WE News:
2025-04-18@02:21:36 GMT

مسئلہ مکرمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

مسئلہ مکرمی سکندر بخت کا نہیں، ٹی وی کا ہے۔ یہ سکرین کم بخت بلا ہی ایسی ہے کہ خود پہ نمودار ہونے والی ہر شے کو بے سبب بولے چلے جانے پہ مجبور کر چھوڑتی ہے۔

قصور شاید کچھ میزبان کا بھی ہوگا کہ جس نے خمارِ شب کے درماندہ ذہن کو یوں صبح سویرے ہی چھیڑ دیا اور موصوف نیم خوابیدہ لہجے میں گویا ہوئے کہ، ‘سب سے پہلے تو رضوان کو انگلش میں بات نہیں کرنی چاہیے، وہ اردو میں بات کریں یا پھر پشتو میں۔۔۔۔’

مگر مسئلہ محترمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں ہے۔ مسئلہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل کی چال طے کرتے ان اَذہان میں کہیں چھپا ہے جنہیں سال کے 365دن، چوبیسوں گھنٹے اسکرین چلانے کی ذمہ داری تو ہے، مگر قابلِ دید کانٹینٹ پیدا کرنے کی صلاحیت مفقود ہے۔

سپانسرز تو اپنے سودے بیچنے کے لیے ہر قومی تہوار پہ اسپیشل ٹرانسمشنز کی منڈلی سجاتے ہیں اور کرکٹ سے بڑا قومی تہوار بھلا اور کیا ہوگا؟ مگر یہیں سے کرکٹ کی وہ کم بختی شروع ہوتی ہے جہاں اس کے نام پہ رچائے گئے گھنٹوں طویل شوز میں الا ماشااللہ اس کھیل پہ گفتگو کے سوا سبھی کچھ ہوتا ہے۔

بھانڈ اپنا نقالی کا فن بیچتے ہیں، میزبان اپنی چرب زبانی سے ریٹنگ میٹر کو ٹہوکے دیتے ہیں اور مبصرین کی شکل میں امڈے ریٹائرڈ کرکٹرز اپنے جونئیرز کی ناکامیوں پہ گلے پھاڑ پھاڑ وائرل ہونے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔ گھنٹوں پھیلی اس ہڑبونگ میں مجال ہے جو کبھی کھیل پہ کوئی ڈھنگ کی بات دیکھنے کو ملے۔

 اگرمسئلہ محترمی سکندر بخت کو انگریزی لسانیات کی پامالی اور گرامر کی توہین پہ ہی ہوتا تو یقیناً سرفراز احمد کبھی بھی ان کے پسندیدہ ترین کپتان نہ بن پاتے۔ مگر وہاں تو قضیہ ہی کچھ اور تھا کہ سرفراز کو تو وہ خود سالہا سال دہائیاں دے کر لائے تھے۔

گو کہ رضوان کی انگلش سرفراز سے بری تو ہرگز نہیں ہے، مگر بدقسمتی رضوان کی یوں ہے کہ ڈومیسائل کراچی سے نہیں اور اس پہ ستم یہ کہ کپتانی کی کرسی پہ بھی وہ سرفراز کی جگہ ہی بیٹھے ہیں اور قصور ان کا یہ بھی ہے کہ حالیہ تاریخ میں وہ بلا شرکتِ غیرے پاکستان کے بہترین کیپر بلے باز ہیں۔

ایسے میں رضوان کو تو ممنون ہونا چاہیے کہ بات صرف ان کی انگریزی تک ہی رک گئی، وگرنہ موصوف بلڈ پریشر کی گولی گھر بھول آتے تو پھر اعتراض ہیلمٹ اتارے وقت بال جھٹکنے پہ بھی ہوتا، کیپنگ کرتے ہوئے ہلنے پہ بھی ہوتا اور اسٹمپ مائیک میں پشتو بولنے پہ بھی ہوتا۔

یہ سوال اپنی جگہ کہ پاکستانی تاریخ کے بہترین بلے باز اور عمدہ کپتان انضمام الحق کی انگریزی مہارت محترم سکندر بخت کے معیارات کے مطابق تھی یا نہیں، لیکن قدرے کم اہم سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی زبان کی مہارت ایک کپتان کے کھیل میں کیا بہتری لاسکتی ہے؟

اس منطق کے اعتبار سے تو اگر انضمام الحق انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بنتے تو پاکستان 2007 کا ورلڈ کپ ضرور جیتتا اور اگر سرفراز احمد صرف آئلٹس کا ڈپلومہ ہی کرلیتے تو ورلڈ کپ 2019 میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر نہ ہوتے۔

دِقت مگر اس منطق کے پرچارک کی فقط یہ ہے کہ کھیل کا تجزیہ کرنے کو جو بنیادی آگہی درکار رہتی ہے، وہ ذرا معدوم ہے۔ جہاں کھیل کی حرکیات کا تجزیہ پچ، پلئینگ کنڈیشنز، پلئیرز فارم، گیم اسٹریٹیجی اور انفرادی مہارتوں کی بنیاد پہ کرنے کی صلاحیت ماند ہو، وہاں پھر تبصرے ڈومیسائل دیکھ کر اور انگریزی سن کر ہی ہو سکتے ہیں۔

اس منظرنامے میں، سب سے بڑے چینل کے سب سے بڑے دماغوں کو بھی اپنے سرف فروش اور موبائل فروش اسپانسرز سے استدعا کرنی چاہیے کہ جیسے وہ ‘اسپیشل ٹرانسیمشنوں’ کے ایک ایک منٹ کو اپنے اشتہارات سے رونق بخشتے ہیں، ایسے ہی انہیں کوئی بہتر تجزیہ کار بھی اسپانسر کردیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم انہی موجودہ سینئر تجزیہ کاروں کی ذہنی صحت کے لیے تو کوئی اسپانسر ڈھونڈ لائیں۔

