پاکستان میں موبائل ایپ ڈویلپرز کیلئے بے شمار مواقع ہیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
تعارف : ضیاء احمد ، تعلیمی اعتبار سے کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہیں ، جبکہ پروفیشن کے لحاظ سے موبائل ایپ ڈیویلپر ہیں۔ سکول کے زمانے کا پروگرامنگ کا شوق انہیں کمپیوٹر سائنس کی جانب لے گیا۔ موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ کی طرف رجحان تھا اسی میں مہارت پیدا کی اور اب یہی ذریعہ روزگار ہے۔
سوال: کمپیوٹر سائنس اور پروگرامنگ کی طرف رجحان کیسے ہوا؟
جواب: میرا بچپن سے ہی کمپیوٹر کی جانب رجحان تھا۔ میں اندرون بین (Introvert) تھا تو گھر میں کمپیوٹر پر گیمز وغیرہ کھیلتا تھا۔ گھر سے باہر میدان میں نہیں کھیلتا تھا۔ ان گیمز کو کھیلتے ہوئے میں سوچتا تھا کہ میں ان گیمز کو خود کیسے بنا سکتا ہوں۔ اس جستجو اور شوق کی وجہ سے میں نے پروگرامنگ سیکھنا شروع کی۔پانچویں کلاس میں کمپیوٹر کا مضمون رکھا۔
اس کے بعد بھی ،مجھے جب بھی اختیاری مضمون کا آپشن ملا تو میں نے کمپیوٹر ہی کا انتخاب کیا۔ میں نے میڑک میں ہی کمپیوٹر سائنس رکھی تھی۔ اس کے بعد میں نے آئی سی ایس کیا۔ میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ یہ جو سافٹ وئیرز، گیمز اور ایپس (Apps) جو میں موبائل میں یا لیپ ٹاپ پر استعمال کرتا ہوں ، اس کو میں خود کیسے ڈیویلپ کر سکتا ہوں۔ اْس وقت بچے گیمزمیں مصروف رہتے تھے لیکن میں یہ سوچاکرتا تھا کہ میں ان پروگرامز کو خود کیسے بنا سکتا ہوں۔
سوال: موبائل ایپس ڈیویلپمنٹ کی طرف رجحان کیسے ہوا؟
جواب: دنیا میں اس وقت موبائلز زیادہ استعمال ہورہے ہیں۔ اس وقت کوئی دنیا بھر میں چار اعشاریہ دو بلین سے زیادہ موبائل ڈیوائسز کا استعمال ہو رہا ہے۔ لیپ ٹاپ یا ویب کے استعمال کرنے والے کم ہیں۔ لوگوں کے پاس دو ، دو تین موبائلز ہوتے ہیں۔ لیکن لیپ ٹاپ ایک ہی ہوتا ہے۔ موبائل ایپ ڈیولپمینٹ کی طرف آنے کی بڑی وجہ اس کے استعمال کرنیو الوں کا زیادہ ہونا ہے۔
سوال: موبائل ایپ اور ویب سائٹ میں کیا فرق ہے؟
جواب: ان دونوں میں کچھ فرق ہے۔ ویب سائٹ کا نام آپ کو یاد رکھنا پڑتا ہے۔ اس کو سرچ کرنا پڑتا ہے، پھر ویب سائٹ کو اوپن کرتے ہیں پھر اس کو استعمال کرتے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس موبائل ایپ ،آپ کے موبائل میں انسٹال ہوتی ہے۔ اس کو ہر مرتبہ سرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اپنی ہوم سکرین پر اس کو پِن(Pin) کر لیتے ہیں۔ ہر دفعہ استعمال پر اس کو کلک کرتے ہیں۔ کبھی ایڈریس کو یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ صر ف اس کے Icon کو کلک کرتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کو ایپ کا نام بھی یاد نہیں ہوتا ، انہیں صرف Icon کی پہچان ہوتی ہے۔
دوسری طرف ویب سائٹ کا لنک اور ایڈریس یاد رکھنا پڑتا ہے۔ بچوں کی مثال لے لیں۔بچوں کو ویب سائٹ کا علم نہیں ہوتا مگر وہ اپنے والدین کا موبائل پکڑتے ہیں اور مختلف گیمز کے Icon کو کلک کرتے ہیں، اور اسے کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ ہو سکتاہے بچوں کو Youtube.
