تل ابیب: اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ میں امداد لے جانے پر پابندی کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

عرب میڈیا کے مطابق، پانچ غیر سرکاری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غزہ کے لیے امداد پر عائد پابندی ختم کرنے کے لیے فوری حکم جاری کیا جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیم گیشا (Gisha) نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کے داخلی راستوں پر کنٹرول سخت کر دیا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور دیگر ضروری امداد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

تنظیم نے مزید کہا کہ 20 لاکھ فلسطینی، جن میں سے نصف بچے ہیں، ان کی امداد روکنا کھلی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے۔

واضح رہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا اختتام ہفتے کے روز ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے عارضی جنگ بندی کی مشروط توسیع کا اعلان کیا۔ اسرائیلی حکومت نے مطالبہ کیا کہ حماس مزید یرغمالیوں کو رہا کرے، لیکن حماس نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے بغیر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

حماس کے انکار کے بعد، اسرائیل نے غزہ میں ہر قسم کے امدادی سامان کا داخلہ مکمل طور پر بند کر دیا، جس سے وہاں انسانی بحران مزید سنگین ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی

پڑھیں:

اسرائیل کا غزہ کو اشیائے صرف کی ترسیل کی معطلی کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) یروشلم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل غزہ میں ہر قسم کی اشیائے ضرورت کا داخلہ معطل کر رہا ہے۔

ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس غزہ میں عبوری جنگ بندی میں توسیع پر آمادگی ظاہر کرے۔

اسرائیل کو غزہ جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر مجبور کیا جائے، حماس

بیان میں کہا گیا، ''وزیر اعظم نیتن یاہو نے فیصلہ کیا ہے کہ آج (اتوار کی) صبح سے غزہ پٹی میں ہر قسم کی اشیائے ضرورت کی سپلائی معطل کر دی جائے۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا، ''اسرائیل اپنے یرغمالی شہریوں کی رہائی کے بغیر سیزفائر قبول نہیں کرے گا اور اگر حماس نے اپنا انکاری رویہ برقرار رکھا، تو اس کے دیگر نتائج بھی برآمد ہوں گے۔

(جاری ہے)

‘‘ اسرائیل عبوری جنگ بندی کی امریکی تجویز کا حامی

مصری دارالحکومت قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے آج اتوار کو علی الصبح یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقی وسطیٰ کے لیے مندوب اسٹیو وٹکوف کی اس تجویز کا حامی ہے کہ غزہ میں رمضان کے اسلامی مہینے اور ''پاس اوور‘‘ کے یہودی مذہبی تہوار کے عرصے کے لیے ایک عبوری جنگ بندی ہونا چاہیے۔

نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے یہ بات غزہ میں حالیہ جنگ بندی معاہدے کے ڈیڑھ ماہ دورانیے کے پہلے مرحلے کی مدت ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات بارہ بجے پورا ہو جانے کے چند گھنٹے بعد کہی گئی۔

وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق اسٹیو وٹکوف کی تجویز یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین عبوری جنگ بندی پر اتفاق رائے کے پہلے ہی روز حماس کے زیر قبضہ زندہ یا مردہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں میں سے نصف کو اسرئیل کے حوالے کیا جانا چاہیے جبکہ باقی ماندہ یرغمالی اس وقت رہا کیے جا سکتے ہیں جب مستقل فائر بندی معاہدے پر اتفاق ہو جائے۔

عبوری جنگ بندی کے حق میں وٹکوف کی دلیل

نیتن یاہو کے دفتر کے بیان کے مطابق امریکہ کے مندوب اسٹیو وٹکوف نے عبوری جنگ بندی کی تجویز اس لیے پیش کی ہے کہ حالیہ سیزفائر معاہدے کے پہلے مرحلے کی مدت پوری ہو چکی اور دوسرے مرحلے کے ممکنہ آغاز پر ابھی تک فریقین میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ تاہم مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی خاطر چونکہ مزید وقت درکار ہے، اس لیے اسرائیل اور حماس کو فی الحال ایک عارضی جنگ بندی پر راضی ہو جانا چاہیے۔

فوج اہم غزہ راہداری سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی اہلکار

اس تجویز کی تفصیلات خود اسٹیو وٹکوف نے نہیں بتائیں جبکہ بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے یہ وضاحت نہیں کہ کی وٹکوف نے اس سلسلے میں اسرائیل کو اپنی تجویز کب پیش کی۔

تازہ اسرائیلی موقف پر حماس کا ردعمل

نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ تازہ بیان پر فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نیا اسرائیلی موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ان معاہدوں سے مکر رہا ہے، جن پر عمل درآمد کا اس نے خود کو باقاعدہ پابند بنایا تھا۔

حماس کے سینیئر عہدیدار محمود مرداوی نے اتورا کی صبح کہا، ''یہ مسلسل چالبازی یرغمالیوں کو واپس ان کے اہل خانہ تک نہیں پہنچا سکے گی۔ اس کا نتیجہ دراصل بالکل الٹ ہو گا۔ اس طرح ان کی تکالیف میں تسلسل آئے گا اور ان کی زندگیاں خطرے میں رہیں گی۔‘‘

مرداوی کا یہ بیان آج ان فلسطینی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوا، جن میں حماس سے قربت رکھنے والی نیوز ایجنسی ''شہاب‘‘ بھی شامل ہے۔

حماس کی غزہ پر حکمرانی کا خاتمہ کریں گے، نیتن یاہو

انیس جنوری سے نافذ العمل ہو کر چھ ہفتے تک جاری رہنے والے حماس اور اسرائیل کے مابین فائر بندی کے پہلے مرحلے کے دوران حماس نے یرغمالیوں کے طور پر 33 اسرائیلی شہری اور پانچ تھائی باشندے رہا کر دیے تھے، جس کے جواب میں اسرائیل نے اپنے ہاں جیلوں میں بند تقریباﹰ دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔

جنگ شروع کب ہوئی تھی؟

اسرائیل اور حماس کے مابین تقریباﹰ 15 ماہ تک جاری رہنے والی غزہ کی جنگ سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں حماس کے جنگجوؤں کے اس بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے اور فلسطینی جنگجو واپس غزہ جاتے ہوئے تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔

حماس نے چار اسرائیلی مغویوں کی لاشیں واپس کر دیں

حماس، جسے کئی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں پر زمینی، فضائی اور سمندری حملے شروع کر دیے تھے۔ ان حملوں میں غزہ میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق حالیہ فائر بندی تک تقریباﹰ 48 ہزار فلسطینی ہلاک اور ایک لاکھ دس ہزار کے قریب زخمی ہو چکے تھے۔

غزہ کے انتظامی اہلکاروں اور طبی ذرائع کے مطابق مرنے اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت غزہ پٹی کے عام فلسطینی باشندو‌ں، خواتین اور بچوں کی تھی۔

م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت
  • اسرائیل کی طرف سے امداد روکنے پر غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا
  • جنگ بندی کا اختتام، اسرائیل نے غزہ کو امداد کی فراہمی روک دی
  • اسرائیل نے غزہ میں امداد اور سامان کی ترسیل روک دی
  • جنگ بندی معاہدہ ختم، اسرائیل نے غزہ کیلئے امدادی سامان کا داخلہ روک دیا
  • رمضان میں فلسطینیوں پر نیا ظلم، اسرائیل نے غزہ کو فوڈ سپلائی مکمل بند کر دی
  • اسرائیل کا غزہ کو اشیائے صرف کی ترسیل کی معطلی کا اعلان
  • اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی
  • اسرائیل کو غزہ جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر مجبور کیا جائے، حماس