گوادر میں عالمی معیار کاہوائی اڈہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ (این جی آئی اے) نے پیر بہ تاریخ 20 جنوری کو اپنی پہلی مسافر پرواز کی کامیاب لینڈنگ کے بعد کمرشل آپریشنز کا آغاز کردیا۔ یہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے جو 4,300 ایکڑ (17 کلومیٹر) اراضی پر محیط ہے اور اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بعد پاکستان کا دوسرا گرین فیلڈ ہوائی اڈہ ہے۔
یہ صوبہ بلوچستان کے جنوب مغربی بحیرہ عرب کے ساحل پر گوادر کے پرانے ہوائی اڈے کے شمال مشرق میں 26 کلومیٹر (16 میل) دور گورندانی کے مقام پر واقع ہے۔ اس پر 246 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ اس کے لئے بنیادی طور پر چین نے بطور گرانٹ فنڈ فراہم کیا اور اس کا باقاعدہ افتتاح 14 اکتوبر 2024 ء کو وزیر اعظم شہباز شریف اور چین کے وزیر اعظم لی کیانگ نے کیا تھا۔ 3,658 میٹر (12,001 فٹ) لمبائی اور 45 میٹر (148 فٹ) چوڑائی پر پھیلے ہوئے رن وے کے ساتھ این جی آئی اے ایئربس A380 اور بوئنگ 747 کو ایڈجسٹ کرنے کے قابل ہے۔یہ خطے میں عالمی رابطوں کے بنیادی ڈھانچے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
افتتاحی تقریب کی قیادت وزیر دفاع اور ہوابازی خواجہ محمد آصف نے کی، ان کے ہمراہ گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل اور وزیراعلیٰ سرفراز احمد بگٹی بھی موجود تھے۔ وزیر دفاع نے اپنی تقریر میں علاقائی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی تجارتی رابطوں کو بڑھانے میں این جی آئی اے کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔انھوں نے تقریب کے دوران کہا "یہ افتتاح صرف ایک نئے ہوائی اڈے سے زیادہ کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یہ گوادر کے مستقبل کے لیے عالمی تجارتی مرکز کے طور پر ایک گیٹ وے ہے۔"
نئے ہوائی اڈے کے افتتاح سے گوادر کی رسائی میں نمایاں اضافہ ہو گا اور ایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر اس کی ترقی میں مدد ملنے کی توقع ہے۔کراچی اور گوادر کے درمیان اب آنے والے مہینوں میں وسیع روٹس کے منصوبوں کے ساتھ باقاعدہ پروازیں چلیں گی۔اس منصوبے کو حکومت پاکستان، پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی، سلطنت عمان اور حکومت چین نے مشترکہ طور پر فنڈز فراہم کیے تھے۔این جی آئی اے کی تکمیل پاکستان اور چین کے درمیان پائیدار دوستی کے ساتھ ساتھ خطے میں اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ان کے مشترکہ عزم کا ثبوت ہے۔
سالانہ 400,000 تک مسافروں کی گنجائش کے ساتھ این جی آئی اے ملکی اور بین الاقوامی دونوں مسافروں کی گنجائش پوری کرنے کے لیے تیار ہے۔اس میں جدید ترین ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم، جدید نیوی گیشنل ایڈز، جدید حفاظتی خصوصیات اور عالمی معیار کی مسافروں کے لیے سہولیات بھی موجود ہیں جو سب کے لیے بغیر کسی رکاوٹ آرام دہ تجربے کو یقینی بناتی ہیں۔
اس منصوبے پر تعمیر کا آغاز نومبر 2019 ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھنے کے ساتھ ہوا، اور یہ دسمبر 2024 ء میں مکمل ہوا۔ اب آپریشنل ہونے کے بعد این جی آئی اے پروازوں کی سہولت فراہم کرنے اور گوادر کو ایک علاقائی اقتصادی مرکز میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ توقع ہے کہ ہوائی اڈے سے تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، جو علاقائی انضمام بڑھانے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے سی پی ای سی کے وسیع تر ورژن کے مطابق ہے۔
