ولادیمیر زیلنسکی کی کنگ چارلس سے خصوصی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
برطانوی شاہ چارلس سوم نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ہمراہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کر کے ان سے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ روز برطانیہ میں یورپی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں دیگر یورپی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ یوکرینی صدر نے بھی شرکت کی۔
یہ اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی کشیدگی کے بعد یوکرینی صدر سے اظہارِ یک جہتی، یوکرین جنگ اور سلامتی پر منعقد کیا گیا تھا۔
برطانوی دارالحکومت لندن کے لنکاسٹر ہاؤس میں ہونے والے اس اہم سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد 47 سالہ یوکرینی صدر بذریعہ ہیلی کاپٹر نورفولک پہنچے، جہاں انہوں نے شاہی رہائش گاہ سینڈرنگھم ہاؤس میں کنگ چارلس سوم سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے حوالے سے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر شاہی خاندان کے آفیشل اکاونٹ کی جانب سے تصویر پوسٹ کی گئی۔
View this post on InstagramA post shared by The Royal Family (@theroyalfamily)
تصویر میں ولادیمیر زیلنسکی شاہ چارلس سے مُصافحہ کر رہے ہیں۔
شاہی محل کی جانب سے اس ملاقات کی مزید تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں البتہ بذریعہ کیپشن انہوں نے بتایا ہے کہ یوکرینی صدر کا پُرتباک استقبال کیا گیا۔
اس سے قبل 2024ء میں شاہ چارلس نے روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ میں یوکرینی عوام کی ہمت و حوصلے کی تعریف کی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: یوکرینی صدر
پڑھیں:
پاکستان: افغان پناہ گزینوں کی خصوصی پرواز سے جرمنی روانگی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) جرمن حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے ایک خصوصی طیارے نے آج 16 اپریل بروز بدھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ان افغان پناہ گزینوں کو لے اڑان بھری، جنھیں جرمنی میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمن دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تمام مسافروں کو قانونی طور پر جرمنی میں داخلےکی اجازت دی گئی ہے۔
یہ طیارہ بدھ کے روز کسی وقت مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ میں اترے گا۔ اس کے بعد مسافروں کو وسطی جرمنی کے ایک کیمپ میں لے جایا جائے گا، جہاں انہیں دو ہفتوں تک رکھنے کے بعد وفاقی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ جرمن دفتر خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 2600 افغان باشندے اس وقت پاکستان سے جرمنی میں داخلے کے منتظر ہیں۔
(جاری ہے)
ان افراد میں میں افغانستان میں جرمن اداروں کا سابق عملہ اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ وہ افغان باشندے بھی شامل ہیں، جو سابقہ افغان حکومت میں بطور وکیل یا صحافی انسانی حقوق کےعلمبردار رہے ہیں، اور اب انہیں طالبان کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔
جرمنی کی آئندہ حکومت پناہ گزینوں کے لیے داخلے کے پروگراموں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے آئندہ اتحادی حکومت کے قیام سے قبل جاری کردہ معاہدے میں کہہ رکھا ہے۔، ''ہم جہاں تک ممکن ہو (مثلاً افغانستان سے) رضاکارانہ وفاقی داخلہ پروگرام ختم کریں گے اور کوئی نیا پروگرام شروع نہیں کریں گے۔‘‘
وہ افغان جو جرمنی یا دیگر ممالک جانے کے لیے اب بھی اسلام آباد چھوڑنے کے منتظر ہیں وہ جلد ہی سخت دباؤ میں آ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان نے اپریل کے آغاز میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کی ایک نئی لہر شروع کی تھی۔
اسلام آباد حکومت کے اس اقدام کا مقصد طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت 30 لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے بے دخل کرنا ہے۔پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ مئی سے ملک بدری ان افغانوں کو بھی متاثر کرے گی، جو مغربی ممالک جانے کے لیے پاکستان میں انتظار کر رہے ہیں۔
شکور رحیم ڈی پی اے کے ساتھ
ادارت: افسر اعوان