پنجاب حکومت کوئی اور چلا رہا ہے: لطیف کھوسہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
سٹی42:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی پر کیا بات کروں حکومت کوئی اور چلا رہا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے، دوائیں خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
لطیف کھوسہ کہنا ہے کہ لوگ گاڑیوں سے موٹر سائیکل پر آ چکے ہیں، ان کے خلاف خبر لگے گی تو فیک نیوز کہہ کر پیکا ایکٹ لگا دیں گے۔
سحری میں گیس کی بندش سے پریشان شہریوں کیلئے اچھی خبر
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی چار پانچ ماہ سے دوستوں سے ملاقات نہیں ہوسکی: فیصل چودھری
انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری ابھی پی ٹی آئی میں نہیں، وہ علیم خان کی پارٹی میں چلے گئے تھے، فواد چوہدری تو جسمانی تشدد پر بھی اتر آتے ہیں، ہمیں کسی صورت بھی تہذیب کے دائرے سے باہر نہیں آنا چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کور کمیٹی کا فیصلہ تھا کہ فواد چوہدری کا معاملہ بانی پی ٹی آئی خود دیکھیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بڑااعلان
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
میرا یہ حال کیوں ہوا؟
تصور کیجیے کہ آپ ایک سرنگ میں ہیں اور آپ کو وقفے وقفے سے آکسیجن مل رہی ہے۔ جس وقفے میں آکسیجن نہیں ملتی آپ کی طبعیت بگڑنے لگتی ہے۔ آکسیجن کی بحالی آپ کو پھر سے تازہ دم کرتی ہے۔
لیکن پھر آکسیجن نہ ملنے کا دورانیہ بڑھنے لگتا ہے، آپ کی سانس تنگ ہونے لگتی ہے، ذہن پر غنودگی چھانے لگتی ہے۔ آپ جلد از جلد سرنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن سرنگ کا راستہ کچھ ایسا پیچدار ہے کہ چاہنے کے باوجود فوراً نکلنا ممکن نہیں۔
آکسیجن کی سپلائی کم سے کم ہوتی جاتی ہے، دماغ کی غنودگی بڑھتی جاتی ہے لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا۔
آپ کو دور سے ایک آواز آتی ہے، اس راستے سے نکلنا مشکل لگ رہا ہے۔ کیا ہم دوسرے راستے سے نکالیں اس مسافر کو؟
آپ کہنے کی کوشش کرتے ہیں، پلیز جلدی کرو، میرا سانس گھٹ رہا ہے، میرے جسم سے قطرہ قطرہ جان نکل رہی ہے۔
لیکن دور سے کئی اور آوازیں آتی ہیں۔
کیوں؟
ابھی تک تو سب ٹھیک تھا؟
یہ کیا بات ہوئی؟
سب لوگ آخر نکل ہی آتے ہیں اس سرنگ سے؟ پھر یہ کیوں نہیں؟
نہیں، ہمیں دوسرا راستہ قبول نہیں، یہیں سے نکالیے۔
آپ یہ سب سن کر کراہتے ہیں، پلیز، میں مشکل میں ہوں، ہمت نہیں ہے مجھ میں۔ میرا ذہن ماؤف ہو رہا ہے۔ خدارا دوسرے راستے سے مجھے باہر نکال لو، ورنہ میں مر جاؤں گا۔
آپ کی فریاد پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ باہر موجود سب لوگوں کی منشا یہ ہے کہ آپ اسی سرنگ سے باہر نکلیں۔
یہ بھی پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
آخر کار آپ کو کرین کی مدد سے کھینچنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایک اوزار آپ کے سر پر لگا دیا جاتا ہے جو آپ کے سر کی جلد کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ اس اوزار کے ساتھ ایک رسی بندھی ہوتی ہے۔ اس رسی کو سرنگ کے باہر کھڑے ہوئے لوگ پکڑ کر کھینچتے ہوئے آپ کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر بار آپ تھوڑا سا اپنی جگہ سے سرکتے ہیں۔ آکسیجن کی سپلائی مزید کم ہو چکی ہے، آپ ہاتھ پاؤں چھوڑ چکے ہیں، جسم ڈھیلا پڑ چکا ہے، آپ زندگی اور موت کی سرحد پر کھڑے ہیں۔
