مرحبا! یا سیِد اور حقانی شیر کی شہادت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
سوچا رمضان المبارک کی چاند رات ہے کیوں نہ حضرت اقدس پیرو مرشد حفظہ اللہ کی نصیحت آموز باتوں سے استعفادہ حاصل کیا جائے ؟ خانقاہ میں حضرت عشاق کے اجتماع سے مخاطب تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا احسان،ماہِ رمضان مبارک ہو اہل ایمان،الحمدللہ ثم الحمدللہ سیِدصاحب تشریف لے آئے ہیں،رمضان المبارک کا مہینہ،تمام مہینوں کا سیِد یعنی سردار ہے اور اس میں موجود لیلۃ القدر،تمام راتوں کی سیِدہ ہے۔ رمضان شریف تو پہنچ گیا،اللہ کرے ہم بھی،رمضان المبارک تک پہنچ جائیں۔ہاں!جو اللہ تعالیٰ سے مانگے گا، رمضان کو سمجھے گا،اپنی زندگی کے گزرنے کا احساس کرے گا وہ ضرور رمضان المبارک کو حاصل کر لے گا ان شا اللہ ،وہ دیکھو!قبرستانوں تک میں رمضان المبارک کے نور اور سرور کے جلوے ہیں ،مساجد کا تو کہنا ہی کیا۔میزان اعمال کو بھاری کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کون سا ہوگا؟ بس ہم سب صرف ایک عمل کی پابندی کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے شہنشاہی اعلان فرما کر دعوت دی ہے۔ واستعِینوا بِالصبرِ و الصلوٰۃ،یعنی اگر تمہیں میری مدد، اعانت اور نصرت لینی ہو تو صبر اور نماز کے ذریعے لے سکتے ہو،سبحان اللہ!کتنی عظیم پیشکش ہے۔کتنی قیمتی اور دلکش دعوت ہے کہ نماز ادا کرو اور میری مدد لے لو،کتنا مفید اور اکسیر وظیفہ ہے.
نامور، تاریخی اور عظیم دینی ادارے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہونے والے سانحہ پر دل کو صدمہ پہنچا۔ حضرت مولانا حامد الحق حقانی جام شہادت نوش فرما گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون، جامعہ حقانیہ اور خانواد حقانی سے قلبی تعزیت ہے۔ یہ واقعہ بھی جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف جاری کوششوں کا تسلسل ہے،مگر اللہ تعالیٰ کے نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا،جان تو ہے ہی جانے کے لیے ،لیکن موذی قاتلوں کو سوائے ذلت اور ناکامی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ان شااللہ،حضرت پیرو مرشد کی خانقاہ سے نکلا تو خیالات کی دنیا میں پرواز کرتا ہوا سیدھا جامعہ حقانیہ کی پر نور فضائوں میں جا پہنچا،جامعہ کے درودیوار پر طاری افسردگی کی حدت و شدت دیکھی نہیں جاتی تھی،آنکھ بھر آنا کیا ہوتا ہے یہاں تو اشکوں سے تر آنکھیں خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں،جامعہ کی مسجد کا کیا کہنا ایسے لگا کہ جیسے وہ کانوں میں یہ سرگوشی کر رہی ہو، کیا تم مسجد نبوی ﷺکے مصلے پر خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ کا خنجروں سے شدید زخمی ہونا بھول گئے؟وہاں مصلی رسول خون فاروقی سے رنگین ہوا تھا اور یہاں میرے(مسجد کے)در و دیوار حامد الحق اور ان کے ساتھیوں کے خون سے رنگین ہو گئے، خون وہ بھی قیمتی ترین تھا اور خون یہ بھی قیمتی ہے، وقتی غم رونا دھونا اور افسردگی اپنی جگہ، لیکن دین اسلام کی جملہ عبادات کے ساتھ ساتھ جہادو قتال فی سبیل اللہ کی عبادت کے پرچم کو بھی جامعہ حقانیہ ہمیشہ سربلند رکھے گا۔ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانیں قربان کر دیں،مگر جہاد کو نہ چھوڑا، مطلب یہ کہ قیامت تک آنے والے مسلمان جانیں نچھاور تو کر سکتے ہیں لیکن جہاد مقدس سے منہ نہیں موڑ سکتے، مرزا غلام قادیانی کی قبر کی آگ کو دوگنا، چوگنا اور سو گنا بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلم تعلیمی اداروں کے مہتممین ، طلبہ و طالبات اور عام مسلمان جہاد مقدس کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جائیں۔