نئے گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے جو بنیادی رابطہ ڈھانچے کو جدید اور عالمی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے قومی عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔یہ سنگ میل نہ صرف ملک کے ہوابازی کے منظر نامے کو بلند کرتا بلکہ علاقائی ترقی اور دیرپا روابط استوار کرنے کے لیے پاکستان اور چین کے مشترکہ ورژن کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
ہوائی اڈے سے تجارت اور رابطوں کو فروغ ملے گا، لیکن اس سے خطے میں چین کی ممکنہ فوجی موجودگی کے بارے میں ہندوستان کے خدشات بھی بڑھ جائیں گے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ، گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے کھل جانے سے جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کا ایک اہم حصہ ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کو تقویت ملے گی، جبکہ اس سے خطے میں بیجنگ کی ممکنہ فوجی موجودگی پر بھارت کے خدشات میں بھی شدت آئے گی۔ یہ جدید ترین ہوائی اڈہ چین کے 65 بلین امریکی ڈالر کے سی پی ای سی منصوبے میں گوادر کو ایک اہم تجارتی اور نقل و حمل کا مرکز بنانے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز (IISS) میں جنوبی اور وسطی ایشیائی دفاع، حکمت عملی اور سفارت کاری کے ریسرچ فیلو، Antoine Levesques کہتے ہیں، اگرچہ بظاہر لگتا ہے، بھارت پاکستان کے معاشی زوال کا خواہاں نہیں ، مگر وہ علاقائی حریف ہونے کی وجہ سے سی پیک کے بارے میں گہری بدگمانیاں رکھتا ہے۔اس بات کا امکان ہے کہ چین اور پاکستان امن کے وقت کے دوران شمال مغربی بحر ہند میں گوادر کو ’’ہائبرڈ‘‘ یا حتیٰ کہ زیادہ شدت کی جنگ کے لیے عسکری سازی کے امکانات کے ساتھ چینی اڈے کے طور پر محفوظ کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں.
بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ایک حصے کے طور پر پاکستان عمان اور چین کے ساتھ مشترکہ منصوبے میں نئے ہوائی اڈے کے قریب ایک گہرے پانی کی بندرگاہ بھی تیار کر رہا ہے۔ عمان نے گوادر اور جیکب آباد کے درمیان 2.3 بلین امریکی ڈالر کے ریلوے منصوبے کی تعمیر میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
یہ بہرحال یقینی ہے، نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا طویل عرصے سے متوقع آپریشنلائزیشن گوادر اور آس پاس کے علاقوں کی ترقی میں ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ جدید ترین سہولت،جو حکمت عملی کے لحاظ سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ہے، تجارت، سیاحت اور رابطے کا ایک اہم مرکز بننے کے لیے تیار ہے۔ وہ علاقائی خوشحالی اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت اہم منصوبوں میں سے ایک کے طور پر اسے بین الاقوامی درجے کے ہوائی اڈے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو وسیع باڈی والے ہوائی جہاز کو ہینڈل کرنے اور سالانہ لاکھوں مسافروں کو پورا کرنے کے قابل ہے۔ یہ جدید انفراسٹرکچر نہ صرف گوادر کی سمندری اور تجارتی مرکز کے طور پر بڑھتی اہمیت کو ظاہر کرتا بلکہ بے مثال اقتصادی مواقع کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔
بہتر کنیکٹیویٹی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کو یکساں طور پر راغب کرے گی۔ اس خطے میں مہمان نوازی، خوراک اور لاجسٹکس جیسی صنعتوں کو فروغ ملے گا جو پہلے محدود انفراسٹرکچر کی وجہ سے عنقا تھیں۔ توقع ہے کہ یہ ہوائی اڈہ پاکستان اور اس کے علاقائی پڑوسیوں بشمول عمان، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات کو بڑھانے میں ایک اہم لنک کے طور پر کام کرے گا۔ سامان اور مسافروں کی تیز تر اور زیادہ موثر نقل و حمل کو فعال کرنے کے ذریعے یہ پاکستان کی وسیع تر اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی خواہشات کے مطابق عالمی سپلائی چین میں گوادر کی حیثیت کو ایک اہم نوڈ کے طور پر مضبوط کرے گا۔
