چینی پالیسی سازوں کا اہم سالانہ اجلاس پاک چین تعلقات کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کر ے گا،محمد ضمیر اسدی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اسلام آباد : چائنا انٹرنیشنل پریس اینڈ کمیونیکیشن سینٹر کے ریسرچ فیلو محمد ضمیر اسدی نے کہا ہے کہ چینی پالیسی سازوں کا اہم ترین سالانہ اجلاس’’ ٹو سیشنز‘‘ جو چین کی نیشنل پیپلز کانگرس ( این پی سی ) اور چائینز پیپلز پولیٹکل کنسلٹیٹو کانفرس( سی پی پی سی سی ) کا مشترکہ اجلاس ہے پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔
پیر کو میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کے ٹوسیشن کے تناظر میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان کو صنعتی، زرعی، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں چینی سرمایہ کاری سے فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی ترقی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے، جس سے پاکستان کی معیشت کو طویل المدتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، ڈیجیٹل معیشت،گرین توانائی اور ہائی ٹیک انڈسٹریز میں تعاون کے امکانات بھی کھل رہے ہیں، جو پاکستان کےلئے ترقی کے نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے چین اپنی مشترکہ خوشحالی کے وژن کی طرف بڑھ رہا ہے، پاکستان ان نئے اقتصادی مواقع سے نمایاں فائدہ اٹھائے گا ۔
ضمیراسدی نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی جاری ترقی، خاص طور پر اس کے دوسرے مرحلے میں، ہمارے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے لئے ایک انقلابی محرک ثابت ہوگی۔ چین کی قیادت نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لئے اپنی مضبوط وابستگی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی ) میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر اس کی سٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی تعاون، زراعت، توانائی اور انفراسٹرکچر پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جس سے چین کی سرمایہ کاری پاکستان میں آئے گی جو ہمارے دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گی۔
یہ مرحلہ چینی کمپنیوں کے لئے پاکستان کے مینوفیکچرنگ شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے کے بے شمار مواقع فراہم کرے گا، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، ٹیکنالوجی کی منتقلی میں بہتری آئے گی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ چینی کاروبار، جو حکومت کی پالیسیوں اور حمایت سے متاثر ہیں، پاکستان میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر منصوبوں، قابل تجدید توانائی کے حل اور ہائی ٹیک صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہوں گے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون پاکستان میں علم، مہارت اور تجربات کی منتقلی کو آسان بنائے گا، جس سے مقامی صنعتوں کو طاقت ملے گی اور پاکستان کی عالمی مارکیٹ میں پوزیشن مستحکم ہوگی۔ضمیر اسدی نے مز ید کہا کہ ’’ٹو سیشنز ‘‘اجلاس کے مثبت نتائج پاکستان کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے پر دیرپا اثر ڈالیں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان اور غیر ملکی سرمایہ کاری
ممتاز عالمِ دین اوروفاق المدارس العربیہ کے صدر،مفتی تقی عثمانی صاحب، نے کہا ہے :’’اسرائیلی مصنوعات ہی کا نہیں بلکہ اسرائیل کی مدد کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی کیا جائے اور اسرائیل کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کیا جائے ، لیکن پُرامن رہیں۔اسلام اعتدال کا دین ہے۔ جذبات میں آ کر توڑ پھوڑ کرنے کا دین نہیں ہے ۔ کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچانا شریعت میں حرام ہے ۔‘‘مفتی اعظم پاکستان ، قبلہ منیب الرحمن، نے بھی غزہ میں اسرائیلی تازہ مظالم اور خونی وارداتوں کے خلاف اسرائیل کے خلاف احتجاج اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ بارے کھلا بیان دیا ہے ۔
ساتھ ہی مگر یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ احتجاج کنندگان کو عوام کے جان و مال کا خیال رکھنا چاہیے ، کسی کو کسی قسم کا جانی و مالی نقصان نہ پہنچایا جائے ۔اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور لاہور میں ایک بڑے دینی ادارے کے مہتمم، ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب ،سے منسوب ایک بیان یوں سامنے آیا ہے :’’ہم(غزہ کے خلاف) اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کو روکنے کے لیے حسبِ استطاعت اپنا کردار ادا کرنا لازم ہے ۔ اسرائیلی مصنوعات اور اسرائیلی کمپنیوں کا معاشی مقاطع ضروری ہے ۔ اِس معاشی بائیکاٹ میں مگر عام ملکی شہریوں کے جان و مال اور املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے ۔‘‘