سوال : موبائل ایپ یا ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ میں کون سی فیلڈ آسان ہے؟
جواب: آسان کچھ بھی نہیں ہے۔ ہر فیلڈ کے اپنے فوائد اور نقصانا ت ہیں۔ مگر موبائل ایپ اور ویب ڈیویلپمنٹ میں فرق کو دیکھا جائے تو ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ کے لیے زیادہ لینگویجز سیکھنی پڑتی ہیں۔ اس کے فریم ورک زیادہ ہیں۔ جبکہ موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ کی لینگویجز کم ہیں اور اس کے فریم ورک کم ہیں ، اس وجہ سے یہ قدرے آسان ہے۔
سوال : موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ کے لیے کونسی مہارت درکار ہوتی ہے
جواب: ایپ ڈیویلپمنٹ کے لیے پروگرامنگ تولازمی ہے۔ویب سائٹ کے لیے جاوا اور دیگر لینگویجز اور ان کے فریم ورک پر کمانڈ ہونی چاہیے۔ اور ایسے ہی موبائل ایپ کے لیے جاوا، لینگویجز درکار ہیں۔ پروگرامنگ سکلز سے پہلے ایک مہارت چاہیے ہوتی ہے وہ ہے پرابلم سالونگ (Solving Problem) یہ آنی چاہیے۔ اگر ایک ڈیویلپر یا پروگرامر کے پاس پرابلم سالونگ کی مہارت نہیں ہے تو پھر اس کا کیرئر بہت مشکلات کا شکار ہو گا۔ اگر کوئی فرد ،کسی پرابلم کو ایک سے زائد طریقوں سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ پیدائشی پروگرامر ہے۔
سوال: ایپ ڈیویلپمنٹ کے لیے لینگویجز کون کون سی استعمال ہوتی ہیں۔
جواب: یہ مختلف ہیں۔موبائل اور ویب کے لیے لینگویجز مختلف ہیں۔ اگر ویب ایپ ڈیویلپر بننا ہے تو ا س کے لیے جاوا سکرپٹ، سی سی ، ایچ ٹی ایم ایل سیکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کچھ فریم ورکس ہیں مثلاً Laravel, Django, MEAN , MERN stack.۔ اگر موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ میں آنا ہے تو پھر اس میں Kotlin, Java, Swift لینگویجز سیکھنی ہوتی ہیں۔ اور کچھ فریم ورکس ہیں جیسے کے Flutter, React Native ۔
سوال: موبائل ایپس کو استعما ل کرتے ہوئے یہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ بتدریج ان کا سائز چھوٹا ہو تا جا رہا ہے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: جی بالکل ایسا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان پر مسلسل کام ہو رہا ہوتا ہے۔ ان کو بہتر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر اینڈرائڈ کو پتہ چلا کہ ان کے اینڈرائڈ دس، گیارہ میں مختلف Bugs تھے جس کی وجہ سے ان کا ڈیٹا Breach ہورہا تھا۔ یا پھر IOS کو پتہ چلا کہ ان کے فلاں ورڑن میں Bugs تھے ، ان کو انہوں نے ٹھیک کیا اور اس کا بہتر ورژن لانچ کیا۔ اس وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ یہ ورژن ا ب فلاں فلاں موبائل پر نہیں چلیں گے کیونکہ استعمال کنندگان کی سیکورٹی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ویب سائٹ کی صورت میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ویب سائٹس کوکیز (Cookies) کے ذریعے آپ کا بہت ساڈیٹا لے لیتی ہیں۔
