’کوئی کسی پر کیس نہیں کر رہا، سب مذاق تھا‘، وسیم اکرم کی مشتاق احمد کی ویڈیو پر وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
قومی ٹیم کے سابق کپتان اور سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی اور موجودہ بنگلا دیشی بولنگ کوچ مشتاق احمد کی ویڈیو پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کوئی کسی پر کیس نہیں کر رہا انہوں نے ہی مشتاق احمد کو ویڈیو بنانے کا کہا تھا جو مذاق تھا لیکن سب نے اسے اصلی سمجھ لیا۔
وسیم اکرم نے کہا کہ وہ صرف مذاق کا حصہ تھا اور نیوز چینلز نے اس خبر کو بغیر تصدیق کے لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز پر یقین نہ کریں بلکہ پہلے اس کو ڈبل چیک کر لیں کہ کیا یہ درست خبر ہے۔ سابق کپتان کا کہنا تھا کہ وکیل مشتاق احمد کو فون کر کے کہہ رہے تھے کہ وہ ان کا کیس فری میں لڑیں گے۔
???? وسیم اکرم نے مشتاق احمد کی ویڈیو پر وضاحت دے دی
ہم نے ملکر فن کیا مشتاق احمد کو ہم نے کہا تھا ایسی ویڈیو بنانے کا
کوئی کسی پر کیس نہیں کررہا
سب نے اس ویڈیو کو اصلی سمجھ لیا ۔
وسیم اکرم #PakistanCricket #INDvsNZ #NZvIND pic.
— Raja Asim (@rajaasim313) March 2, 2025
وسیم اکرم کی وضاحت پر صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے کیے گئے۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ پروگرام اچھا چل رہا ہے تو اس حماقت کی کیا ضرورت تھی۔ زیادہ سے زیادہ ناظرین اور دلچسپی حاصل کرنے کے لیے یہ سب کیا گیا۔ اس عمل کو عوامی زبان میں ’اڑتا تیر لینا‘ کہتے ہیں۔
پروگرام اچھا چل رہا ہے تو اس حماقت کی کیا ضرورت تھی بس زیادہ سے زیادہ ناظرین اور دلچسپی حاصل کرنے کے لیے
ویسے اس عمل کو عوامی زبان میں ' اڑتا تیر لینا " کہتے ہیں ????#PakistanCricket #Pakistan
— ZASA (@ZASA91213084348) March 3, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ لوگ تو ہر مذاق کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
لوگ تو ہر مذاق کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں
— Mian Shafiq (@Mian__96) March 2, 2025
واضح رہے کہ پاکستان کے مایاناز اسپنر مشتاق احمد نے اپنے ویڈیو پیغام میں سابق کپتان وسیم اکرم اور وقار یونس پر ہراسمنٹ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لوگوں نے میرے کیریئر کو خراب کیا ہے جس کے خلاف وہ عدالت جائیں گے اور ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ وہ وقار یونس پر 20 کروڑ جبکہ وسیم اکرم پر 15 کروڑ ہرجانے کے نوٹس بھجوا رہے ہیں اور اب دونوں سے عدالت میں ہی ملاقات ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: ’اب آپ سے عدالت میں ملاقات ہوگی‘، مشتاق احمد کا وسیم اکرم اور وقار یونس کے خلاف ہرجانے کا اعلان
مشتاق احمد نے یہ بھی کہا کہ وسیم اکرم انہیں پریکٹس کرانے کے بہانے لے جاکر باونسر مارتے تھے جس سے انہوں نے اپنا اعتماد کھو دیا، ورنہ وہ پاکستان کے بہترین آل راؤنڈر بن سکتے تھے، لہٰذا اب وہ ان پر ہرجانے کا دعویٰ کریں گے۔
ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے وسیم اکرم نے کہا کہ آپ نائٹ واچ مین کے لیے بنے ہی نہیں تھے، جب بھی آپ کو بھیجا آپ نے ہمیشہ ’انڈہ‘ اسکور کیا، اس لیے آپ سے کورٹ میں ہی ملاقات ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مشتاق احمد وسیم اکرم یو ٹیوبذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مشتاق احمد وسیم اکرم یو ٹیوب وسیم اکرم نے مشتاق احمد ویڈیو پر کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
فوجی عدالتوں سویلین ٹرائل کیس: کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل آج بھی مکمل نہ ہو سکے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.(جاری ہے)
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں. خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں، لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کے لیے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں دوران سماعت جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے. خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ محرم علی اور لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے، وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا، یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا. جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں، خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتیں، عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل میں غلطی اپیل میں دیکھی جاتی ہے، غلطی کی درستی کا فورم کونسا ہوگا؟ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ جب ہائیکورٹ میں رٹ فائل کریں گے تو نشاندہی کریں گے. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ گواہ کے قلمبند بیان کی کاپی فراہم نہیں کی جاتی، کیسے تعین ہوگا کہ گواہی درست ریکارڈ ہوئی ہے، ہو سکتا ہے غیر ارادی طور پر کوئی بات لکھنا رہ جائے خواجہ حارث نے کہا کہ تعصب کا نقطہ اوپر والی عدالت میں اٹھایا جا سکتا ہے، مفروضے پر بات تو نہیں ہو سکتی، ٹرائل میں تمام متعلقہ افسران حلف اٹھاتے ہیں، قلم بند بیان پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے. جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ غیر ارادی طور پر ٹرائل میں غلطی ہو سکتی ہے، عدالت کا سوال تعصب یا نیت یا اہلیت پر نہیں خواجہ حارث نے موقف اختیار کیاکہ رٹ میں کسی بھی غلطی کی نشاندہی ملزم کا وکیل کر سکتا ہے دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا 40 منٹ مزید درکار ہوں گے. جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ میں بھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا کہ میں 10 منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں. جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟ بعد ازاں آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کردی جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے 28 تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی.