آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست کے بعد انگلش ٹیم میں کپتانی کے حوالے سے نئی تجویز سامنے آگئی۔

ہیڈ کوچ برینڈن میک کولم کا کہنا ہے کہ ایونٹ میں ہماری ٹیم اعتماد سے عاری دکھائی دی، وائٹ بال قیادت سے الگ ہونے والے جوز بٹلر کی جگہ انہوں نے دونوں فارمیٹس کے لیے الگ الگ کپتانوں کی تجویز کو اہمیت دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ون ڈے اور ٹی 20 فارمیٹس کے لیے الگ کپتانوں کی شناخت کرنا ہوگی، چیمپئنز ٹرافی میں گروپ مرحلے سے باہر ہوجانے پر جوز بٹلر نے گزشتہ دنوں انگلش ٹیم کی قیادت چھوڑدینے کا اعلان کردیا تھا۔

انگلینڈ نے جنوبی افریقا کیخلاف آخری گروپ میچ میں بھی بڑی ناکامی کا سامنا کیا تھا، ماضی میں بھی انگلینڈ نے تینوں فارمیٹس کے لیے مختلف کپتان رکھے تھے۔


 مئی 2011 سے یہ تجربہ ایک برس کے لیے کیا گیا تھا، جس میں اینڈریو اسٹروس، الیسٹرکک اور اسٹورٹ براڈ کو بالترتیب ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی 20 میں قیادت کی ذمہ داری بانٹی گئی تھی۔

 برینڈن میک کولم نے کہا کہ ہم آئندہ چند ہفتوں میں اس بابت فیصلہ کرنے ہوں گے، ہم اچھا اسٹرکچر ترتیب دینا چاہیں گے،ہم ہر چیز درست جگہ دیکھنا چاہتے ہیں، ہر فارمیٹ کی ٹیم کی اپنی ضرورت ہوتی ہے، دو مختلف کپتان بہتر ہوں گے، انگلینڈ آنے والے ہفتوں میں بٹلر کے جانشین کا تقرر کردے گا۔

انگلینڈ کی آئندہ مصروفیت 29 مئی سے ویست انڈیز سے سیریز ہے، اگلا آئی سی سی گلوبل ٹی 20 ورلڈ کپ مارچ، فروری 2026 میں بھارت اور سری لنکا میں شیڈول ہے، میک کولم نے مزید کہا کہ میں آئندہ چند روز گھر جاکر اس بابت غور و فکر کروں گا اور انگلش کرکٹ منیجر روب کی اور دیگر سے مشاورت کروں گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

تحریک جعفریہ پاکستان کا 46واں یوم تاسیس

اسلام ٹائمز: علامہ سید عارف حسین الحسینی کی جوان قیادت میں تنظیم نے نیا جوش پایا، اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا، اس دور میں انقلاب اسلامی ایران کی برکات پاکستان میں ہر گزرتے دن کیساتھ بھرپور انداز میں پھیلنے لگیں، جہاں ایک طرف پاکستانی عوام میں انقلابی فکر بیدار ہو رہی تھی تو دوسری جانب استعماری سازشیں بھی زور پکڑ رہی تھیں، تحریک کی فعالیت کیساتھ ساتھ داخلی و خارجی مشکلات کا سامنا بھی بڑھ گیا۔ جن میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت، تنظیمی اختلافات، فرقہ واریت، ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ اجتماعات پر حملے شامل ہیں۔ اس دور کا سب سے المناک واقعہ گلگت سانحہ 1988ء ہے، جب عید الفطر کے دن 13 دیہات جلادیے گئے، 1500 گھرانے بے گھر اور تقریباً 95 افراد شہید ہوگئے۔ شہید قائد، علامہ سید عارف حسین حسینی کی قیادت میں نہ صرف سابقہ مطالبات پر عملدرآمد کی کوششیں ہوئیں بلکہ اتحاد بین المسلمین کے جذبے کو عملی شکل دی گئی۔ رپورٹ: سید عدیل عباس

بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان وہ مملکت ہے کہ جہاں کوئی بھی طبقہ اپنے بنیادی انسانی و آئینی کے حقوق کا دفاع گروہ، تنظیم یا کسی بھی صورت میں متحد ہوئے بغیر نہیں کرسکتا۔ بابائے قوم محمد علی جناح رح نے پاکستان کو بناتے ہوئے برملا اعلان کیا تھا کہ ہم ایک ایسا ملک چاہتے ہیں کہ جہاں ہر مذہب و مسلک کے پیروکار کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو، تاہم بدقسمتی سے فرقہ پرستوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے وطن میں ہی فرقہ واریت کا بازار گرم کیا، اس فرقہ وارانہ تعصب کا سب سے زیادہ شکار ملت تشیع ہوئی، خاص طور پر ضیائی مارشل لاء کے دوران ملت تشیع کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا گیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے علماء و اکابرین تشیع نے آج سے 46 سال قبل یعنی 1979ء میں حقوق تشیع کے دفاع کیلئے ملی تنظیم کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ قبل ازیں یہ قومی پلیٹ فارم 1964ء سے 1979ء تک شیعہ مطالبات کمیٹی کے عنوان سے فعال تھا۔

یہ دور تحریک کے ابتدائی خدوخال اور بنیادوں کے تعین کا زمانہ تھا، اس موقع پر شیعہ مطالبات کمیٹی کی قیادت معروف عالم دین علامہ سید محمد دہلوی کو سونپی گئی، جنہوں نے شیعہ عوام کی شناخت اور بنیادی حقوق کے حصول کے ابتدائی مراحل انتہائی ذمہ داری کیساتھ طے کئے۔ بعدازاں 1979ء میں تحریک کو باقاعدہ منظم طریقہ سے شیعہ مذہبی و سیاسی جماعت کی صورت میں متعارف کرایا گیا۔ یہ دور مفتی جعفر حسین کی مدبرانہ قیادت کا زمانہ تھا۔ ان کی سربراہی میں تحریک نے ایک نئے سیاسی اور فکری شعور کو جنم دیا۔ جس میں سب سے اہم کارنامہ معاہدہ اسلام آباد کے لئے کی جانے والی کوشش اور اس کے مثبت نتائج ہیں، جنہوں نے ملک بھر میں شیعہ حقوق کی ترجمانی کے حوالے سے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے نام سے اس جماعت نے مفتی جعفر حسین کے دور قیادت میں حقوق تشیع کے حوالے سے بھرپور فعالیت کی۔ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد قیادت میں ایک مختصر خلا رہا، تاہم 10 فروری 1984ء کو علامہ سید عارف حسین حسینی کو بھکر میں ایک قومی کنونشن کے دوران قائد ملت منتخب کرلیا گیا۔

علامہ سید عارف حسین الحسینی کی جوان قیادت میں تنظیم نے نیا جوش پایا، اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا، اس دور میں انقلاب اسلامی ایران کی برکات پاکستان میں ہر گزرتے دن کیساتھ بھرپور انداز میں پھیلنے لگیں، جہاں ایک طرف پاکستانی عوام میں انقلابی فکر بیدار ہو رہی تھی تو دوسری جانب استعماری سازشیں بھی زور پکڑ رہی تھیں، تحریک کی فعالیت کیساتھ ساتھ داخلی و خارجی مشکلات کا سامنا بھی بڑھ گیا۔ جن میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت، تنظیمی اختلافات، فرقہ واریت، ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ اجتماعات پر حملے شامل ہیں۔ اس دور کا سب سے المناک واقعہ گلگت سانحہ 1988ء ہے، جب عید الفطر کے دن 13 دیہات جلادیے گئے، 1500 گھرانے بے گھر اور تقریباً 95 افراد شہید ہوگئے۔ شہید قائد، علامہ سید عارف حسین حسینی کی قیادت میں نہ صرف سابقہ مطالبات پر عملدرآمد کی کوششیں ہوئیں بلکہ اتحاد بین المسلمین کے جذبے کو عملی شکل دی گئی۔ ان کی جانب سے "قرآن و سنت کانفرنسز" کا انعقاد، افغان جہاد اور اسلامی انقلاب ایران کی حمایت، فلسطین و لبنان کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی قابلِ ذکر ہیں۔