غاصب و ظالم اور خونیں صہیونی اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں سے 7اکتوبر2023ء سے اپریل2025ء تک جو بہیمانہ سلوک کیے ہیں، اِن پر ہم سب مسلمانوں کے دل ودماغ دکھی اور مجروح ہیں۔ جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی ایف اسرائیل کے خلاف ملین مارچ کررہی ہیں۔ پچھلے تقریباً18مہینوں میں صہیونی اسرائیلی فوجیں غزہ کے51ہزار شہریوں کو شہید ، ایک لاکھ سے زائد اہلِ غزہ کو شدید زخمی اور دو ملین سے زائد غزہ کے شہریوں کو بے گھر کر چکی ہیں ۔ ساری معلوم دُنیا کے سبھی اہلِ ضمیر صہیونی اسرائیل کے مظالم کی مذمت کررہے ہیں ۔ امریکا ، برطانیہ اور جرمنی میں جامعات کے طلبا و طالبات ، اِس ضمن میں، سب پر بازی لے گئے ہیں ۔
امریکا میں کئی طلبا کو اِسی ’’جرم‘‘ میں امریکا سے نکال بھی دیا گیا ہے ، دوسرے احتجاجی طلبا کو یہ سبق سکھانے کے لیے کہ اگر تم نے بھی غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں اور غاصب اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائیگا۔ امریکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) اور امریکی وزیر خارجہ ( مارکو روبیو) نے اسرائیل کی حمائت میں ہر حد عبور کر لی ہے۔ ممتاز ترین امریکی جامعہ (ہارورڈ یونیورسٹی) کو سزا دینے کے لیے امریکی صدر نے اِس کی 2ارب ڈالر کی وفاقی امداد بھی بند کر دی ہے۔ مگر اِن تمام ہتھکنڈوں کے باوصف امریکا میں غزہ کے حق اور اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے رُک نہیں رہے ۔
اِس پس منظر میں وطنِ عزیز میں بھی صہیونی اسرائیل اور اِس کی مبینہ مصنوعات کے خلاف ایک نئی طاقتور لہر اُٹھی ہے ۔ ہماری تینوں بڑی سیاسی جماعتوں ( نون لیگ، پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی )نے پاکستان میں ابھی تک اسرائیل کے خلاف ایک بھی کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔
مذہبی جماعتیں البتہ ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہیں ۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تمام مسالک اور مکاتبِ فکر کے ہمارے علمائے کرام نے یہ لہر اُٹھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔تمام بڑے علمائے کرام نے مگر ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اسرائیل اوراس کی مصنوعات (اور عالمی تجارتی اداروں) کے خلاف احتجاج کرتے ہُوئے احتیاط اور امن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ۔ لگتا مگر یوں ہے کہ یہ نصیحت پُر شور اور شوریدہ سر احتجاجی گروہوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔مظاہرے ہوں تو گڑ بڑ بھی ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی اداروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے بڑی محنت کی ہے ۔ جناب شہباز شریف کی اجتماعی اور مخلصانہ کوششوں سے SIFCنے بھی اِس سلسلے میں بڑا اچھا کردار ادا کیا ہے۔ ابھی چند روز قبل شہباز حکومت نے اسلام آباد میں جو دو روزہ Overseas Pakistanis Conventionکروایا ہے ، اِس کا مقصدِ وحید بھی یہی تھا کہ غیر ممالک میں آباد پاکستانی واپس پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور پاکستان کی خوشحالیوں اور پاکستانیوں کے روزگار میں اضافہ کریں ۔ شنید ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے اِس کنونشن میں50ممالک سے1500سے زائد پاکستانیوں نے شرکت کی ۔
14اور15اپریل کوجس وقت اسلام آباد کے پُر شکوہ کنونشن سینٹر میں سمندر پار پاکستانیوں سے ہمارے اعلیٰ ترین سرکاری عہدیدار ولولہ انگیز خطاب فرما رہے تھے،دنیا میں اسے سراہا جا رہا تھا ۔ یہ خبریں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ہمت دینے کا باعث بن سکتی ہیں۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری خوف اور دہشت کے ماحول میں پنپ ہی نہیں سکتی ۔پُر تشدد اور بد امنی کے ماحول میں کون غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں اپنا سرمایہ جھونکنے آئے گا؟اچھا ہُوا کہ پنجاب پولیس نے صوبے بھر میں سیکیورٹی بڑھا دی ہے ۔ مشتعل ہجوم کو قابو میں رکھنا مگر دشوار تر عمل ہے ۔ اِس سلسلے میں اگلے روز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین، جناب راغب نعیمی، سے میری بات چیت ہُوئی تو اُنھوں نے بھی مکرر اِس بات کا اعادہ کیاکہ اسرائیل کے خلاف احتجاجی جلوسوں کو امنِ عامہ برباد کرنے سے ہر صورت روکا جانا چاہیے ۔