اوزار سے کھنچتے کھنچتے بالآخر آپ سرنگ سے باہر نکل آتے ہیں لیکن آپ نیم بے ہوشی میں ہیں۔ جسم کی رنگت نیلی پڑ چکی ہے۔ آپ نہ تو آنکھیں کھولتے ہیں اور نہ ہی کچھ بولتے ہیں۔ آپ کو فرسٹ ایڈ دی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کی سانس بحال ہونا شروع ہوتی ہے لیکن جسم پھر بھی نڈھال رہتا ہے۔
اردگرد والے خوشی سے بے حال ہیں کہ آپ سرنگ سے باہر نکل آئے ہیں اور متبادل راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ لیکن آپ کی بھوک پیاس ختم ہو چکی ہے، باتیں کرنا، ہنسنا کھلکھلانا آپ کے لیے مشکل ہوچکا ہے۔
دن گزرتے ہیں اور آپ بہتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی آپ وہ نہیں جو سفر سے پہلے تھے۔ سفر میں آکسیجن کی کمی اور سفر کی طوالت نے آپ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کا دماغ اب ویسے کام نہیں کرتا جیسے کرنا چاہیے تھا اور دماغ کے سست پڑ جانے کا اثر جسم پر بھی نظر آتا ہے۔
مزید پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟
آپ کو ڈاکٹرز کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ کسی کی تشخیص آٹزم ہے تو کوئی مرگی تجویز کرتا ہے۔ کوئی آپ کو کم آئی کیو کے خانے میں ڈالتا ہے تو کسی کے نزدیک آپ کو سی پی cerebral palsy ہے۔ جو بھی ہو لیکن کسی بھی تشخیص کا علاج اب آپ کو اس حالت میں واپس نہیں لے جا سکتا جس میں آپ سرنگ کے سفر سے پہلے تھے۔ اب آپ کی زندگی نارمل لوگوں سے مختلف طریقے سے گزرے گی، جدوجہد میں، علاج میں، بہت سی مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں۔
آپ سوچتے ہیں میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اگر سرنگ میں آکسیجن کی کمی ہو گئی تھی تو مجھے متبادل راستہ کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ سرنگ سے نکلنا ہی کیوں ضروری تھا؟ کیا سرنگ سے نکلنے میں مجھے کوئی میڈل ملا یا نکالنے والوں کو؟ میری زندگی ادھوری کیوں بنا دی گئی؟
سوچیے ایک ہی ماں باپ کے گھر پیدا ہونے والے بچے زندگی کی دوڑ میں ایک جیسا پرفارم کیوں نہیں کرتے؟
خاص طور پر جب سب کو برابر سہولیات میسر ہوں اور ایک جیسا ماحول۔
کچھ لوگ اس کا جواب جنیاتی عناصر میں ڈھونڈیں گے مگر ایک بہت بڑا عنصر حمل اور زچگی میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟
ماں کا پیٹ وہ غار ہے جہاں ماں کی سوچ، خواہش، خوشی، غم، درد، اضطراب، بے چینی اور بے بسی اس مسافر تک لمحہ بہ لمحہ پہنچتی ہے جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔
ماں کیا کھاتی ہے؟ کیا سنتی ہے؟ کیا محسوس کرتی ہے؟ روتی ہے یا ہنستی ہے؟ اس پر کیا گزرتی ہے؟ یہ سب اس پہ بھی گزرتی ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور ایک ایک بات سنتے ہوئے وہ محسوس کرتا ہے، ماں کا ہمدم و رفیق۔
پھر اس غار سے نکلنے کا وقت آتا ہے اور سرنگ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اگر یہ سفر ہموار ہو تو ستے خیراں لیکن ناہمواری کی صورت میں بچہ بہت سی ایسی چیزیں کھو دیتا ہے جن کو زندگی میں اس کا پوٹینشیل بننا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
اگر نطفہ بننے سے لے کر زچگی تک سب کچھ بہترین ہوتا تو نہ جانے کون آئن اسٹائن بنتا اور کون شیکسپیئر؟ کون غالب ہوتا اور کون ٹیگور؟ کون نوبیل پرائز لیتا اور کون ایجادات میں حصہ لیتا؟
سوچیے!
زچگی کی انجریز injuries اگلی بار!
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں