہیں. برطانوی نشریاتی ادارے نے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سال2024میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت 118.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے اورچین سے انڈیا کی درآمدات کا حجم 3.24 فیصد بڑھ کر 101.7 بلین ڈالر جبکہ انڈیا سے چین کو برآمدات 8.7 فیصد بڑھ کر 16.67 بلین ڈالر تک پہنچ گیا.(جاری ہے)
سال2023میں امریکا بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دارتھا مگرسال 2024 میں چین نے ایک بار پھر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں انڈیا نے چین سے 2.2 بلین ڈالر مالیت کی لیتھیئم آئن بیٹریاں خریدیں، جو خطے میں درآمدات کا 75 فیصد ہے اس کے علاوہ ٹیلی کام آلات اور فون سے متعلق 44 فیصد درآمدات چین سے آتی ہیں جن کی مالیت تقریباً 4.2 بلین ڈالر ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021میں کشیدہ تعلقات کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات متاثر نہیں ہوئے تھے اور اس دوران انڈیا نے چین سے 58.7 ارب ڈالر مالیت کا سامان چین سے درآمد کیا جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کیے گئے سامان سے زیادہ تھا جبکہ انڈیا نے چین کو 19 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا اسی طرح 2020میںسرحدی جھڑپوں کے دوران دہلی اور بیجنگ کے درمیان تجارتی تعلقات مثالی رہے اور اس سال انڈیا اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت 77.77 ارب ڈالر رہی اس سے پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 85.5 ارب ڈالر تھا. صدر ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں چین کی المونیم اور سٹیل مصنوعات پر ٹیرف کے بعد چینی سرمایہ کاروں نے ٹیرف سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر المونیم اور سٹیل کے شعبہ میں انڈیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی اور بندپڑی فیکٹریاں خریدنے کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے کارخانے قائم کیئے تھے . عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فارماسٹویکل اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں عالمی منڈیوں میں جگہ بنا چکا ہے خاص طور پر ادویہ سازی میں دہلی کو اس وقت عالمی لیڈرکا درجہ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ایک نئی پالیسی کو اپنایا تھاجسے” ڈاکٹرمن موہمن سنگھ ڈاکٹرائن “قراردیا جاتا ہے جس میں تنازعات سے ہرممکن گریزاور تجارت کو جنگ کی حالت بھی جاری رکھنا ‘ نئی تجارتی شراکت داریوں کا فروغ‘عالمی لیبرمارکیٹ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا شامل ہیں. ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اس وقت ایک طرف بڑی عالمی معیشتو ں کی تنظیم جی 20 کا حصہ ہے تو دوسری جانب وہ پانچ عسکری طاقتوں پر مشتمل”کواڈگروپ“میں شامل ہے اسی طرح دہلی نے پاکستان کی عدم دلچسپی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے”سارک“کو غیرموثرکرکے ایک بڑے عالمی اتحاد”برکس“کے بانی ممبران میں شامل ہوگیا‘اس کے علاوہ بھارت روس‘ایران اور چین کی شراکت داری سے پاکستان کو بائی پاس کرکے سمندری راستے سے ایرانی بندرگاہ چہاہ بہارکے ذریعے روس‘وسط ایشیائ‘مشرق وسطی اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے اگرچہ حال ہی میں پاکستان نے اس منصوبے میں شرکت کے لیے اعلی روسی حکومتی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں مگر ماسکو اور اسلام آبادکے درمیان تعلقات کی نوعیت کے پیش نظرکچھ کہنا قبل ازوقت ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے ایران اور روس سے سستے دامو ں تیل خریدکر چندسالوں میں کئی سو ارب ڈالر کمائے ہیں جبکہ پاکستان ملک طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کررہا ہے اور اب دوست ممالک بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت پر فوکس کرنا ہوگا ‘انہوں نے کہا کہ بھارت‘ایران اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ24گھنٹوں کے اندر تجارت کو شروع کیا جاسکتا ہے بھارت اور ایران کے ساتھ ریلولے اور روڈ لنک جبکہ افغانستان کے ساتھ بھی زمینی رابطے موجود ہیں . ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ سعودی عرب اور یواے ای جیسے قریبی دوست ممالک نے پاکستان کے ساتھ سینکڑوں ایم او یو سائن کررکھے ہیں ان میں سے کتنے منصوبے عملی طور پر شروع ہوئے؟دوست عرب ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھارت ہے اسی طرح ان ممالک کی لیبرمارکیٹ میں بھی بھارت چھایا ہوا ہے ‘متحدہ عرب امارات کے درمیان جامع اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ(سی ای پی اے)کے تحت بھارت یواے ای سے مزید مراعات حاصل کررہا ہے اسی طرح 2019میںپاکستان کے ساتھ سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران20ارب ڈالرسے زیادہ کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے جن میں روزانہ 1اعشاریہ دوملین بیرل تیل صاف کرنے والی ایک آئل ریفائنری کا قیام بھی تھا اسی سال شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ بھارت کے دوران ہونے معاہدے کے تحت سعودی عرب او رامارات کے تعاون سے ”آرمکو“ نے بھارتی ریاست گجرات میںخطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری قائم کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس نے سال2021میں کام شروع کردیا تھا .