سورج سے 36 ارب گنا بڑا بلیک ہول دریافت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اسلام آباد( نیوز ڈیسک) ماہرین فلکیات نے ایک نہایت دیوقامت بلیک ہول دریافت کیا ہے جس کا حجم سورج سے 36 ارب گنا زیادہ ہے، یہ بلیک ہول ایک دور دراز کہکشاں LRG 3-757 کے مرکز میں واقع ہے
، اس دریافت کا سہرا برازیل کی یونیورسٹی فیڈرل ڈو ریو گرانڈے ڈو سُل کے سائنسدان کارلوس میلو کارنیرو اور ان کی ٹیم کے سر جاتا ہے۔ یہ تحقیق “کوسمک ہارس شو گریویٹیشنل لینز” نامی نظام کا مطالعہ کرتے ہوئے سامنے آئی،
یہ سسٹم زمین سے ساڑھے پانچ ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے،اس قسم کے بلیک ہولز کو “الٹرا میسو بلیک ہول” کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام سپر میسو بلیک ہولز سے بھی کئی گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔
سائنسی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں سپر میسو بلیک ہول موجود ہوتا ہے اور اس کا حجم کہکشاں کی ڈویلپمنٹ کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔
پاکستان میں دراندازی: ہلاک دہشتگرد افغانستان ملٹری اکیڈمی کا کمانڈر نکلا
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاک بھارت میچ میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے پر بھارتی مسلمان کا گھر مسمار
پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے پر ہندو انتہا پسندوں نے بھارتی مسلمان کا گھر گرا دیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹر میں ایک مسلمان شہری کا گھر صرف اس وجہ سے مسمار کر دیا گیا کہ اس نے پاک بھارت کرکٹ میچ کے دوران ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمان شہری نے اپنے گھر میں ٹی وی پر پاک بھارت میچ دیکھتے ہوئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا، جس پر مقامی ہندو انتہا پسندوں نے اسے بھارت مخالف نعرے بازی قرار دیتے ہوئے مسلمان شہری کا گھر ہی گرادیا۔
ہندو انتہا پسندوں نے مسلمان شہری پر الزام لگایا کہ وہ بھارت کے خلاف نعرے لگا رہا تھا، جس کے بعد مشتعل ہجوم نے اس کے گھر کو مسمار کر دیا۔
یہ نیا واقعہ بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم کی ایک اور شرمناک مثال ہے۔ بھارت میں تمام اقلیتوں، مگر خصوصاً مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کے ادوارِ حکومت میں مسلم مخالف تشدد اور نفرت کی لہر میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
نریندر مودی کی ہندوتوا پالیسی کے تحت بھارت میں شہریت ترمیمی بل اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ذریعے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان قوانین کے تحت مسلمانوں کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ بھارت کے اصل شہری ہیں، بصورت دیگر انہیں شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح کئی ریاستوں میں مسلم خواتین کو اغوا کر کے انہیں جبراً ہندو مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ واقعات اکثر ’’لو جہاد‘‘ کے نام پر کیے جاتے ہیں، جس میں مسلم مردوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ انتظامیہ، حکومت اور پولیس ایسے واقعات کو دانستہ نظر انداز کرتے ہیں۔
بھارت میں گؤ رکھشا کی آڑ میں بھی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے جھوٹے الزامات پر مسلمانوں کو سرعام مارا پیٹا جاتا ہے ، یہاں تک کہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں کئی مسلمان قتل بھی کیے جا چکے ہیں۔
ہندو انتہا پسند پارٹی بی جے پی کے دورِ حکومت میں مسلم تاجروں اور دکانداروں کو بھی معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کرنے کی بھی کئی مہمات چلائی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مودی سرکار کی آشیرباد سے مسلمانوں کے تاریخی اور مذہبی مقامات کو بھی منہدم کیا جاتا ہے یا انہیں نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ بابری مسجد کا انہدام اس کی سب سے بڑی مثال ہے، جس کے بعد کئی مساجد اور مقامات کو مسمار کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں سے منسوب راستوں اور علاقوں کے نام بدلنے کی مہم بھی بھارت میں جاری ہے۔
مودی سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں کے تحت مسلمانوں کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے ان کی آبادیوں کو بھی تقسیم کردیا گیا ہے، جس کا مقصد ان کے ووٹ کی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم نہ صرف ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین کے بھی منافی ہیں۔ عالمی برادری کو بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے انہیں روکنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