میکسیکو اور کینیڈا پر عائد ٹیرف میں نرمی ہوسکتی ہے؛ امریکی وزیرِ تجارت کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
ویب ڈیسک —امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل کو کینیڈا اور میکسیکو کی برآمدات پر نئے ٹیرف نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹنک کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک پر عائد ہونے والے نئے ٹیرف 25 فی صد سے کم ہونے کا امکان ہے۔
اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے ’فاکس نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں لٹنک نے کہا کہ یہ مسلسل تبدیل ہوتی صورتِ حال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منگل کو میکسیکو اور کینیڈا پر ٹیرف عائد ہونے والے ہیں۔ وہ کیسے ہوں گے یہ معاملہ ہم صدر اور ان کی ٹیم پر چھوڑ رہےہیں۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ میکسیکو اور کینیڈا کی مصنوعات پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ ان دونوں ہمسایہ ممالک نے غیر قانونی منشیات کی امریکہ میں اسمگلنگ روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
ٹرمپ نے اپنے اعلان میں امریکہ سے میکسیکو برآمد ہونے والے تمام اشیا پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا سے توانائی سے متعلق مصنوعات کے علاوہ درآمد ہونے والی دیگر اشیا پر ٹیرف نافذ کیا جائے گا۔
لٹنک نے کہا کہ میکسیکو اور کینیڈا نے بارڈر سیکیورٹی میں بہتری کے لیے ’معقول اقدامات‘ کیے ہیں۔ لیکن یہ فینٹینل جیسی منشیات کی امریکہ میں غیر قانونی ترسیل روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
تاہم اتوار کو اپنے انٹرویو میں ہاورڈ لٹنک سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صدر میکسیکو اور کینیڈا پر پورا 25 فی صد ٹیرف لاگو نہیں کریں گے۔
ٹرمپ نے ایک ماہ قبل ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم بعد ازاں میکسیکو اور کینیڈا کی جانب سے فینٹینل کی روک تھام کے لیے اقدامات کے بعد صدر نے ٹیرف کے نفاذ کو مؤخر کیا تھا۔
ٹیرف کے اعلان کے بعد میکسیکو نے امریکہ کے ساتھ اپنی شمالی سرحد پر 10 ہزار اہلکار تعینات کیے تھے جب کہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے فینٹینل کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی سرکاری عہدے دار مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ منگل کو چینی مصنوعات پر بھی مزید 10 فی صد ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ چار فروری کو چین پر 10 فی صد ٹیرف عائد کر چکے ہیں۔
ٹرمپ الزام عائد کرتے ہیں کہ چین امریکہ میں فینٹینل کی اسمگلنگ کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔
گزشتہ ہفتے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ٹرمپ نے امریکہ کے لیے یورپی یونین کی برآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائد کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔
صدر ٹرمپ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ جو ممالک امریکہ کی برآمدات پر لیوی ٹیکسز لگاتے ہیں ان کے لیےبرابر کے جوابی ٹیرف بھی دو اپریل تک لاگو ہو جائیں گے۔
انہوں نے گاڑیوں کی درآمدات، لکڑی، فارماسوٹیکل اشیا اور دیگر مصنوعات پر بھی ٹیرف عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بعض معاشی ماہرینِ کے مطابق ٹیرف کے باعث امریکہ میں مہنگائی اور دیگر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
ٹرمپ یہ تسلیم کرتے ہیں ٹیرف کے نفاذ سے امریکیوں کو تکلیف اٹھانا ہوگی۔ لیکن یہ عارضی نوعیت کی مشکلات ہیں اور آخرِ کار امریکہ کی معیشت کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ درآمدات پر ٹیرف سے مصنوعات تیار کرنےوالی کمپنیوں کی امریکہ میں پیداوار کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: میکسیکو اور کینیڈا کرنے کا اعلان کیا ٹیرف عائد کرنے کا امریکہ میں فی صد ٹیرف ٹیرف کے پر ٹیرف مدات پر کا کہنا کیا تھا کے لیے
پڑھیں:
غیر مہذب وائٹ ہائوس اور امریکی میڈیا کی گرائوٹ
امریکہ جو کبھی دنیا بھر میں اپنی سیاسی پختگی، اعلیٰ اخلاقی معیارات اور میڈیا کی آزادی کے لئے مشہور تھا آج اپنی ہی بنائی ہوئی اقدار کو پامال کرتا نظر آ رہا ہے۔ یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی کے وائٹ ہائوس کے دورے کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر اور امریکی میڈیا نے جو رویہ اختیار کیا وہ نہ صرف امریکہ کی سیاسی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی پتہ دیتا ہے کہ امریکی میڈیا کس قدر اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی جو اپنے ملک کی روس کے خلاف جنگ میں قیادت کر رہے ہیں کو وائٹ ہائوس میں جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی بھی بین الاقوامی سفارتی معیار سے گرا ہوا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز نہ صرف تحقیر آمیز تھا بلکہ ان کے الفاظ غرور اور تکبر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک کمزور ملک کے سربراہ سے نہیں بلکہ کسی معمولی ماتحت سے مخاطب ہوں۔’’ہم نے آپ کے ملک پر 350 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں، آپ کے تمام کارڈز ختم ہو چکے ہیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمیں بتائیں کہ امریکا کو کیا کرنا ہے۔ آپ امریکا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔ ‘‘ یہ جملے نہ صرف یوکرین کے صدر کی توہین تھے بلکہ ایک ایسے ملک کی بے عزتی تھے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ٹرمپ کا رویہ کسی مغرور بادشاہ جیسا تھاجو اپنی طاقت کے نشے میں دوسروں کی تذلیل کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خود کو خدا سمجھ رہے ہوں، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وہ خدا بن کے بیٹھا تھا تختِ ستم پر
میں فریاد لے کر گیا بھی تو کس پر؟
ٹرمپ کے علاوہ نائب صدر جے ڈی وینس کا رویہ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ انہوں نے زیلنسکی کے ساتھ نہایت سخت اور بے رخی سے بات چیت کی۔ ان کے الفاظ اور باڈی لینگویج دونوں ہی یوکرینی صدر کے لئے کسی عزت و احترام کے جذبات سے خالی تھے۔اگر صرف سیاسی قیادت ہی گراوٹ کا شکار ہوتی تو شائد یہ اتنا تشویش ناک نہ ہوتا لیکن امریکی میڈیا نے بھی اس موقع پر اپنی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ کے حمایتی صحافی برین گلین نے یوکرینی صدر سے انتہائی غیر ضروری سوال کیا۔ ’’آپ نے کوئی ڈھنگ کا سوٹ (تھری پیس یا پینٹ کوٹ)کیوں نہیں پہنا؟ آپ امریکا کے سب سے بڑے دفتر (صدارتی آفس) میں آئے ہیں اور آپ نے ڈھنگ کا سوٹ پہننا مناسب نہ سمجھا؟‘‘ یہ سوال نہ صرف غیر متعلق تھا بلکہ یوکرین کے صدر کی توہین کا ایک اور موقع تھا۔ زیلنسکی جو ایک جنگ زدہ ملک کے صدر ہیں نے اس سوال کا جواب بڑے تحمل سے دیا۔’’میں اس وقت سوٹ پہنوں گا جب جنگ ختم ہو جائے گی۔ شاید جو میں نے پہنا ہوا ہے اسی طرح کا، شاید جو آپ نے پہن رکھا ہے اس طرح کا یا شاید اس سے بھی بہتر، شاید سستا، میں نہیں جانتا دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔‘‘ یہ جواب زیلنسکی کی ذہانت اور حاضر جوابی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سوال ان کی توہین کرنے کے لیے کیا گیا ہے مگر انہوں نے سفارتی سلیقے سے نہ صرف اس کی شدت کو کم کیا بلکہ امریکی میڈیا کی غیر سنجیدگی پر بھی طنز کیا۔ لیکن امریکی میڈیا نے اس موقع کو بھی ایک شو میں تبدیل کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے کس قدر دور ہو چکا ہے۔