انتخابات کب ہوں گے؟وفاقی وزیرنےبتادیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
سوات(نیوز ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا کے صدر اور وفاقی وزیر امیر مقام نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ روا رکھے گئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے سےسبق سیکھنا چاہیے۔اگلے عام انتخابات 2029 میں ہی ہوں گے، اپوزیشن تب تک انتظار کرے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اور صدر مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا امیر مقام نے سوات کے علاقے اسلام پور میں نادرا سینٹر کے افتتاح کے بعد عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران احمد خان نیازی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرینی صدر کے ساتھ رویے سے سبق سیکھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خطوط کا انجام صرف باسکٹ ہی ہوگا، کوئی پڑھنے والا نہیں، عوام ذاتی مفادات پر مبنی اتحادوں کو خوب جانتے ہیں۔
اپوزیشن کے اتحاد سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ اتحاد کسی پائیدارمقصد کے لیے نہیں بلکہ محض ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بن رہے ہیں، اگر اتحاد بنانا ہے تو ملک میں دہشت گردی، معاشی مسائل اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بنایا جائے۔
امیرمقام کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو سول ملٹری الائنس ہضم نہیں ہو رہا ہے اور وہ اس حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہی ہے۔وفاقی وزیر نے خطاب میں کہا کہ اگلے عام انتخابات 2029 میں ہی ہوں گے، اپوزیشن تب تک انتظار کرے۔پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس صوبے کے عوام کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے، یہ محض اقتدار کے حصول میں مصروف ہیں، پہلے اسلام آباد پر قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے، اب وزارتوں کے لیے سرگرداں ہیں مگر انہیں خیبرپختونخوا کے عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
امیر مقام نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے عوام پی ٹی آئی کی حقیقت جان چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور اوورسیز پاکستانیوں نے بھی پی ٹی آئی کی کال کو مسترد کر دیا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام اب ان کی حقیقت جان چکے ہیں۔انہوں نے گرینڈ الائنس کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد کس مقصد کے لیے بنایا جا رہا ہے؟ حقیقت میں یہ لوگ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملکی استحکام و ترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
جرمنی کے انتخابات
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پرکھڑی ہے جہاں جمہوریت، انسان دوستی، مساوات اور ترقی پسندی کے نظریات کے مقابلے میں دائیں بازو کی قوم پرست اور فسطائی سیاست ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے۔
یورپ، امریکا، ایشیا اور جنوبی امریکا کے کئی ممالک میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ دائیں بازو کی جماعتیں نہ صرف مقبول ہو رہی ہیں بلکہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں بھی جگہ بنا رہی ہیں۔اب کی بار یہ رجحان محض کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر ایک نئے نظریاتی معرکے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
تازہ ترین مثال جرمنی کی ہے جہاں حالیہ انتخابات میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) کے فریڈرک مرز چانسلر منتخب ہو چکے ہیں لیکن اصل تشویش Alternative für Deutschland AfD کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر ہے جو ایک انتہائی دائیں بازوکی جماعت ہے۔ یہ وہی جرمنی ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد نازی ازم سے چھٹکارا پانے کے لیے دہائیوں تک محنت کی تھی۔
جرمنی کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک نیا مگر خطرناک موڑ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس ملک نے خود کو جمہوری اقدار اور ترقی پسند پالیسیوں کا مرکز بنایا تھا لیکن اب وہی زمین دائیں بازوکی انتہا پسندی کے بیج اگا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اورکیا یہ رجحان صرف جرمنی تک محدود ہے یا اس کی جڑیں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی مضبوط ہو رہی ہیں؟
دائیں بازو کی مقبولیت کی بنیادی وجوہات:
یہ سوال کہ ’’ کیوں دائیں بازوکی جماعتیں دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہیں؟‘‘ بظاہر سادہ لگتا ہے لیکن اس کے پیچھے کئی پیچیدہ وجوہات کارفرما ہیں۔
معاشی عدم مساوات اور غریب طبقے میں بے چینی۔