گوادر سے مسقط تک پہلی بین الاقوامی پرواز کے روٹ کا اعلان اہم سنگ میل ہے۔ گوادر کو عمان کے دارالحکومت سے ملانے والا یہ راستہ پاکستان اور عمان کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کی علامت ہے۔ تاریخی طور پر دونوں ممالک کے درمیان گہرے ثقافتی، اقتصادی اور سمندری روابط ہیں۔ یہ پرواز دونوں ممالک میں عوام کے تبادلے میں مزید اضافہ کرے گی، تجارت کو فروغ دے گی اور دونوں خطوں کے درمیان سیاحت کو آسان بنائے گی۔
گوادر اور اس کے آس پاس کے رہائشیوں کے لیے یہ ترقی بہتر نقل و حرکت اور عالمی منڈیوں تک رسائی کے مواقع کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسقط جانے والے راستے سے مقامی ماہی گیروں، تاجروں اور تارکین وطن کو فائدہ پہنچے گا جو اکثر دونوں خطوں کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے گوادر کی رسائی کو بڑھاتے ہوئے مزید راستوں کو شامل کرنے کا بھی ایک مرحلہ ہے۔ مسقط سے ابتدائی رابطے کے علاوہ پاکستان، چین، عمان اور متحدہ عرب امارات کی کئی نجی ایئرلائنز کے ساتھ ملکی اور بین الاقوامی پروازیں متعارف کرانے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
یہ مذاکرات ہوائی اڈے کی جنوبی ایشیا میں ہوا بازی کے ایک بڑے مرکز کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ نجی ایئر لائنز کی شمولیت خاص طور پر حوصلہ افزا ہے کیونکہ یہ گوادر روٹ نیٹ ورک کی عملداری اور منافع پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اندرون ملک پروازیں گوادر کو کراچی، اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں سے منسلک کرتے ہوئے پاکستان کے اندر ایک دوسرے سے رابطے میں اضافہ کریں گی۔ یہ کاروباریوں، سرمایہ کاروں اور سیاحوں کو اس خطے تک آسانی سے رسائی کے لیے لائف لائن فراہم کرے گا۔ بین الاقوامی سطح پر گوادر کو چین کے شہروں اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک سے ملانے والے راستے زیر بحث ہیں۔ اس طرح کے رابطوں سے گوادر کو عالمی تجارتی نیٹ ورکس میں مزید ضم کیا جائے گا اور اہم اقتصادی خطوں کے درمیان سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت میں سہولت ہوگی۔
این جی آئی اے کے فعال ہونے کا سب سے فوری اور ٹھوس فائدہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ ہوائی اڈے نے اپنے تعمیراتی مرحلے کے دوران پہلے ہی ہزاروں ملازمتیں پیدا کی ہیں اور اس کے آپریشنل مرحلے سے اس رجحان کو برقرار رکھنے اور وسعت دینے کی امید ہے۔ ہوابازی کے عملے سے لے کر مہمان نوازی کے کارکنوں، لاجسٹکس کے عملے، اور معاون خدمات تک یہ مقامی آبادی کے لیے روزی روٹی کا ایک اہم ذریعہ بن جائے گا۔
مزید برآں ہوائی اڈے کے ارد گرد ذیلی صنعتوں کی ترقی طویل مدتی ملازمتوں کی تخلیق میں معاون ثابت ہوگی۔ گودام، کارگو ہینڈلنگ، سیاحت، اور خوردہ کاروبار کے پھلنے پھولنے کا امکان ہے جس سے خطے میں روزگار پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہنر مند مزدوروں کی طلب پورا کرنے کے لیے تربیتی پروگرام اور صلاحیت سازی کے اقدامات ضروری ہوں گے۔ اس سے نہ صرف مقامی کمیونٹیز کو ترقی ملے گی بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ خطے کی افرادی قوت ابھرتے ہوئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے لیس رہے۔