بعض اوقات ویب سائٹس کے ذریعے آپ کے پاس ور ڈ جلدی لیک (Leak) ہو جاتے ہیں کیونکہ وہاں پر کوئی ایسی قدغن نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کوئی دوست ہی کسی ویب سائٹ کا لنک آپ کو بھیجتا ہے ، آپ اس لنک کو اوپن کرتے ہیں تو آپ کا آئی پی ایڈریس اور دیگر حساس نوعیت کی معلومات لیک ہو جاتی ہیں۔جبکہ موبائل ایپس کی صورت میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ موبائل آپریٹنگ سسٹم اینڈرائڈ اور IOS ، ان کی سیکورٹی بہت سخت ہے اور وہ اس کو باقاعدگی سے اپڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔
سوال : کیا موبائل ایپس کی کارکردگی کو بتدریج بہتر کیا جاتا ہے؟
جواب: جی ، یہ ایک مسلسل بہتری کا عمل ہے۔ اس کو باقاعدگی سے چیک کیا جا تا ہے اور اس میں بہتری لائی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی اپلیکیشن یا پروڈکٹ لانچ کی جاتی ہے، شروع میں اس میں کچھ Bugs ہوتے ہیں۔ اس کا کور بھی بعض اوقات زیادہ ہوتا ہے۔ ایک اچھا ڈیویلپر اپنی پروڈکٹ کو بہتر کرتا رہتا ہے۔ اس کو Compress کرتا ہے تا کہ اس کا سائز کم ہوتا جائے اور اس کے Functions زیادہ سے زیادہ ہوتے جائیں۔
سوال: کیا ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ ، میں بھی بتدریج بہتری کا عمل جاری رہتا ہے؟
جواب: جس طرح موبائل ایپس ڈیویلپمنٹ پر کام ہو رہا ہے ،ایسے ہی ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ لنگو یجز اور فریم ورک کو سکھنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ڈیویلپر موبائل ایپ لانچ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایک ٹیکنا لوجی ہے Apps Web Progressive اس میں آپ ویب سائٹ لانچ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک اپلیکیشن بھی بن جاتی ہے جس کو موبائل مں ڈاؤن لوڈکر لیا جاتا ہے۔ تو اب ایک ڈیویلپر کو موبائل ایپ بنا نے کے لیے الگ سے لینگویج نہیں سیکھنا پڑے گی۔
سوال: آپ نے موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ میں کس نوعیت کے کام کیے ہیں۔
جواب: میں نے زیادہ کام، فٹنس (Fitness) ٹریکنگ اپلیکیشنز پر کیا ہے۔ وہ ڈائٹ سے متعلقہ ہے،باڈی ورک آؤٹ سے متعلقہ ہے۔ اس پر میں نے سو سے زائدا پلیکیشنز لانچ کی ہیں۔ بہت ساری اپلیکیشنز پر کام جاری ہے۔ کچھ عنقریب لانچ ہونے جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ FinTech اپلیکیشنز پر کام کیا ہے۔ جاز کیشن اور ایزی پیسہ کی Integration پر کام کیا ہے۔Billing کی انٹیگریشن پر کام کیا ہے۔ بکنگ سسٹم بنائے ہیں۔ اب تک چھوٹی بڑی چھ ، سات سو سے زائد اپلیکیشنز کو لانچ اور ان پر کام کر چکا ہوں۔
سوال : آپ نے فن ٹیک ایپس کا ذکر کیا ہے۔ اِن FinTech ایپس کو کیسے لانچ کیا جاتا ہے؟
جواب : فِن ٹیک ایپس کو لانچ کرنے کے لیے پیچھے کسی فزیکل بنک کا ہونا ضروری ہے۔ ان سے رسائی درکار ہوتی ہے کہ ہم ایک اپلیکیشن لانچ کرنے جا رہے ہیں۔ ہم آپ کی خدمات کو اور پینل کو استعمال کریں گے اور ا س کے اوپر جو ایپ چلے گی ،وہ ہماری ہو گی،ہمار ا نام ہو گا۔ ان کا اپنا کوئی بنک نہیں ہوتا۔
سوال: ایپ ڈیویلپمنٹ کی فیلڈ میں بہتر ی کیلئے کونسے ٹولز متعارف ہو چکے ہیں۔
