ملکی برآمدات کو بڑا دھچکا، جنوری کی نسبت 17.35 فیصد کی بڑی کمی ریکارڈ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
ملکی برآمدات کو بڑا دھچکا، جنوری کی نسبت 17.35 فیصد کی بڑی کمی ریکارڈ export WhatsAppFacebookTwitter 0 3 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)ملکی برآمدات کو بڑا دھچکا، جنوری کی نسبت 17.35 فیصد کی بڑی کمی ریکارڈ، فروری میں سالانہ بنیادوں پر بھی برآمدات میں 5.57فیصد کمی ہوگئی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق فروری میں مجموعی برآمدات کا حجم 2 ارب 43 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہا،جنوری میں ملکی مجموعی برآمدات 2 ارب 95 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھیں،گزشتہ سال فروری میں برآمدات کا حجم 2 کروڑ 58 لاکھ 30 ہزار ڈالر تھا،رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں برآمدات میں 8.
ادارہ شماریات کے مطابق فروری میں ملکی درآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 10.03 فیصد کی کمی ریکارڈ،جنوری میں درآمدات کا حجم 4 ارب 73 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ریکارڈ، رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں درآمدات میں 7.40 فیصد اضافہ ریکارڈ، جولائی تا فروری مجموعی درآمدات کا حجم 37 ارب 80 کروڑ ڈالر رہا۔
رپورٹ کے مطابق فروری میں تجارتی خسارے میں 33.43 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ، فروری کے دوران تجارتی خسارہ بڑھ کر 2 ارب 30 کروڑ ہوگیا، رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران تجارتی خسارے میں 6.33 فیصد اضافہ ریکارڈ،جولائی تا فروری تجارتی خسارہ بڑھ کر 15 ارب 78 کروڑ ڈالر ہو گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کمی ریکارڈ فیصد کی
پڑھیں:
نوے فیصد بھارتی بنیادی ضروریات سے محروم
ریاض احمدچودھری
بھارت میں 1ارب 40کروڑسے زائد لوگ رہتے ہیں، لیکن ایک نئی رپورٹ کے اندازے کے مطابق تقریباً ایک ارب افراد کے پاس غیر ضروری اشیا یا خدمات پر خرچ کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ ہندوستان کی نوے فیصد آبادی یعنی سو کروڑ لوگوں کے پاس بنیادی ضروریات زندگی کے علاوہ غیر ضروری اشیا پر خرچ کرنے کی مالی صلاحیت نہیں، جبکہ صرف 13ـ14 کروڑ صارف طبقہ ہیں۔جو اسٹارٹ اپس اور صارف پر مبنی کاروباروں کے لیے بنیادی بازار ہیں۔
30کروڑ خواہشمند صارفین ڈیجیٹل ادائیگیوں سے خرچ کرتے ہیں لیکن محتاط ہیں۔ دولت کا ارتکاز بڑھ رہا ہے، سرفہرست 10 فیصد کے پاس 57.7فیصد آمدنی ہے، جو 1990کے مقابلے میں 34فیصد سے بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف، نچلے 50 فیصد کا حصہ 22.2 فیصد سے گھٹ کر 15فیصد رہ گیا ہے۔ مارکیٹ وسیع ہونے کے بجائے زیادہ امیر طبقے پر مرتکز ہو رہی ہے۔ مہنگی مصنوعات، لگژری گھروں اور اسمارٹ فونز کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ سستی مصنوعات کی مانگ کمزور ہو رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں معاشی ترقی غیر مساویانہ اور غیرمتوازن رہی ہے۔ بھارت کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہونے کے باوجود اس کی مارکیٹ تقریباً میکسیکو کے برابر ہے۔ بھارت میں امیر اور معاشی طور پر خوش حال لوگوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ پہلے سے موجود امیر لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس غیر متوازن ترقی کی وجہ سے متوسط اور نچلے طبقے کو مصنوعات اور خدمات فراہم کرنے والی کاروباری کمپنیوں کو بھی مندی کا سامنا رہا ہے۔