ہوائی اڈے کے آپریشنل ہونے سے گوادر پر گہرے سماجی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ بہتر رابطے سے خطے کی تنہائی کم ہونے کی توقع ہے، جس سے اس کے باشندے پاکستان اور دنیا کے باقی حصوں کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہو سکیں گے۔ سیاحوں اور کاروباری پیشہ ور افراد کی آمد ثقافتی تبادلے کو فروغ دے گی۔
گوادر کے منفرد ورثے کے تحفظ اور فروغ کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں اضافہ بہتر کنیکٹیویٹی کے ذریعے فعال ہونے سے رہائشیوں کے معیار زندگی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ مزید برآں ہوائی اڈے کے ارد گرد جدید انفراسٹرکچر کی ترقی، بشمول ہوٹل، شاپنگ سینٹرز اور تفریحی سہولیات گوادر کی شہری کاری میں معاون ثابت ہوں گی، جو اسے رہائشیوں اور سیاحوں کے لیے یکساں طور پر ایک پُرکشش مقام بنائے گی۔ ہوائی اڈے کا آپریشنل ہونا امید افزا پیشرفت ہے، لیکن یہ چیلنجوں کا مجموعہ بھی رکھتا ہے۔ اس عظیم منصوبے کا استحکام یقینی بنانے کے لیے سلامتی، ماحولیاتی پائیداری اور اقتصادی فوائد کی منصفانہ تقسیم جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ہوائی اڈے کی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں، نجی اسٹیک ہولڈرز، اور بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان باہمی تعاون کی کوششیں ضروری ہوں گی۔
مزید برآں گوادر کے وسیع تر ترقیاتی منصوبے میں این جی آئی اے کے انضمام کو احتیاط سے ہینڈل کیا جانا چاہیے تاکہ کسی ایک انفراسٹرکچر پراجیکٹ پر زیادہ انحصار سے بچا جا سکے۔ اقتصادی سرگرمیوں کو متنوع بنانا اور انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہو گی کہ ہوائی اڈے کے فوائد وسیع پیمانے پر مشترکہ اور پائیدار ہوں۔
نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا آپریشنل ہونا خطے اور مجموعی طور پر پاکستان کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔ تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھول کر ہوائی اڈہ گوادر کو متحرک اقتصادی مرکز میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مسقط کے لیے پروازوں کا آغاز اور مزید رابطے کے لیے نجی ایئر لائنز کے ساتھ جاری بات چیت ہوائی اڈے کی اسٹریٹجک اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ چیلنجوں سے نمٹنے اور جامع ترقی کو فروغ دینے کی مسلسل کوششوں کے ذریعے یہ ہوائی اڈہ علاقائی خوشحالی کے لیے ماڈل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ گوادر کو دنیا کے قریب لا کر یہ منصوبہ صرف بنیادی ڈھانچے سے متعلق نہیں بلکہ یہ خلا پُر کرنے، مواقع کو فروغ دینے اور گوادر اور اس سے باہر کے لوگوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی تشکیل کو اجاگر کرتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور بین الاقوامی مرکز کے طور پر جی ا ئی اے کو فروغ دینے بنانے کے لیے پاکستان اور کرنے کے لیے پاکستان کے اور چین کے کے درمیان گوادر اور رکھتا ہے گوادر کو گوادر کی گوادر کے توقع ہے کے ساتھ ایک اہم کرتا ہے کی ترقی اور اس کرے گا
پڑھیں:
عالمی برادری اور امریکا انصاف کیلئے مدد کرے، عمران خان کا ٹائم میگزین میں آرٹیکل
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے عالمی برادری بالخصوص امریکا سے اپیل کی ہے کہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق، علاقائی استحکام اور انصاف کی فراہمی کے لیے مدد کرے۔
ٹائم میگزین میں اپنے نام سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں جیل میں قید سابق وزیر اعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی ’سیاسی واپسی‘ پر مبارک باد دی اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اقتصادی شراکت داری کو فروغ دینے، استحکام کو فروغ دینے، تنازعات اور انتہا پسندی کا باعث بننے والے حالات کی روک تھام کے لیے کام کرے گا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ مضمون واقعی عمران خان نے لکھا تھا، اور یہ میگزین کو کیسے پہنچایا گیا تھا۔