جواب: جی ، اب بہت سے پلیٹ فارمز لانچ ہو چکے ہیں جن سے ایپ ڈیویلپمنٹ میں بہتر ی اور آسانی آئی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کلائنٹ نے کوئی آئیڈیا شئیر کرنا ہوتا تھا یا اس پر کوئی سرمایہ کاری کروانی ہوتی تھی تواس کو پوری ویب سائٹ بنوانا پڑتی تھی۔ اب ایسے پلیٹ فارمز ہیں جن کو No Code Platform کہتے ہیں۔ جن میں کلائنٹ خود ہی سائن اپ کر کے، Drag & Drop کر کے ، ایک ایپ کا ایم وی پی(Product Viable Minimum ) تیار کرلیتا ہے۔ اور اس ایم وی پی کو آگے سرمایہ کار کو دکھا دیتا ہے۔ اس پر فنڈنگ لے کر ، پھر ڈیویلپرز کو ہا ئر کرتا ہے اور اس پر کام کرواتا ہے۔
سوال : موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ کا رجحان پاکستان میں کیسا ہے؟
جواب: پاکستان میں اینڈرائڈ کی بڑی وسیع مارکیٹ ہے۔ موبائل میں میپس(Maps) ہیں، فوڈ کا آرڈر کر سکتے ہیں۔ بینکنگ ٹرانزکشنز کر سکتے ہیں۔ کیلکولیشنز کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں لوگ موبائل زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ موبائل ایپ ڈیویلپر کے لیے بہت مواقع ہیں۔اگر وہ اپنی مہارت ا ورعلم کو بڑھا لیں اور انڈسٹری کو درپیش مسائل کا حل نکال لیں۔ حال ہی میں ایک بڑی حوصلہ افزاء پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کے ایک Fintech سٹارٹ اپ نے سعودی عرب میں منعقدہ نمائشں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اور دولاکھ پچاس ہزار ڈالر انعا م حاصل کیا اور اس نمائش میں دنیا بھر سے دوہزار سے زائد لوگ اپنے اپنے آئیڈیاز کے ساتھ شریک ہو ئے تھے اور پاکستانی سٹارٹ اپ نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ پاکستانی ڈیویلپرز کی بڑی کامیابی ہے اور لوگوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
سوال: اے آئی کی وجہ سے ڈیویلپر کے لیے کچھ آسانیاں آئی ہیں کیا؟
جواب: اے آئی کی وجہ سے کچھ آسانیاں آئی ہیں۔ ایسے کچھ ٹولز آ چکے ہیں جس کی وجہ سے کوڈ لکھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ مستقبل میں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اے آئی کی وجہ سے ڈیویلپرز ختم ہو جائیں گے ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اے آئی ،ا ْن ڈیویلپرز کو ری پلیس کر دے گی جن کو اے آئی نہیں آتی۔
سوال: کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں پروگرامنگ پڑھائی جاتی ہے۔
جواب: جی بالکل، پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن یہ کسی بھی طالب علم کا اپنا شوق اوررجحان ہوتا ہے کہ وہ کس فیلڈ کی طر ف جائے گا۔ کیونکہ اس میں محنت درکار ہے اور مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ شوق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
سوال: آپ نے زمانہ طالب علمی ہی سے فری لانسنگ شروع کر دی تھی۔ اس جانب کیسے آئے تھے۔