صلیبی یہودی ہندو اور ایرانی دہشت گرد الٹے بھی لٹک جائیں، کسی عام مسلمان کو عبادت سے نہیں روک سکتے، ان میں کیا جرات کہ وہ عالم اسلام کے عظیم ترین جامعہ حقانیہ کی نظریاتی اساس کو ختم کر سکیں،یہ ولی کامل شیخ الحدیث مولانا عبد الحق نور اللہ مرقدہ کا ’’حقانیہ‘‘ ہے،اس کے دامن میں بابائے جہاد مولا سمیع الحق کا بوڑھا لاشہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دفن ہوتے ہوئے دیکھا،بابائے جہاد مولانا سمیع الحق تو رب کی جنتوں میں ہیں،مگر کوئی اس کی ’’خواری‘‘ دیکھے کہ جو ان سے جہاد کے خلاف دسخط لینا چاہتا تھا،گزشتہ 3دن سے ’’جہنم مکانی سوویت یونین‘‘کی ناجائز اولاد سوشل میڈیا پر جامعہ حقانیہ اور مولانا حامد الحق کی شہادت کا مذاق اڑا رہی ہے،میرا ’’جہنم مکانی سوویت یونین‘‘ کی ناجائز اولاد سے صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ
کل روس بکھرتے دیکھا تھا
اب انڈیا ٹوٹتا دیکھیں گے
پھر برق جہاد کے شعلوں سے
امریکہ و اسرائیل جلتا دیکھیں گے
شہدا حقانیہ کی شہادتوں کا مذاق اڑا کر تم نے ثابت کر دکھایا کہ تم صرف بے وقوف ہی نہیں بلکہ ’’گوربا چوف‘‘کی طرح انسانیت سے بھی عاری ہو،ادب نہیں تو سنگ و خشت ہیں تمام ’’ڈگریاں‘‘ جو حسن خلق ہی نہیں،تو سب ’’کمال‘‘ مسترد مولانا حامد الحق نے مسجد کے سائے میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف ’’حامد‘‘ ہی نہیں بلکہ حقانیہ کا شیر بھی تھا،میں حکومت سے کیا مطالبہ کروں،حکومت کہاں ہے؟مولانا سمیع الحق نظریاتی پاکستان کا دوسرا نام تھا، مولانا حامد الحق بھی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کا بیج سینے پر سجائے رہتے تھے،سرینگر کے سید علی گیلانی ،اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق اور مولانا حامد الحق، یہ تینوں چلتا پھرتا پاکستان تھے،لیکن ریاست ان کی سیکورٹی سے غافل رہی،صرف یہی نہیں ،مفتی نظام الدین شامزئی ،مفتی جمیل خان مولانا یوسف لدھیانوی ،مولانا حسن جان مولانا نور محمد ،مولانا معراج الدین، مولانا سعید جلال پوری مولانا ڈاکٹر عادل خان سمیت درجنوں جید علما ء کرام کے قاتل کہاں ہیں؟دسیوں سال گزرنے کے باوجود ہمارے حکمرانوں کو کانوں وکان خبر نہ ہو سکی،افسوس صد افسوس ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا حامد الحق رمضان المبارک جامعہ حقانیہ اللہ تعالی سمیع الحق ہی نہیں
پڑھیں:
مولانا حامد الحق کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے، ترجمان جی بی حکومت
فیض اللہ فراق نے ایک بیان میں کہا کہ دہشتگردوں کا مقصد ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور خوف و ہراس پھیلانا ہے، دہشت گرد عناصر کی ملک میں خوف و انتشار پھیلانے کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے نوشہرہ دار العلوم حقانیہ میں خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممتاز عالم دین مولانا حامد الحق کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے۔ فیض اللہ فراق نے کہا کہ خودکش دھماکے میں مولانا حامد الحق سمیت دیگر شہداء اور زخمیوں کی خبر سے دل رنجیدہ ہے، مولانا حامد الحق جید عالم دین تھے، اسلام کے لیے بے پناہ خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دل خراش واقعہ امن کو خراب کرنے کی ایک سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، دہشتگردوں کا مقصد ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور خوف و ہراس پھیلانا ہے، دہشت گرد عناصر کی ملک میں خوف و انتشار پھیلانے کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