عمران خان نے پاکستان میں ’سیاسی افراتفری‘ اور جمہوریت کے لیے اپنی جاری لڑائی پر روشنی ڈالی، انہوں نے ملک میں جمہوریت کے مبینہ زوال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موجودہ دور کو ملکی تاریخ کا سب سے مشکل دور قرار دیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قید اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات جمہوری اصولوں کے لیے ان کی وکالت کو دبانے کی سیاسی محرکات پر مبنی کوششیں ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جدوجہد ذاتی نہیں بلکہ انہوں نے جمہوریت کے وسیع تر مسئلے کو حل کیا، جس کے نا صرف ملک بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی دور رس نتائج مرتب ہوئے۔
پاکستان کی تذویراتی اہمیت کے پیش نظر عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کو اس بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
طویل آرٹیکل میں عمران خان نے پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاؤن، عہدیداروں اور کارکنوں کی گرفتاریوں سمیت کئی امور پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی کوششیں
دہشت گردی کے معاملے پر عمران خان نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی انتقام کے لیے انسداد دہشتگردی کی اہم کوششوں سے وسائل کا رخ موڑ رہی ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے علاقے، جہاں دہشتگردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، کو ’سیاسی مخالفین کے خلاف فوجی مہمات‘ کے حق میں نظر انداز کیا گیا۔
عمران خان نے الزام لگایا کہ عدلیہ کو سیاسی ظلم و ستم کا آلہ بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، پاکستان کے بارے میں اپنے وژن پر قائم ہوں، جو انصاف، مواقع اور مساوات پر مبنی ہے، آگے کا راستہ مشکل ہو گا لیکن مجھے کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اپنے عزم میں متحد ہو کر ان چیلنجز پر قابو پا لیں گے۔
دوہرے معیار کی مذمت
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین عرفان صدیقی نے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے بارے میں پیش گوئی کرنا ناممکن ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ پارٹی اتحاد کی تجویز دے رہی ہے، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ سول نافرمانی کا مطالبہ کر رہی ہے، خطوط بھیج رہی ہے اور ٹائم میگزین میں ’دھماکا خیز‘ مضامین شائع کرا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات کے دوران آپشنز پیش کرنا ناممکن ہے، کیوں کہ انہوں نے کسی بھی فورم پر ان کا جائزہ نہیں لیا بلکہ ان کے فیصلے براہ راست عمران خان کی طرف سے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں جب تک کہ انہیں عمران خان کی جانب سے ہدایات نہیں ملیں، عرفان صدیقی نے کہا کہ جب عمران خان نے مزید مذاکرات نہ کرنے کا حکم دیا تو پی ٹی آئی کی کمیٹی مکمل طور پر خاموش ہو گئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا تحریک انصاف عمران خان کی ہدایات کے باوجود مذاکرات جاری رکھنا چاہتی ہے؟ تو انہوں نے مثبت جواب دیا، اور کہا کہ مجھے یاد ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی، عمران خان سے ملنے گئے تھے اور جب وہ واپس آئے تو ان کے مطالبات پورے کرنے کی ڈیڈ لائن میں ابھی 3 یا 4 دن باقی تھے، اس کے باوجود انہوں نے مزید بات چیت نہ کرنے کی بات کہی تھی۔