جواب: میں جب پڑھتا تھا تو چیزوں کو سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ جو کچھ اساتذہ پڑھاتے تھے، اس کو گھر آ کر دیکھتا تھا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر یوٹیوب کے ذریعے بھی سیکھتا تھا۔ میں اصل میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتا تھا۔ تو میرے ایک ٹیچر تھے جو کہتے تھے کہ فری لانسنگ کرو، اپنی مہارت بیچو اور پیسے کماؤ۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنی مہارت موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ کو فروخت کروں۔ تو میں نے اپنے پہلے سے موجود اکاؤنٹ کو ایکٹیویٹ کیا اور ایک ہفتے میں پانچ سو ڈالر کما لیے۔فری لانسنگ میں نے فائیور اور اپ ورک سے شروع کی۔ لنکڈان پر کام شروع کیا۔ اس طرح سلسلہ چلتا رہا اور میرے تعلیمی اخراجات بھی کسی حد تک پورے ہوئے۔
سوال : کیا فری لانسنگ کو ایک مستقل ذریعہ روزگار سمجھا جا سکتا ہے؟
جواب: روایتی معنوں میں اور پاکستانی سماج کے تناظرمیں تو شاید اس کو مستقل ذریعہ روزگار نہیں سمجھا جاتا۔ مگر وہ طلباء جو دوران ِ تعلیم اس کو سنجیدگی سے کرتے ہیں وہ اپنے تعلیمی اخراجات ضرور پورا کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت کچھ سیکھ بھی جاتے ہیں۔ مگر اس میں ایک قباحت ہے کہ فری لانسنگ کی لائف کم ہوتی ہے۔بالخصوص اْس فری لانسر کی جس کا وژن وسیع نہ ہو، جو صرف پانچ سو یا ہزار ڈالر کا سوچے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ٹیم بنانے پر کام کیا جائے۔ تا کہ کام کو پھیلایا جائے اور اس کی گروتھ ہو، کیونکہ جب ہم انفرادی حیثیت میں کام کریں گے تو دو چار کلائنٹس کے ساتھ ہی کریں گے۔ جب ہم کمپنی بنا کر کام کریں گے تو ایک سو ، دو سو کلائنٹس کے ساتھ بیک وقت کام کر سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری کو ملک میں لاسکتے ہیں، اور نوجوانوں کو با اختیار بنا سکتے ہیں۔
سوال: آپ نے بطور ڈیویلپر پہلی ایپ کونسی بنائی تھی ؟
جواب: میں نے پہلی ایپ ایک امریکن کلائنٹ کے لیے بنائی تھی۔ ان کا پلازہ تھا۔ جہاں وہ پارکنگ کی سہولت دیا کرتے تھے۔ بڑے ممالک میں پارکنگ کے مسائل ہوتے ہیں اور وہاں پارکنگ پر چارجز ادا کرنے پڑتے ہیں۔ تو میں نے ان کے لیے ایک سسٹم بنا کر دیا۔ وہ سسٹم موبائل ایپ بیسڈ تھا۔ کوئی بھی شخص آئے تو گھر سے آتے ہوئے اپنی جگہ کو بک(Book) کر لے۔ یہ سارا سسٹم میں نے بنایا تھا۔ اس کی شروعات پانچ ڈالر کی مشاورت سے ہوئی۔ بعد میں وہ چار سو ڈالر تک چلا گیا اور یہ کام میں اب تک کر رہا ہوں۔ اب مینٹیننس کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ مراکو کے لیے سیاحت کی ویب سائٹ اور موبائل ایپ بھی بنا کر دی تھی۔
سوال : آپ کے کلائنٹس اندرونِ ملک ہیں یا بیرونِ ملک ہیں ؟ اور انہیں کس طرح کی خدمات فراہم کرتے ہیں؟
جواب: زیادہ تر کلائنٹس امریکہ میں ہیں۔انہیں ہم ویب ڈیولپمینٹ ، موبائل ایپ ڈیویلپمنٹ اور یو آئی ایس ڈیزائن او رموبائل ایپس کی بہتری کی تمام تر خدمات مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ بزنس کو کیسے بڑھا یا جاسکتا ہے۔اس پر کام کرتے ہیں۔ لیکن ہم موبائل اور ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ پر زیادہ کام کرتے ہیں۔
سوال: نوجوانوں کو کیا مشورہ دیں گے؟
