اسلام آباد ہائیکورٹ کا پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اسلام آباد(محمد ابراہیم عباسی ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہری علی محمد کو مبینہ غیرقانونی حراست میں رکھنے کے خلاف ایس پی سی ٹی ڈی، ایس ایچ او سیکرٹریٹ اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے علی محمد کے والد کی درخواست پر سماعت کی، جس میں پولیس کی غیرقانونی حراست کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ عدالت میں علی محمد کا سیکشن 164 کے تحت بیان بھی پیش کیا گیا، جسے ان کے وکیل شیرافضل مروت نے پڑھ کر سنایا۔ تاہم، ڈی ایس پی لیگل نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں ابھی تک بیان کی کاپی موصول نہیں ہوئی۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “آئی جی صاحب کو بتائیں، جیسے ہی کاپی موصول ہو، پولیس آفیشلز کے خلاف مقدمہ درج کریں۔” مزید برآں، جسٹس کیانی نے واضح کیا کہ ایف آئی آر درج ہوتے ہی ایس پی سی ٹی ڈی سمیت تمام ملوث افسران کو گرفتار کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی استدعا کی، تاہم جسٹس محسن اختر کیانی نے اسے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے: “کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی، اگر ایک بندہ تفتیش کر سکتا ہے تو تین کی ضرورت نہیں۔”
عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت سے قبل ایف آئی آر درج ہو جانی چاہیے، پھر تفتیش کے نتائج دیکھے جائیں گے۔ جسٹس کیانی نے مزید کہا کہ “اگر ملزمان بے گناہ ہوں گے تو تفتیش میں سامنے آ جائے گا۔”
وکیل شیرافضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ ملوث افسران اہم پوزیشنز پر تعینات ہیں، اس لیے شفاف تفتیش ممکن نہیں۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ “آئندہ سماعت پر آئی جی اسلام آباد کو طلب کیا جائے گا، پھر فیصلہ کریں گے کہ تفتیش کس نے کرنی ہے۔”
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 11 مارچ تک ملتوی کر دی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کے خلاف ایس پی
پڑھیں:
کیا پولیس کی تفتیش آہستہ اور ملٹری کی تیز تھی؟ جسٹس حسن اظہر
—فائل فوٹوسپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا ہے کہ سوال یہ نہیں کہ 105 ملزمان کو ملٹری ٹرائل کے لیے منتخب کیسے کیا، معاملہ یہ ہے کیا قانون ملٹری ٹرائل کی اجازت دیتا ہے؟
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟
اسلام آباد عدالت عظمیٰ کے آئینی بنچ میں پی ٹی...
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا، سیکشن 94 کے لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا ہے، ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کے اختیارات لامحدود ہیں، پاکستان میں وزیرِ اعظم کا اختیار لامحدود نہیں، ملزمان کی حوالگی کے اختیارات کا اسٹرکچر ہونا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا پولیس کی تفتیش آہستہ اور ملٹری کی تیز تھی؟ کیا ملزمان کی حوالگی کے وقت مواد موجود تھا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مواد کا ریکارڈ پر ہونا نہ ہونا مسئلہ نہیں، ساری جڑ ملزمان کی حوالگی کا لامحدود اختیار ہے، کمانڈنگ افسر سیکشن 94 کے تحت حوالگی کی درخواست دیتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی کی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کو ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ دفاع تو ملزمان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت یا اپیل میں اپنایا جا سکتا تھا۔
جسٹس محمد علی نے وکیل سوال کیا کہ کیا عدالت نے ملزمان کو نوٹس کیے بغیر کمانڈنگ افسر کی درخواست پر فیصلہ کر دیا تھا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ سیکشن 94 کا اطلاق ان ملزمان پر ہو گا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، اے ٹی سی کے فیصلے کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہو گئے، اے ٹی سی کمانڈنگ افسر کی درخواست کو مسترد بھی کر سکتی تھی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے قبل ہونا تھا، اگر کورٹ مارشل کا فیصلہ نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کیسے ہو سکتی ہے؟
جسٹس حسن اظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں حوالگی کی وجوہات بتائی گئیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کی درخواست میں وجوہات بتائی گئیں، درخواست میں بتایا گیا کہ ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شکایت کے اندراج کا طریقہ ضابطہ فوجداری میں واضح ہے، شکایت مجسٹریٹ کے پاس جاتی ہے، مجسٹریٹ بیان ریکارڈ کر کے فیصلہ کرتا ہے کہ تفتیش ہونی چاہیے یا نہیں۔
جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ درخواست مقدمے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درخواست وفاقی حکومت ہی دے سکتی، کوئی پرائیویٹ شخص آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درخواست نہیں دے سکتا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شکایت آرمی رولز کے تحت بھی ممکن ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی رولز کے مطابق پہلے تفتیش ہوتی ہے لیکن تحقیقات کے لیے بھی کوئی شکایت ہونا لازمی ہے۔
سماعت کل تک ملتویفوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