چین کی سائنسی و تکنیکی جدت طرازی اور سبز ترقی کے تصور کی عالمی پزیرائی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
چین کی سائنسی و تکنیکی جدت طرازی اور سبز ترقی کے تصور کی عالمی پزیرائی WhatsAppFacebookTwitter 0 3 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چین کی قومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے سالانہ اجلاس اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں زیربحث ہیں اور مختلف حلقوں کی جانب سے چین کی ترقیاتی کامیابیوں کو مثبت طور پر سراہا جا رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ چین کی سائنسی و تکنیکی جدت طرازی اور ماحول دوست ترقی کا تصور متاثر کن ہے۔
پیر کے روز اسلام آباد میں سینٹر فار ساؤتھ ایشیا اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ماہر امور چین محمود الحسن خان نے کہا کہ چینی صدر شی جن پھنگ کے عالمی گورننس کے تصور میں بہت سی قیمتی عالمی” پبلک پروڈکٹس” شامل ہیں، خاص طور پر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو۔
انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ صدر شی جن پھنگ کی جانب سے تجویز کردہ تین عالمی انیشی ایٹوز ترقی پذیر ممالک کے لیے سلامتی، امید اور فلاح و بہبود لائیں گے۔
ماہر امور چین کی حیثیت سے محمود الحسن خان طویل عرصے سے چین کے دو اجلاسوں پر گہری نظر رکھتے آئے ہیں ۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ چینی معیشت کی لچک اور استحکام عالمی اقتصادی ترقی کے لئے مزید مواقع لائیں گے۔
چین کی قومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے سالانہ اجلاسوں کی آمد پر جرمن معاشی شخصیات نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ چینی مارکیٹ کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنا سکیں گے اور سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی، اسمارٹ مینوفیکچرنگ اور ماحول دوست ترقی سمیت دیگر اہم شعبوں میں مزید گہرے تعاوں کے خواہاں ہیں۔ ہینوور میسے کے آرگنائزر اور ڈوئچے میسے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین جوچن کوکلسر نے کہا کہ آٹوموٹو انڈسٹری میں چین کی پیش رفت متاثر کن ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں صرف اسی صورت میں معنی خیز ہوں گی جب وہ واقعی قابل تجدید توانائی کا استعمال کرتی ہیں ، اور چین نہ صرف اپنی گھریلو پیداوار کو بڑھا رہا ہے ، بلکہ فعال طور پر تیسرے فریق کی مارکیٹوں کی تلاش بھی کر رہا ہے۔ ہم اس سے مکمل طور پر متفق ہیں.
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تکنیکی جدت طرازی چین کی
پڑھیں:
کارپوریٹ فارمنگ ۔۔۔۔ترقی یاتباہی
پاکستانی ریاست اورعوام کے درمیان ترقی کے حوالے سے ایک بنیادی خلیج ہمیشہ سے موجودرہی ہے۔حکمران ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کااعلان کرتے رہے ہیں،مگرعوام کاایک بڑا حصہ ان منصوبوں پرشکوک وشبہات کااظہارکرتاچلاآرہا ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستانی عوام اورحکمران ایک دوسرے پرالزام تراشی کرتے رہتے ہیں اوراس کاملک کی ترقی پر کیا اثرپڑتاہے۔پاکستان کی زرعی معیشت میں اصلاحات کی کوششیں مختلف ادوارمیں کی گئیں،لیکن ان کے نتائج آج بھی بحث ومباحثے کا موضوع ہیں۔ایوب خان کی زرعی اصلاحات سے لے کر بھٹودورکے مزیدسخت اقدامات تک، اور بعدمیں جدیدزرعی طریقوں کے رواج تک، ان تمام پالیسیوں کامقصدزرعی پیداوارمیں اضافہ اور غربت میں کمی تھا۔تاہم،ان پالیسیوں کے اثرات متضاد نظرآتے ہیں۔ ایک طرف سبزانقلاب کے ذریعے پیداوار میں اضافہ ہوا،تودوسری طرف غربت کی شرح میں نمایاں کمی نہ آسکی۔