امریکی میڈیا نے یوکرینی صدر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ اس کے دوہرے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی مغربی لیڈر کسی ترقی پذیر ملک میں جاتا ہے تو اسے ’’مساوات اور سفارتی آداب‘‘کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی غیر مغربی لیڈر ان کے ہاں آتا ہے تو اس کے لباس، انداز اور حیثیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جب امریکہ کسی ملک کو امداد دیتا ہے تو اسے احسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن جب وہی ملک کچھ مطالبہ کرے تو اسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی میڈیا اب ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارہ نہیں رہا بلکہ وہ سیاسی ایجنڈے اور طاقت کے مراکز کے تابع ہو چکا ہے۔امریکہ کی یہ سیاسی اور اخلاقی گراوٹ صرف اس کے داخلی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
یوکرین جیسے ملک جو روس جیسی طاقت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کو امریکہ کی طرف سے جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف امریکہ کے اتحادیوں کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی اشارہ دیتا ہے کہ امریکہ اب ایک قابل اعتماد اور مستحکم اتحادی نہیں رہا۔امریکی قیادت کا یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایسا ہی برتا کیا ہے۔ افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد وہ طالبان سے معاہدہ کرکے نکل گیا اور افغان حکومت کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ عراق میں ’’جمہوریت‘‘کے نام پر تباہی مچائی لیکن جب وقت آیا تو وہاں سے بھی نکل گیا، بغیر یہ دیکھے کہ اس کی جنگ سے وہاں کیا حالات پیدا ہوئے۔ ویت نام سے لے کر مشرق وسطیٰ تک امریکہ نے ہمیشہ اپنی طاقت کے نشے میں دوسروں کی تذلیل کی مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسا غرور کبھی بھی دیرپا نہیں رہتا۔’’
تخت والے سنبھل کے بیٹھو یہاں
وقت انصاف کرتا رہا ہے سدا!
وائٹ ہائوس میں ہونے والی یہ بے عزتی صرف گفتگو تک محدود نہیں رہی، بلکہ جب ملاقات ختم ہوئی تو یوکرینی صدر کو محض رسمی جملوں کے ساتھ بددلی سے رخصت کر دیا گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انہیں زبردستی برداشت کیا گیا ہو اور اب جلد از جلد نکال دینا ہی بہتر سمجھا گیا ہو۔ زیلنسکی کو رسمی مصافحے کے بغیر ہی دروازے تک پہنچایا گیا اور امریکی صدر نے ایک مغرور مسکراہٹ کے ساتھ انہیں الوداع کہہ دیا۔ وہ لمحہ دنیا بھر کے میڈیا کے کیمروں میں قید ہو گیا جہاں ایک ملک کا سربراہ بے بسی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہو رہا تھا اور دوسرا طاقت کے نشے میں چور کھڑا تھا۔یہ واقعہ امریکہ کی سفارتی روایات پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ اگرچہ امریکہ ہمیشہ خود کو عالمی قیادت کا دعویدار کہتا ہے مگر اس کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ یہ رویہ اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کو واضح کرتا ہے۔ طاقت کے نشے میں چور حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ عزت دینے سے ہی عزت ملتی ہے اور تاریخ ایسے مغرور حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ بقول شاعر:
یہ جو تخت و تاج کے کھیل ہیں
کبھی ہم کبھی تم، کبھی اور ہیں!
امریکی صدر ، نائب صدر اور وائٹ ہائوس کے عملے سمیت امریکی میڈیا کی اس بدتمیزی پر دنیا بھر سے امریکہ کے خلاف شدید رد عمل آ رہا ہے۔ برطانیہ، جرمنی، کینیڈا سمیت یورپی ممالک نے یوکرینی صدر سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کا استعمال اور دوسروں کو نیچا دکھانا کبھی بھی دیرپا اثرات مرتب نہیں کرتا۔ اصل طاقت وہ ہے جو دوسروں کو ساتھ لے کر چلتی ہے، ان کی عزت کرتی ہے، اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرتی ہے۔ اگر امریکہ اپنی گراوٹ کو روکنا چاہتا ہے تو اسے اپنے اقدار اور اصولوں کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