بھارت میں 12 سال سے برسر اقتدار مودی سرکاری دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور دنیا بھر میں اپنی تیز رفتار ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے شائننگ بھارت کا نعرہ لگاتی ہے، لیکن اس نعرے کی حقیقت ایک بھارتی کمپنی نے کھول دی ہے۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی مثل تو آپ نے سنی ہوگی اور اس مثل پر ایک بھارتی سرمایہ کار کمپنی بلوم وینچرز پوری اتری ہے جس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بھارت میں بڑے پیمانے پر غربت کا انکشاف کرتے ہوئے ایسے حیران کن اعداد وشمار پیش کیے ہیں جس نے مودی سرکار کے شائننگ بھارت کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔صرف کاغذات پر یا ویب دنیا میں تیزی سے معاشی ترقی کرتے ملک بھارت کی اصلیت ظاہر کرتے ہوئے بلوم وینچرز نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے لگ بھگ ایک ارب 40 کروڑ آبادی والے ملک بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی انتہائی غریب ہے۔
بھارت میں صرف 13 یا 14 کروڑ بھارتی امیر ہیں۔ 26 سے 27 کروڑ بھارتیوں نے کبھی کوئی قیمتی شے خریدی اور نہ ہی پرتعیش سروسز حاصل کی ہیں۔پڑوسی ملک کی ایک ارب سے زائد افراد بمشکل اپنی ضروریات زندگی پوری کر رہے ہیں اور ان کے پاس روزہ مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیا خریدنے کے علاوہ کچھ بھی خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔رپورٹ میں مودی سرکار کی پالیسیوں سے غریب خوشحال ہونے کے بجائے غریب تر جب کہ امیر مزید امیر ہو رہے ہیں۔ بھارتی کمپنیوں کی پیداوار و مصنوعات انہی چند کروڑ دولت مندوں کے گرد گھومتی ہیں۔متوسط طبقے کی بچت گزشتہ 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ لوگوں کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
بھارت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ وہ آئندہ چند برس میں پانچ ٹریلن ڈالر کی معیشت بننے جا رہا ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں میں بھارت کی معیشت سب سے تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔اس کا آئندہ ہدف دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننا ہے۔ گذشتہ جولائی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے 2006 سے 2021 تک 15 برس کی مدت میں 41 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔لیکن ان اعداد و شمار کے درمیان تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے اور دولت کی تقسیم ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہو رہی ہے۔گزشتہ سال اپریل میں بین الاقوامی ادارے آکسفیم نے بھارت میں نابراری پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی 60 فیصد دولت پر قبضہ ہے۔ 2012 سے 2021 تک دس برس کی مدت میں جو دولت بنائی گئی اس کا 40 فیصد حصہ آبادی کے صرف ایک فیصد افراد کے حصے میں گیا۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2020 میں 102 ارب پتی تھے۔ یہ تعداد 2022 میں بڑھ کر 166 ہو گئی تھی۔ آکسفیم کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ غریب بھارت میں بستے ہیں جن کی تعداد تقریباً 23 کروڑ بتائی گئی تھی۔ سب سے زیادہ غربت دلت اورپسماندہ ذاتوں میں ہے۔
ملک کی اقتصادی ترقی اور مستقبل کے سنہری امکانات کے دعوؤں کے درمیان گذشتہ مہینے ملک کی شمالی ریاست بہار میں تمام مخالفتوں کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر ایک ریاست گیر سروے منعقد کیا گیا۔ 1931 کے بعد یہ اس نوعیت کا پہلا سروے تھا۔اس میں ان پہلوؤں کے قطعی اعداد و شمار حاصل کیے گئے کہ آبادی میں کسی ذات کے لوگوں کی کتنی آبادی ہے۔ ان کی تعلیمی حیثیت کیا ہے، سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ان کی ملازمت کا تناسب کیا ہے۔ لوگوں کی آمدن کتنی ہے اور غربت کی لکیر کیا ہے اور سب سے زیادہ غریب کون لوگ ہیں۔ریاستی اسمبلی میں پیش کی گئی اس رپورٹ میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ بہت چونکا دینے والے ہیں۔ اس میں پایا گیا کہ بہار کی 13 کروڑ کی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔غربت کی سطح کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لو گ چھ ہزار روپے ماہانہ سے کم میں زندگی گزار رہے ہیں۔