پاکستانی ٹیم کا کپتان بھلے اپنے اندر لاکھ عیب رکھتا ہو، وہ پھر بھی پورے پاکستان کا نمائندہ ہے اور اس کی تحقیر بھی پورے پاکستان کی تحقیر کے ہی مترادف ہے۔

گو پاکستان کے نمائندگان کی تحقیر میں سب سے بڑا چینل ماشااللہ ہمیشہ سب سے آگے ہی رہا ہے مگر اس کے پالیسی ایڈیٹرز کو یہ یاد دہانی لازم ہے کہ جو لہجہ وہ ٹیکس پہ چلتے اداروں کے نمائندگان بارے اپناتے ہیں، وہ قومی کرکٹرز کے لیے ہرگز روا نہیں ہوسکتا۔

 نہ صرف یہ کرکٹرز اپنی معیشت خود پیدا کرتے ہیں بلکہ اس کی بدولت ایک پورا کرکٹ بورڈ بھی چلاتے ہیں۔ انہی کے کھیل اور اسٹار پاور کی برکت ہے کہ آپ کی بے ڈھنگی اسپیشل ٹرانسمشنز بھی گھنٹوں شیمپو اور مشروبات بیچ بیچ، آپ کی جیبیں بھر سکتی ہیں۔

پاکستان کا وقار اور اس کے نمائندگان کی تعظیم بھلے آپ کی مجبوری نہیں، مگر چینل چلانا اور چوبیس گھنٹے کی نشریات کا پیٹ بھرنا تو آپ کی مالی مجبوری بھی ہے۔ کم از کم اپنے پیٹ کا ہی لحاظ کرکے اس کھیل پہ رحم کردیں کہ قومی کرکٹرز اس قوم کے نمائندے ہیں، آپ کے ٹیکس خور ملازم نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سمیع چوہدری

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کی انگریزی رضوان کی ہیں اور کے لیے اور اس پہ بھی

پڑھیں:

پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغان قونصل جنرل

پشاور (ڈیلی پاکستان آن لائن) افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے کہا ہے کہ افغانستان میں اب اسلامی حکومت قائم ہے، اب فضا بن گئی ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک جائیں۔محب اللہ شاکر نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عید کے دوسرے روز افغانستان کے سفر کے دوران طالبان سربراہ سے افغان مہاجرین کے مسئلے پر گفتگو کی۔ افغان مہاجرین کے لیے افغانستان میں کمیشن بنایا گیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ طورخم بارڈر کے اس پار افغانستان میں کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں وطن واپسی پر مہاجرین کو تمام سہولیات دی جارہی ہیں۔ افغان قونصل جنرل نے کہا کہ مہاجرین نے پاکستان میں اسلام کی خاطر ہجرت کی، افغان مہاجرین نے پاکستان میں 40 سال گزارے۔  انہوں نے کہا کہ افغانستان پر حملے کے بعد افغان مہاجرین نے خالی ہاتھ پاکستان ہجرت کی، اب فضا ہے کہ مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغانستان میں اب امن اور اسلامی حکومت قائم ہے، افغان مہاجرین اپنے ملک میں سرمایہ کاری سمیت زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں۔ 

عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی سے متعلق بہن مریم وٹو کا نیا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو اب تشویش نہیں ہونی چاہیے، وہاں ان کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں، کنڑ میں کاروباری افراد کو زمینیں دی جارہی ہیں، کاروبار کے لیے ماحول سازگار ہے۔ افغان قونصل جنرل نے کہا کہ پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری ، ہمیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔محب اللہ شاکر نے کہا کہ افغانستان میں روس اور امریکا کی حکومت نہیں، اب ہم افغانستان کو آباد کریں گے، افغانستان میں ایسے امیر لوگ ہیں جو اپنے افغان بھائیوں کی مدد کررہےہیں، افغانستان میں ایسے تاجربھی موجود ہیں، جوافغانستان آنے والے بھائیوں کی مدد کررہے ہیں۔افغان قونصل جنرل نے کہا کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم بھی دی جائے گی، افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں، وہاں ایسی خواتین بھی ہیں جو پاسپورٹ دفاتر میں کام کرتی ہیں۔

کیا چین امریکی قرض کو تجارتی جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

مزید :

متعلقہ مضامین

  • 28 مئی والے قوم پرست، 9 مئی والے ملک دشمن ہیں: عطاء اللہ تارڑ
  • وزیرتعلیم کا امتحانی مراکز کا دورہ، بوٹی مافیا کا نیٹ ورک پکڑا گیا
  • کتابوں’’چشم نم‘‘ اور ’’واپسی‘‘پر تبصرے
  • امریکی ٹیرف کا کھیل بے معنی ہوچکا، چین کا دوٹوک مؤقف
  • مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر، عالمی امن کیلئے قربانی دی: اسحاق ڈار
  • پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغان قونصل جنرل
  • پاکستان میں رہتےہوئےتمام سیاسی جماعتیں اپنےحقوق کی جنگ لڑسکتی ہیں، مولانافضل الرحمان
  • اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروائے، اسحاق ڈار
  • پی ایس ایل میں زیادہ ففٹیز فخر نے رضوان کو پیچھے چھوڑ دیا
  • پی ایس ایل میں زیادہ ففٹیز فخر نے رضوان کی برابری کرلی