جواب: اگر آپ کے پاس مہارت ہے تو اس کو استعمال کریں اور بیچیں۔ حکومت ہر کسی کو جاب نہیں دے سکتی۔ فری لانسنگ میں سہولت ہے۔ کامیاب اور کاروباری آدمی مختلف نوعیت کے کام کرتا ہے۔ اسی طرح مختلف کام کریں تو آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ہمیں اپنی طاقت کو پہچاننا چاہیے۔ ہم عملی زندگی کی مشکلات کو سامنے رکھ کر پروجیکٹس نہیں بناتے۔ تعلیمی اداروں میں صرف تعلیمی نوعیت اور ضرورت کے پروجیکٹ بناتے ہیں جن کی عملی دنیا میں کوئی وقعت اور افادیت نہیں ہوتی۔ ضرورت اس با ت کی ہے کہ نوجوان عملی مشکلات اور مسائل کو سامنے رکھ کر پروجیکٹس بنائیں تاکہ وہ کامیاب ہو سکیں۔ ہم ابھی تک پرانے طورطریقوں پر چل رہے ہیں۔
پچیس سال بعد ایک نسل تبدیل ہو جاتی ہے،سکل سیٹ ( Set Skill)تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہمیں بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر تیزی سے فروغ پا ر ہا ہے۔ مستقبل میں یہاں یونی کارن ا سٹارٹ اپس ہوں گے جن کی ویلیو ایک ارب ڈالر کی ہوگی۔وہ پوری دنیا میں کام کرے گا۔میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں بہت جلد یونی کارن سٹارٹ اپس ہوں گے جس سے پاکستان کا نام بلند ہو گا اور ہماری مہارت کی عالمی سطح پر پذیرائی ہو گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کمپیوٹر سائنس موبائل ایپس پاکستان میں اس کے علاوہ ویب سائٹ کا کر سکتے ہیں فری لانسنگ پر کام کیا تو میں نے کی وجہ سے سٹارٹ اپ ہوتا ہے ہوتی ہے پڑتا ہے جاتا ہے ہیں اور لانچ کی کریں گے جاتی ہے میں بہت اور ویب ا ہے تو اے ا ئی تھا کہ کام کر ہو رہا کے پاس ہے اور رہا ہے کیا ہے کی طرف کیا جا اور اس اور ان ہیں ہو
پڑھیں:
سات ارب ڈالر قرض پروگرام؛ آئی ایم ایف مشن اقتصادی جائزے کیلئے پاکستان پہنچ گیا
سات ارب ڈالر قرض پروگرام؛ آئی ایم ایف مشن اقتصادی جائزے کیلئے پاکستان پہنچ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 3 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)
پاکستان کو 7 ارب ڈالر بیل آوٴٹ پیکیج میں سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کی ادائیگی کے حوالے سے اقتصادی جائزے کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان پہنچ گیا۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اقتصادی جائزہ مذاکرات 15 مارچ تک جاری رہیں گے۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں تکنیکی اور دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کے مذاکرات ہوں گے۔
نیتھن پورٹر کی قیادت میں آئی ایم ایف کا 9 رکنی وفد تقریباً 2 ہفتے پاکستان میں قیام کرے گا، جو اس دوران آئندہ مالی سال 26-2025 کے بجٹ کے لیے تجاویز بھی دے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی رضامندی کی صورت میں ہی تنخواہ دارطبقے کو ریلیف مل سکے گا۔ جائزہ وفد کے وزارت خزانہ، وزارت توانائی، منصوبہ بندی اور اسٹیٹ بینک کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر، اوگرا، نیپرا سمیت دیگر اداروں اور وزارتوں کے ساتھ بھی آئی ایم ایف وفد کے مذاکرات ہوں گے۔