نیو لبرل معاشی پالیسیوں نے گزشتہ چند دہائیوں میں امیروں کو اور امیر بنا دیا ہے جب کہ متوسط اور نچلے طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑی کارپوریشنز ٹیکنالوجی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے دولت پر قابض ہو چکے ہیں جب کہ عام آدمی کے لیے روزگار اور بنیادی سہولیات کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اس عدم مساوات کا براہِ راست فائدہ دائیں بازوکی جماعتوں کو ہوتا ہے جو عوام کو یہ باورکرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ان کی مشکلات کا ذمے دار حکمران اشرافیہ لبرل نظریات یا اقلیتیں ہیں۔ یورپ میں مہاجرین اور تارکین وطن کو نشانہ بنایا جاتا ہے، امریکا میں لاطینی نژاد شہریوں کو اور بھارت و پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو اس کا سامنا ہے۔
پناہ گزینوں کا بحران اور نسل پرستی:
شام، افغانستان، یمن اور افریقہ میں ہونے والی جنگوں اور بدامنی کے باعث لاکھوں افراد نے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لی۔ یورپی حکومتوں نے انسانی ہمدردی کے تحت انھیں اپنے ممالک میں جگہ دی، لیکن اس کا رد ِعمل شدید تھا۔
مہاجرین مخالف جذبات کو دائیں بازو کی جماعتوں نے ایک سیاسی ہتھیار بنا لیا۔ جرمنی میں AFD فرانس میں Marine Le Pen اٹلی میں Giorgia Meloni اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مہاجرین کو دہشت گرد نوکریاں چھیننے والے اور یورپی ثقافت کے دشمن کے طور پر پیش کیا۔ یہی حکمت عملی بھارت میں نریندر مودی کی بے جے پی اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسند جماعتوں نے بھی اپنائی۔
سوشل میڈیا اور پروپیگنڈا:
یہ پہلا موقع ہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں روایتی جلسوں اور تقاریر کے بجائے سوشل میڈیا پر اپنی مہم چلا رہی ہیں۔ جعلی خبریں، جھوٹے بیانیے اور نفرت انگیز مہمات لمحوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں جس کا براہِ راست فائدہ دائیں بازوکو ہوتا ہے۔
فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور واٹس ایپ کے ذریعے عام عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ ایک خطرے میں ہیں اور انھیں اس خطرے سے بچانے کے لیے ایک طاقتور رہنما کی ضرورت ہے۔ یہی وہ نفسیاتی حربہ ہے جس نے ٹرمپ کو امریکا میں مودی کو بھارت میں اورکئی دائیں بازو کے رہنماؤں کو یورپ میں کامیاب کرایا۔ لبرل سیاست کی ناکامی نے بھی لوگوں کو دائیں بازو کی سیاست پر بھروسہ کرنے پہ راغب کیا ہے۔
ترقی پسند اور جمہوری جماعتیں اگرچہ مساوات، انسانی حقوق اور ترقی کے نعروں کے ساتھ سیاست میں آتی ہیں لیکن وہ اکثر عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری اور جرائم جیسے حقیقی مسائل پرکام نہ کرنے کے باعث عوام دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں جو ان سے سیدھے اور سخت فیصلے لینے کا وعدہ کرتی ہیں۔
قومی شناخت اور مذہبی انتہا پسندی کو استعمال کر کے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
دائیں بازو کے سیاستدان ہمیشہ عوام کو یہ باورکراتے ہیں کہ ان کی ثقافت مذہب اور قومی شناخت خطرے میں ہے۔ اس جذباتی نعرے کا استعمال یورپ میں بھی ہو رہا ہے اور ایشیا میں بھی۔
جرمنی میں کہا جا رہا ہے کہ مسلمان مہاجرین جرمن ثقافت کو ختم کر دیں گے، بھارت میں کہا جا رہا ہے کہ ہندو مذہب کو بچانے کے لیے مسلمانوں کو دبانا ہوگا اور پاکستان میں دائیں بازوکی جماعتیں یہی بیانیہ اقلیتوں کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔
یہ رجحان کس سمت جا رہا ہے؟
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اگر دائیں بازوکی انتہا پسندی کو نہ روکا گیا، تو یہ جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
ہم نے تاریخ میں پہلے بھی دیکھا ہے کہ جب نسل پرستی فسطائیت اور قوم پرستی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے تو اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔
ہٹلر اور نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد یورپ نے کیا دیکھا؟
مسولینی کے بعد اٹلی میں کیا ہوا؟
فرانکو کی حکومت کے بعد اسپین کوکیا بھگتنا پڑا؟
یہ سب تاریخ کے وہ سبق ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر دائیں بازو کی انتہا پسندی کو قابو میں نہ لایا گیا تو یہ ایک نئے عالمی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
ہم کیا کرسکتے ہیں؟
یہ وقت ترقی پسندوں، جمہوریت پسندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ہمیں چاہیے کے سوشل میڈیا پر دائیں بازو کی جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کو بے نقاب کریں۔
تعلیم اور شعورکو عام کریں تاکہ عوام نسل پرستی اور فسطائیت کی حقیقت کو پہچان سکیں۔ ایسے سیاستدانوں کو سپورٹ کریں جو واقعی عوامی مسائل پر کام کر رہے ہوں نہ کہ صرف نفرت کے بیانیے پر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہوں۔
ترقی پسند جماعتوں کو بھی عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے مؤثر پالیسیاں اپنانی ہوں گی تاکہ لوگ مایوس ہوکر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی طرف نہ جائیں۔
اگر ہم نے آج اس خطرے کو نہ سمجھا تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ یہ ایک جنگ ہے فسطائیت اور جمہوریت کے درمیان نفرت اور محبت کے درمیان اور ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں اگر ہم خاموش رہے تو تاریخ ہمیں بھی معاف نہیں کرے گی۔