یہ تسلیم کرناہوگاکہ پاکستان کی زرعی تاریخ میں اصلاحات کاسلسلہ معاشی ترقی،غربت کے خاتمے، اورخوراک کی خودکفالت کے خوابوں سے جڑاہوا ہے۔ تاہم ان کوششوں کے نتائج اکثرمتنازعہ رہے ہیں۔ اگرہم ماضی کی طرف نظردوڑائیں توایوب خان اوربھٹو کے زرعی پروگراموں،سبزانقلاب کے اثرات، کارپوریٹ فارمنگ کے ماحولیاتی خطرات ، اور پانی کے بحران کوتنقیدی نظرسے پرکھیں توہمیں پتہ چلتاہے کہ پہلی مرتبہ 1959ء اور1963ء میں ایوب خان نے جاگیردارانہ نظام کوکمزورکرنے کے لئے زمینی اصلاحات نافذ کیں، جس کے تحت40لاکھ ایکڑزمین بڑے زمینداروں سے لے کربے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی۔انہوں نے منگلاڈیم (1967)اورتربیلا (1976)جیسے منصوبوں کے ذریعے پانی کے ذخائراوربجلی کی پیداوار بڑھائی۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر1968 میں شروع ہوئی اور1976میں اس کی تکمیل ہوئی اور یہ دنیاکاسب سے بڑازمین سے بنایا گیاڈیم ہے اور پاکستان میں بجلی اورآبپاشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
یہ اقدامات زرعی پیداوارمیں اضافے کی بنیاد بنے،لیکن زمین کی غیرمنصفانہ تقسیم اورنوکر شاہی کے اثرات کی وجہ سے غربت میں واضح کمی نہ ہوسکی ۔ بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو نے1972ء اور 1977ء میں زمین کی ملکیت کی زیادہ سے زیادہ حدکوکم کرکے ایوب خان کے پروگرام کو’’ناکافی‘‘ قراردیا۔ان اصلاحات کامقصددیہی علاقوں میں طبقہ ورائی کوختم کرناتھا لیکن سیاسی مخالفت اور بیورو کریٹک رکاوٹوں کی وجہ سے یہ بھی مکمل طورپر کامیاب نہ ہوسکا۔پھرسوال اٹھتاہے کہ زرعی ترقی کے ثمرات کس کوملے؟بعض ناقدین کاکہناہے کہ زرعی ترقی سے حاصل شدہ فوائد زیادہ تر عسکری، نوکر شاہی اورکاروباری طبقے میں محدود ہو کررہ گئے ۔ اس کے برعکس،حکومتی موقف یہ ہے کہ پیداوار میں دوگنا اضافہ ہوالیکن عوام کی آبادی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہونے کے سبب غربت کاخاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔
ایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ حکومت عوام سے اعتمادکی توقع رکھتی ہے،جبکہ عوامی حلقے حکومت پرمکمل بھروسہ نہیں کرتے۔ ووٹرزکاکہناہے کہ جب حکومت خوداپنی عدلیہ اورپارلیمنٹ پراعتماد نہیں کرتی توعوام حکومت پرکیسے یقین کریں؟ترقیاتی منصوبے اکثراس شک وشبہ کاشکار ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام ان کی شفافیت پرسوالات اٹھاتے ہیں۔عوام کایہ بھی مطالبہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی تیاری میں عوام کی رائے کوبھی شامل کیاجائے تاکہ عوامی ضروریات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں۔
حکمرانوں کے مطابق عوام ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بنتے ہیں،جبکہ عوام کاکہناہے کہ ترقیاتی منصوبے ان کے مشورے کے بغیرتیارکیے جاتے ہیں۔ عوام کی رائے کوترقیاتی پالیسیوں میں شامل کرنے سے اس خلیج کوکم کیاجاسکتاہے۔عوامی نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی فیصلے کیے جائیں تاکہ شفافیت اوراعتمادکویقینی بنایاجاسکے۔عوام کی ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ قومی وسائل چندخاندانوں کے ہاتھوں میں مرکوزہیں اورعام شہری کوترقی میں شراکت داری کاموقع نہیں ملتا۔اگر قومی وسائل کومساوی بنیادوں پرتقسیم کیاجائے توعوام میں خودبخودپاکستانی شناخت مضبوط ہوگی۔
پاکستان قحطِ آب کے شکاردس بڑے ممالک میں شامل ہے۔حکومت بڑے ڈیم اورآبپاشی منصوبے بنانے کی کوشش کرتی ہے،مگر اس حوالے سے ہمیشہ اختلافات پیداہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم ہے اوراب چولستان میں70لاکھ ایکڑ پر زرعی منصوبہ ایک نئی بحث چھیڑچکاہے،جس پرسندھ اوردیگرصوبے اپنے خدشات کااظہارکر رہے ہیں۔پانی کی تقسیم، موسمیاتی تبدیلیاں،اورزراعت کے جدید طریقے اس بحث کے اہم نکات ہیں۔لوگوں کویہ خدشہ ہے کہ ان منصوبوں کے لئے اضافی پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی اورپہلے سے موجودپانی کی دستیابی مزیدکم ہوجائے گی۔