1988ء میں قائد ملت جعفریہ علامہ سید عارف حسین الحسینی کو پشاور میں ان کے مدرسہ میں شہید کردیا گیا، اس سانحہ نے ملت تشیع پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا، جس کے بعد تنظیم کی سینئر قیادت نے علامہ سید ساجد علی نقوی کو قائد ملت منتخب کیا۔ جنہوں نے ملک میں مذہبی منافرت کے خاتمے، بین المسالک ہم آہنگی سمیت مختلف مکاتب فکر کی مذہبی جماعتوں سے قریبی روابط قائم کئے، اور ملی یکجہتی کونسل میں شمولیت 2001ء میں متحدہ مجلس عمل کا حصہ بن کر سیاسی سطح پر کردار ادا کیا۔ ظالم ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اپنائی گئی بیلنس پالیسی ایک کھلی ناانصافی اور ملتِ تشیع کے خلاف ریاستی جبر کی بدترین مثال تھی۔ اس پالیسی کے تحت ایک طرف ملک دشمن، انتہاء پسند اور دہشت گرد تنظیموں جیسے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے گروہوں کو وقتی طور پر بین کیا گیا، تو دوسری طرف اسی کی آڑ میں مظلوم و محب وطن جماعت تحریک جعفریہ پاکستان پر بھی پابندی عائد کر کے ملتِ تشیع کو دیوار سے لگانے کی مذموم کوشش کی گئی۔

بعد ازاں دہشتگرد جماعت سپاہ صحابہ کے دہشتگرد اعظم طارق قتل کیس میں علامہ سید ساجد علی نقوی کو ناجائز الزام میں مہینوں جیل میں ڈالا گیا، یہ عمل نہ صرف ملتِ تشیع کی آواز دبانے کی ناپاک کوشش تھی بلکہ اس سے ملک کی داخلی سلامتی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس ناروا پابندی کے بعد 2003ء میں تنظیمی اصلاحات کرتے ہوئے تحریک جعفریہ کو اسلامی تحریک پاکستان میں تبدیل کیا، اور کچھ عرصے بعد شیعہ علماء کونسل کے نام سے ایک تنظیم قاٸم کی گٸی جس کا مقصد مذہبی و تعلیمی میدان میں کام کو وسعت دینا تھا۔ اسی تنظیم کے سیاسی ونگ کے طور پر اسلامی تحریک پاکستان نے اپنی سیاسی جدوجہد شروع کی۔ تحریک جعفریہ کا یہ سفر صرف ایک تنظیم کی تاریخ نہیں بلکہ ملتِ تشیع کی اجتماعی شعور، سیاسی بصیرت، اور قومی کردار کی روشن تصویر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نئے مالی سال کا بجٹ عید الاضحی سے پہلے پیش کرنے کا فیصلہ
  •  نائب وزیراعظم  اسحاق ڈار آئندہ ہفتے افغانستان کا دورہ کریں گے
  • آئندہ بجٹ،تنخواہ دار طبقے کے لئے بڑی خوشخبری آگئی
  • تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں سب کمپرومائزڈ ہیں.محمودخان
  • جوڈیشل کمیشن اجلاس کی تاریخ تبدیل، آئندہ اجلاس 17 اپریل کو ہوگا
  • بابراعظم کی ناقص فارم؛ پشاور زلمی کی کپتانی بھی لینےکا مطالبہ
  • بابراعظم کی ناقص فارم؛ پشاور زلمی کی “کپتانی» بھی لینےکا مطالبہ
  • بابراعظم کی ناقص فارم؛ پشاور زلمی کی کپتانی» بھی لینےکا مطالبہ
  • تحریک جعفریہ پاکستان کا 46واں یوم تاسیس
  • کھانے پینے کی کون کونسی اشیاء پر بھاری ٹیکس لگنے والا ہے ؟ پریشان کن خبر