UrduPoint:
2025-03-03@21:22:01 GMT

’حکومتی رائٹ سائزنگ کا زیادہ تر ہدف چھوٹے عہدے‘

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

’حکومتی رائٹ سائزنگ کا زیادہ تر ہدف چھوٹے عہدے‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مارچ 2025ء) تفصیلات کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی کے 200 عہدے ختم کرنے کے اقدام سے سالانہ ایک ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ یہ عہدے حکومت کی رائٹ سائزنگ کی پالیسی کے تحت ختم کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے ایک رائٹ سائزنگ کمیٹی بنا رکھی ہے جس میں قانون دان اور مختلف محکموں کے سیکرٹری شامل ہیں۔

پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟

نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہیں، پاکستان

عہدے ختم کرنے کا یہ اقدام ایک ایسے وقت اٹھایا گیا جب چند ہفتے قبل ہی اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر لیا تھا اور ملک میں اس فیصلے پر عوامی سطح پر اور میڈیا پر کافی بحث و تمحیض ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر اشفاق حسن ایک سینئر پالیسی ساز اور معیشت دان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کھلا تضاد ہے کہ ایک طرف قانون ساز اپنی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف عوامی پیسے کی بچت کے لیے رائٹ سائزنگ کی بات کر رہے ہیں: ''یہ انصاف نہیں کہ اقتدار میں موجود افراد اپنی تنخواہیں بے حد بڑھا لیں۔ ایسے اقدامات کے بعد دیگر ادارے بھی اسی طرز پر عمل کرنے کی ترغیب پاتے ہیں، جیسا کہ نیپرا کی مثال سامنے آئی جہاں اتھارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے اراکین پارلیمنٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کر لیا۔

‘‘ رائٹ سائزنگ میں کون سے عہدے ختم ہوں گے؟

باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی اشرافیہ کے لیے پالیسیوں کا نہ صرف مالی بچت کے اصولوں سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا بلکہ جب رائٹ سائزنگ کی بات آتی ہے تو صرف چھوٹے عہدے ختم کیے جا رہے ہیں۔ معروف ماہر معیشت اور حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی کے سابق رکن قیصر بنگالی کا کہنا ہے، ''میں نے نومبر میں وفاقی رائٹ سائزنگ کمیٹی سے صرف اس وجہ سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ یہ زیادہ تر چھوٹے ملازمین کی نوکریاں ختم کرنے پر مرکوز تھی جو کہ میرے خیال میں ایک ٹھیک چیز نہیں ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ مختلف عہدوں پر کام کرنے کے دوران انہیں حکومت کے معاملات کی بدحالی کا بخوبی اندازہ ہوا: ''ایسے کیسز بھی موجود ہیں جہاں حکومت کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ کچھ چھوٹے محکمے وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ کبھی کسی ضرورت کے تحت یہ محکمے قائم کیے گئے تھے، مگر بعد میں کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا کیا کرنا ہے، اور لوگ بس تنخواہیں لے رہے ہیں۔

‘‘

قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں حکومت رائٹ سائزنگ کی بات کرتی ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی اقدام سے پہلے مکمل تحقیق کی جائے اور ہر اہم کام ماہرین کے ذریعے انجام دیا جائے۔ اس وقت فیصلہ کرنے والے اسمبلی کے رکن اور محکموں کے سیکرٹریز ہیں اور کوئی ٹھرڈ پارٹی ماہر اس رائٹ سائزنگ کی کمیٹی کا حصہ نہیں ہے۔

اگر چھوٹے عہدے ختم نہ کریں تو کون سے کریں؟

جہاں کچھ لوگ چھوٹے عہدوں کے خاتمے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہیں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت رائٹ سائزنگ کے تحت چھوٹے عہدوں کو ختم نہیں کرے گی تو یہ پالیسی مؤثر ثابت نہیں ہوگی، کیونکہ سرکاری عملے کی بڑی تعداد انہی عہدوں پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے، ''کُل سرکاری ملازمین میں سے تقریباً 88 فیصد وہ لوگ ہیں جو گریڈ ایک سے پانچ تک بھرتی کیے گئے ہیں۔

جب بھی رائٹ سائزنگ کی بات ہوگی، سب سے زیادہ متاثر یہی لوگ ہوں گے۔ حکومت نے معمولی کاموں کے لیے بے تحاشہ افراد بھرتی کر رکھے ہیں، جیسے چائے بنانا، شیشے صاف کرنا، پودوں کو پانی دینا، گاڑیاں دھونا، اور دفتری فائلیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر پہنچانا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سیاستدانوں نے ملک کو ایک ایسی فلاحی ریاست بنا دیا ہے جو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی: ''سیاستدان اپنے حلقوں کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ملازمتیں دیتے ہیں، کیونکہ وہ انہیں غریب سمجھتے ہیں، مگر یہ غریبوں کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے بایثر لوگ بھی وسائل کی اپنے مفاد میں غیر منصفانہ تقسیم نہ کریں۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے رائٹ سائزنگ کی بات کا کہنا ہے رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

فافن نے 2025 کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو وفاق سے زیادہ شفاف قرار دیدیا

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی 2025 کی رپورٹ شائع کردی گئی، فافن نے وفاق کے مقابلے میں پنجاب کی حکومت کو شفاف قرار دے دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق فافن نے پنجاب میں اداروں کی کارکردگی کی شفافیت کی سطح پر مبنی رپورٹ پیش کردی ہے اور رپورٹ میں 253 سرکاری اداروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب سیکریٹریٹ کے 43 محکموں، 27 منسلک محکموں، 147 خود مختار اداروں، 23 سرکاری کمپنیوں اور 13 اداروں کا جائزہ لیا گیا۔

فافن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتیں اوسطاً 42 فیصد معلومات کا انکشاف کر رہی ہیں اور پنجاب حکومت کی شفافیت کی سطح وفاقی حکومت سے بہتر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانونی تقاضوں کے مطابق پنجاب کے اداروں کی فعال طور پر 61 فیصد معلومات دستیاب ہیں اور پنجاب میں ذیلی ادارے 52 فیصد تک معلومات ویب سائٹس پر مہیا کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب کے بیشتر ذیلی اداروں نے 50 فیصد سے بھی کم معلومات ویب سائٹس پر فراہم کیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومتی سہانے خواب
  • خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی تنظیمیں تحلیل کردی گئیں، نوٹیفکیشن جاری
  • تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی تمام تنظیمیں تحلیل کردی گئیں
  • پی ٹی آئی کی تنظیمیں ختم کر دی گئیں
  • تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی تمام تنظیمیں تحلیل
  • ایران کے نائب صدر جواد ظریف عہدے سے مستعفی ہو گئے
  • فافن نے 2025 کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو وفاق سے زیادہ شفاف قرار دیدیا
  • پی پی حکومت اختلافات، وزیراعظم اور بلاول بھٹو کی آج اہم ملاقات ہوگی
  • مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی پر وزیر خزانہ عہدے سے برطرف