جدیدزرعی طریقوں میں کارپوریٹ فارمنگ کوخصوصی اہمیت دی جارہی ہے،اورحکومت کاکہنا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پیداواری کارکردگی بڑھانا،برآمدات کوفروغ دینااورزرعی شعبے کوعالمی معیارکے مطابق ڈھال کرہم ملک میں زرعی انقلاب لاسکتے ہیں جوملک کی آبادی کے70 فیصد کسانوں، کاشتکاروں کی زندگی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن یادرہے کہ کاپوریٹ فارمنگ ایک ایسافارمولہ ہے جس کے ذریعے زیادہ پیداوارکے لئے جینیاتی طورپرترمیم شدہ اورہائیبر ڈبیجوں کا استعمال کیا جاتاہے۔اگرچہ یہ بیج ابتدائی طور پر زیادہ پیداوار دیتے ہیں لیکن طویل المدتی اثرات زمین کی زرخیزی کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ مسلسل10 سے 20سال کے عرصے میں یہ زمین نامیاتی زرخیزی سے محروم ہوکربنجر ہوسکتی ہے، جس سے مستقبل میں خوراک کے بحران کاخطرہ بڑھ جاتاہے۔
ماضی میں ہم اس کاتجربہ کرچکے ہیں۔ 1967ء سے1970ء کی دہائی میں ہائی برڈبیجوں،کیمیائی کھادوں،اورجدید آبپاشی کے ذریعے گندم اور چاول کی پیداواردوگنی ہوئی۔تاہم چھوٹے کسانوں تک رسائی کے فقدان،قرضوں کے بوجھ، اور منڈیوں تک ناہمواررسائی کی وجہ سے غربت کم نہ ہوئی۔حکومت کامؤقف تھاکہ آبادی میں تیزی سے اضافے( 3 فیصد سالانہ)نے ترقی کے اثرات کوزائل کردیا، جبکہ نقادوں کاخیال تھاکہ فوائد فوج، بیوروکریٹس،اورسیاسی اشرافیہ تک محدود رہے۔
اب ایک مرتبہ پھرکارپوریٹ فارمنگ کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ ہم بڑھ رہے ہیں۔اس نظام کی مختصرتعریف یہ ہے کہ جہاں بڑے زرعی زمینوں پرتجارتی بنیادوں پرپیداواری سرگرمیاں،جہاں کمپنیاں یاکارپوریشنزجدیدٹیکنالوجی، مشینری،اور مینجمنٹ کے ذریعے فصلوں یامویشیوں کی پرورش کرتی ہیں وہاں ان وسائل سے محروم تمام کاشتکاران کمپنیوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کاکہناہے کہ حالیہ برسوں میں کارپوریٹ فارمنگ کوفروغ دینے کے لئے جواقدامات کیے ہیں،خاص طورپر2020ء کے بعدجب ایک مرتبہ پھرزرعی اصلاحات کے نام پرپروگرام شروع کیاگیاہے جس میں غیراستعمال شدہ سرکاری زمینوں کولیز پردینے کی تجاویزکے ساتھ زرعی آلات اور جدیدٹیکنالوجی درآمدپرٹیکس چھوٹ دینابھی شامل ہے۔
چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت ایگریکلچرل انڈسٹریل پارکس قائم کرنے کی تجاویزپربھی کام ہورہاہے۔کارپوریٹ فارمنگ کے لئے ڈرون،مصنوعی ذہانت اور پریسائزن فارمنگ کے ذریعے پیداوارمیں اضافہ کے منصوبے کوبھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔جس سے زرعی برآمدات (مثلاً گندم، چاول، کپاس) بڑھانے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کئی گنااضافہ ہوگا۔یقیناکارپوریٹ فارمنگ سے جہاں نئے ہنرمنداورغیرہنرمند روزگارکی تخلیق میں اضافہ ہوگاوہاں ڈرپ اریگیشن جیسے طریقوں سے پانی کی بچت بھی ہوگی ۔
کارپوریٹ فارمنگ میں جینیاتی طورپرتبدیل شدہ اورہائیبرڈبیجوں کااستعمال وقتی پیداوار بڑھاتا ہے لیکن یہ زمین کی نامیاتی زرخیزی کوتباہ کردیتاہے ۔ کیمیائی کھادوں اورکیڑے مارادویات کے مسلسل استعمال سے مٹی کابنیادی ڈھانچہ کمزورہوتاہے،اور 10-20سال میں زمین بنجرہوجاتی ہے۔مثال کے طورپر،پنجاب کے بعض علاقوں میں گندم کی پیداوار میں 30فیصد تک کمی رپورٹ ہوئی ہے،جس کی وجہ مٹی کی نمکیات میں اضافہ اورنامیاتی مادوں کاخاتمہ بتایاجاتاہے۔
چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے تحت ملکی وغیرملکی کمپنیوں کوزمین دی جارہی ہے۔سعودی عرب، متحد ہ عرب امارات اور چین کی کمپنیاں پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔انگرو فوڈز، نیشنل فوڈزجیسی کمپنیاں زرعی شعبے میں سرگرم ہیں۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیااس کے فوائدچھوٹے کسانوں تک بھی پہنچیں گے؟جب کارپوریٹ فارمنگ کے لئے پہلے سے محدودپانی مختص کیاجائے گاتومقامی کسان کہاں کھڑے ہوں گے؟مزیدبرآں،کیاحکومت نے سرمایہ کاروں کوبتادیاہے کہ اگرکسی سال دریا میں مطلوبہ پانی نہ آیاتو ان کے فارمزکونقصان ہوگا؟چھوٹے کاشتکاروں کے لئے سہولیات اورمارکیٹ تک رسائی کویقینی بنائے بغیراس منصوبے کاکامیاب ہونامشکل نظرآتاہے۔ (جاری ہے)