کیا پولیس کی تفتیش آہستہ اور ملٹری کی تیز تھی؟ جسٹس حسن اظہر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
—فائل فوٹو
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا ہے کہ سوال یہ نہیں کہ 105 ملزمان کو ملٹری ٹرائل کے لیے منتخب کیسے کیا، معاملہ یہ ہے کیا قانون ملٹری ٹرائل کی اجازت دیتا ہے؟
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟
اسلام آباد عدالت عظمیٰ کے آئینی بنچ میں پی ٹی.
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا، سیکشن 94 کے لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا ہے، ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کے اختیارات لامحدود ہیں، پاکستان میں وزیرِ اعظم کا اختیار لامحدود نہیں، ملزمان کی حوالگی کے اختیارات کا اسٹرکچر ہونا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا پولیس کی تفتیش آہستہ اور ملٹری کی تیز تھی؟ کیا ملزمان کی حوالگی کے وقت مواد موجود تھا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مواد کا ریکارڈ پر ہونا نہ ہونا مسئلہ نہیں، ساری جڑ ملزمان کی حوالگی کا لامحدود اختیار ہے، کمانڈنگ افسر سیکشن 94 کے تحت حوالگی کی درخواست دیتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی کی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کو ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ دفاع تو ملزمان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت یا اپیل میں اپنایا جا سکتا تھا۔
جسٹس محمد علی نے وکیل سوال کیا کہ کیا عدالت نے ملزمان کو نوٹس کیے بغیر کمانڈنگ افسر کی درخواست پر فیصلہ کر دیا تھا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ سیکشن 94 کا اطلاق ان ملزمان پر ہو گا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، اے ٹی سی کے فیصلے کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہو گئے، اے ٹی سی کمانڈنگ افسر کی درخواست کو مسترد بھی کر سکتی تھی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے قبل ہونا تھا، اگر کورٹ مارشل کا فیصلہ نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کیسے ہو سکتی ہے؟
جسٹس حسن اظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں حوالگی کی وجوہات بتائی گئیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کی درخواست میں وجوہات بتائی گئیں، درخواست میں بتایا گیا کہ ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شکایت کے اندراج کا طریقہ ضابطہ فوجداری میں واضح ہے، شکایت مجسٹریٹ کے پاس جاتی ہے، مجسٹریٹ بیان ریکارڈ کر کے فیصلہ کرتا ہے کہ تفتیش ہونی چاہیے یا نہیں۔
جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ درخواست مقدمے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درخواست وفاقی حکومت ہی دے سکتی، کوئی پرائیویٹ شخص آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درخواست نہیں دے سکتا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شکایت آرمی رولز کے تحت بھی ممکن ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی رولز کے مطابق پہلے تفتیش ہوتی ہے لیکن تحقیقات کے لیے بھی کوئی شکایت ہونا لازمی ہے۔
سماعت کل تک ملتویفوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کمانڈنگ افسر کی درخواست جسٹس جمال مندوخیل نے حوالگی کی درخواست ملزمان کی حوالگی سوال کیا کہ کیا درخواست میں نے وکیل سے کہ ملزمان سیکشن 94 ہے جسٹس
پڑھیں:
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل، فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت شروع
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پرسماعت شروع ہوگئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ سول سوسائٹی کی طرف سے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل جاری ہیں۔
27 فروری کو سماعت کے دوران فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا تھا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزمان کی حوالگی کے لیے درخواستیں دیں، درخواستوں کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے، درخواست کے یہ الفاظ اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی، ملزمان کی حوالگی کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی وجوہات مضحکہ خیز ہیں، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے ایڈمنسٹریٹیو جج نے ملزمان کی حوالگی کے احکامات دیے، عدالت نے ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصور وار لکھ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں۔
یہ بھی پڑھیےفوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: لارجر بینچ پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا، جسٹس امین الدین خان کے ریمارکس
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کا حکم عدالت دے سکتی ہے، ایڈمنسٹریٹیو جج نہیں، آرمی ایکٹ سیکشن 59 (1) کے تحت فوجی افسران کی قتل و دیگر جرائم میں سول عدالت سے کسٹڈی لی جا سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ میرے حساب سے تو 59 (4) کا اطلاق بھی ان پر ہی ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں تھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ ایف آئی آر مجھے ریکارڈ میں نظر نہیں آئی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ حوالگی والی ایف آئی آر پڑھیں، اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑ پھوڑ کا ہے۔
احمد فراز کیس کے عدالتی فیصلے کا حوالہ
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالتیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے، احمد فراز کو شاعری کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، عدالت نے ریلیف دیا تھا، ان پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا، احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے، مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا، لیکن میں گرفتار نہیں ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں وکیل کو کہا کہ آپ کو اب گرفتار کرا دیتے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ ججز کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کہ احمد فراز کی کونسی نظم پر کیس بنا تھا، مجھے تو ساری یاد ہیں، بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی، کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں کا دیا اور گئے کہیں اور، میری بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی سے کہا کہ کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟
یہ بھی پڑھیےفوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی یا پرائیویٹ بل لایا؟ جسٹس امین الدین خان
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں، میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں ہی گزری، میرے والد کی شاعری ان کی وفات کے بعد ایک پشتون جرگے میں کسی نے پڑھی تھی، وہاں میرے والد کی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہو گیا تھا، شاعری پڑھنے والے نے بتایا کہ کس کا کلام ہے اور اس کی بیٹی آج کون ہے، میرے والد کی شاعری پڑھنے والے کو بہت مشکل سے رہائی ملی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وقت کے حساب سے شاعری اچھی بری لگتی رہتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اب تو چرسی تکہ والے کو بھی اصلی چرسی تکہ لکھنا پڑتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے آپ تمام ججز سے اچھے کی اُمید ہے۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھنے والے ہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، شاعر احمد فراز نے تو عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں، جسٹس افضل ظُلہ نے کہا آپ کوئی ایسی نظم لکھ دیں کہ فوجی کے جذبات کی ترجمانی ہو جائے، احمد فراز نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ وسائل ہی نہیں کہ اپنی نظم کی تشہیر کر سکوں، آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اس دور میں اگر احمد فراز ہوتے تو وہ یہ دفاع نہیں لے سکتے تھے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اب جسٹس ہلالی نے بتا دیا ہے وہ فریڈم فائٹر کی بیٹی ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں خود بھی ایک فائٹر ہوں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس مسرت ہلالی سے کہا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے، وکلاء تحریک میں آپ کا کردار یاد ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سے کہا کہ آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دے رہے ہیں، اگر آرمی ایکٹ کی دفعات کالعدم ہوئیں تو آپ کے دلائل غیر متعلقہ ہو جائیں گے۔
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ آپ بہت سی چیزوں کو مکس کر گئے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے ایک مینیو رکھ رہا ہوں، مینیو میں مختلف آپشن ہیں، عدالت کوئی بھی لے سکتی ہے، مجھے تو ریلیف چاہیے وہ کسی بھی طرح ملے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ مینیو وہ والا رکھیں جو عملاً ممکن بھی ہو۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کہ آج بارش ہو رہی ہے، مینیو اس کے حساب سے ہی رکھیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 3 مارچ بروز پیر تک ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل