پاکستان میں افغانستان سے دراندازی جاری، ایک اور افغان دہشتگرد کی شناخت ہوگئی WhatsAppFacebookTwitter 0 3 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان میں افغانستان سے دراندازی کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے، اس حوالے سے ایک اور افغان دہشت گرد کی شناخت سامنے آ گئی ہے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے میں بتدریج اضافہ سامنے آرہا ہے۔ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے جنت بن چکی ہے، جہاں سے یہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ایک اور ہلاک افغان دہشت گرد کی شناخت منظر عام پر آ گئی ہے۔ 28فروری 2025 کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے غلام خان کلے میں 14دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ان ہلاک دہشت گردوں میں افغان دہشت گرد بھی شامل تھے۔ہلاک افغان دہشت گرد کی شناخت مجیب الرحمان عرف منصور ولد مرزا خان کے نام سے ہوئی، جو دندارگاں، ضلع چک ، صوبہ میدان وردک، افغانستان کا رہائشی تھا۔ دہشتگرد مجیب الرحمان افغانستان کی حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی کی تیسری بٹالین کا کمانڈر تھا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس سے پہلے 30 جنوری 2025 کو بدرالدین ولد مولوی غلام محمد کو ڈی آئی خان میں دوران آپریشن ہلاک کیا گیا تھا۔ دہشتگرد بدرالدین افغان فوج میں لیفٹیننٹ اور صوبہ باغدیس کے ڈپٹی گورنر کا بیٹا تھا۔افغان شہریوں میں اکثر پاکستان میں علاج یا تعلیم کے فریب میں آکر فتن الخوارج کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ بہت سے افغان دہشتگرد اپنی مرضی سے بھی فتن الخوارج میں شامل ہو رہے ہیں۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان عبوری حکومت کے اہلکار بشمول تحریک طالبان افغانستان کے سابق کمانڈرز بھی دہشتگرد تنظیموں بشمول فتن الخوارج سے گہرے روابط میں ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ فتن الخوارج کے دہشتگردوں کے پاس جدید ہتھیاروں کی موجودگی افغان طالبان اور فتن الخوارج کے گٹھ جوڑ کا واضح ثبوت ہے۔ افغانستان ہر قسم کے دہشت گردوں کی افزائش گاہ بن چکا ہے۔عبوری افغان حکومت کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کیلئے فتن الخوارج کی مکمل سہولت کاری کرتے ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق افغان عبوری حکومت کو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بجائے افغان عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبے میں، کیونکہ افغان عوام گزشتہ 3 برس سے مشکلات کا شکار ہیں۔فتن الخوارج کے ساتھ پاکستان میں گھسنے والے زیادہ تر افغان شہری یا تو مارے جاتے ہیں یا پکڑے جاتے ہیں۔ افغان عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو فتن الخوراج کی دہشتگردانہ سرگرمیوں سے دور رکھیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاکستان میں کی شناخت ایک اور

پڑھیں:

پاک افغان چوکی تنازع اور تجارت

گزشتہ سال مارچ میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورت حال کے باعث افغان تاجر تجارت کے لیے ایران اور وسط ایشیا کے متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں۔ کئی افغان تاجروں نے بتایا کہ پاکستان اور افغان حکومت کی جانب سے تجارت اور سیکیورٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں کمی لے کر آیا ہے اور بہت سے تاجر اب متبادل راستے اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارت، افغانستان کے مابین تجارتی مالیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ افغانستان اب بہت سی اشیا مثلاً پھل اور ڈرائی فروٹس وغیرہ بھارت کو برآمد کرنے میں ترجیح دے رہے ہیں اور بھارت بھی اپنی ایکسپورٹ برائے افغانستان بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے اور بھارت کی ایکسپورٹ برائے افغانستان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

1958 کے ایک ایکٹ کے تحت دنیا کے ان ممالک کے لیے ایک سہولت پر عمل درآمد کرنے میں پابندی کا کہا تھا وہ ممالک جوکہ لینڈ لاک ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی ممالک جن کے پاس بندرگاہیں ہیں ان سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 1965 میں افغانستان کے ساتھ ٹریڈ ایگریمنٹ ہوا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1965 کی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں افغانستان نے بھارت کی حمایت کی تھی۔ 2010 میں جب افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مسائل کے حل کے لیے پاک افغان ٹریڈ منظر عام پر آیا۔

بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت کی صورت حال یہ ہے کہ افغانستان سے سامان تجارت سے لدے ہوئے ٹرک واہگہ بارڈر پر جاتے ہیں اور وہاں پر ٹرک کا سامان بھارتی ٹرکوں میں لاد کر افغانی ٹرک واپس خالی آ جاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی تجارتی ماحول میں زبردست خرابی لے کر آیا جس کے منفی اثرات دونوں ممالک کے تاجروں، ٹرک ڈرائیورز، ٹرالرز والے، مقامی تاجر، باغات کے مالکان، ایکسپورٹرز اور امپورٹرز تو ہر طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طورخم بارڈر چوتھے روز بھی بند رہا کیونکہ حکام کے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، بارڈر کی بندش کے ساتھ بڑے پیمانے پر مزدوری کرنے والے دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والے مسافر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں سرحدی چوکی تنازع بڑی شدت سے ابھر کر جب سامنے آیا اور طورخم بارڈر کو بند کر دیا گیا۔ اس موقع پر ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ روزانہ 600 سے 700 ٹرک اور 5 سے 6 ہزار لوگ کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے انتہائی سخت رویوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اب امریکی صدر کے ایگزیکٹیو آرڈر کے باعث بھی تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں، کیونکہ اب امریکا نے اپنے ان ہزاروں افغان شہریوں کو جوکہ 2001 سے امریکا کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور ان لوگوں کو امریکا میں پناہ دینے کی منظوری بھی دی گئی تھی، ان کی اکثریت افغانستان میں خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اب صدر ٹرمپ کے ایک آرڈر سے ان لوگوں کی امریکی واپسی خطرے میں پڑگئی ہے۔

ایسے موقع پر پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کے امریکا منتقلی کے باعث بات چیت کے لیے تیار ہے، اگر امریکا کی جانب سے ان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا جائے گا تو ان کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ان کو افغانستان بھیجا جائے گا، اب بھلا بتائیے اس وقت کی حکومت نے ان لوگوں کو کیوں پناہ دی تھی اور اتنے عرصے گزرنے کے باوجود ان لوگوں کو امریکا واپس نہیں بھجوایا جاسکا۔ پاکستان نے امریکا سے مذاکرات کرنے ہیں تو پہلے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ زور و شور سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی لیکن حتمی نتیجے کے حصول ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور پاکستان واپس پہنچنے تک پاکستان کو اپنی تگ و دو زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو ترجیح دی جائے اس کے ساتھ ان پناہ گزینوں کے بارے میں بات کی جائے۔اس وقت پاک افغان تجارت شدید خطرے سے دوچار ہے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اگر معاملات میں تھوڑی بہت بہتری لے کر آئے ہیں اور پاکستان اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعے تجارتی تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں افغان تاجر دوبارہ اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ کے لیے پاکستان کو ترجیح دیں گے۔

اب بات یہ ہے کہ معاملات بہتری کی جانب مڑ سکتے ہیں، اگرچہ افغان تاجر دیگر راستوں کا انتخاب کر چکے ہیں لیکن جس طرح کی سہولت پاکستان میں تھی وہ میسر نہ آسکے گی۔ اول ان تاجروں کے کارندے جوکہ پاکستانی حکام اور یہاں کے تاجروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں وہ اردو سے بخوبی واقف ہیں اور دونوں ممالک کے تاجروں کے درمیان تجارت انگریزوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے ایک دوسرے سے خوب واقف بھی ہیں باآسانی ایک دوسرے سے گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور بعض کے انتہائی قریبی تعلقات بھی ہیں۔

البتہ ان تمام باتوں میں طالبان کی طرف سے ہٹ دھرمی، سختی اور کئی باتیں اب شامل ہوگئی ہیں۔ اب یہ مسائل کیسے حل ہوں کہ پاکستان کے تاجروں کو اور دیگر متعلقہ افراد کی روزی کو جس طرح نقصان کا سامنا ہے اسی طرح افغانستان کے تاجر اور وہاں کے مزدور عام شہری سب اس سے متاثر ہیں۔ لہٰذا ان مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے۔ افغانستان کے ساتھ بہت سے دیرینہ اختلافات کے باوجود افغانستان کے لیے ہماری برآمدات کا حجم بھی زیادہ ہے اور پڑوسی ملک بھی ہے اور افغان تاجر پاکستان سے ہی تجارت کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں اور پاکستانی تاجر بھی لہٰذا درمیانی راستہ حکومت کو بھی نکالنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ہلاک دہشت گرد مجیب الرحمٰن افغان نیشنل ملٹری اکیڈمی کی تیسری بٹالین کا کمانڈر نکلا
  • پاکستان میں افغانستان سے دراندازی  ، ایک اور افغان دہشتگرد کی شناخت
  • پاکستان میں دراندازی: ہلاک دہشتگرد افغانستان ملٹری اکیڈمی کا کمانڈر نکلا
  • پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث دہشتگرد افغانستان کی ملٹری اکیڈمی کا بٹالین کمانڈر نکلا
  • پاکستان میں افغانستان سے دراندازی جاری، ایک اور افغان دہشتگرد کی شناخت
  • پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ جاری، دہشتگردی میں ملوث ایک اور ہلاک افغان دہشتگرد کی شناخت
  • افغان پناہ گزین پاکستان میں کتنا وقت رہ سکیں گے؟
  • پاک افغان چوکی تنازع اور تجارت