ملٹری ٹرائل کیس: سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہو گا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں: آئینی بنچ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
ملٹری ٹرائل کیس: سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہو گا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں: آئینی بنچ WhatsAppFacebookTwitter 0 3 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد ( سب نیوز ) سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا ہے کہ سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہی ہو گا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ 105 ملزمان کے ملٹری ٹرائل کیلئے سلیکشن کیسے ہوئی، اصل ایشو یہ ہے کیا قانون اجازت دیتا ہے جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا، سیکشن 94 کے لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا ہے، ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کا اختیار لامحدود ہے، اس ملک میں وزیر اعظم کا اختیار لامحدود نہیں، ملزمان حوالگی کے اختیارات کو اسٹریکچر ہونا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کی تفتیش کم اور ملٹری کی تیز تھی؟ کیا ملزمان کی حوالگی کے وقت مواد موجود تھا؟
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مواد کا ریکارڈ پر ہونا یا نہ ہونا مسئلہ نہیں، ساری جڑ ملزمان کی حوالگی کا لامحدود اختیار ہے،کمانڈنگ افسر سیکشن 94 کے تحت حوالگی کی درخواست دیتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا انسداد دہشتگردی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟ وکیل سول سوسائٹی نے جواب دیا کہ عدالت کو ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ یہ دفاع تو ملزمان کی جانب سے انسداد دہشتگردی عدالت یا اپیل میں اپنایا جا سکتا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو نوٹس بھی جاری نہیں کیا تھا، عدالت نے کمانڈنگ افسر کی درخواست آنے پر ازخود فیصلہ کر دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہو گئے، انسداد دہشتگردی عدالت کمانڈنگ افسر کی درخواست کو مسترد بھی کر سکتی تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے قبل ہونا تھا، اگر کورٹ مارشل کا فیصلہ نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کیسے ہو سکتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں حوالگی کی وجوہات بتائی گئی ہیں؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کمانڈنگ افسر کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ ملزمان کی حوالگی کی درخواست میں وجوہات بتائی گئی ہیں، درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ملزمان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرائم ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ملٹری ٹرائل
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ؛ آن لائن گیمبلنگ پر پابندی ملزمان کے خلاف کارروائی کیلئے درخواست
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت شہری کی جانب سے آن لائن گیمبلنگ پر پابندی اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس راجا انعام امین منہاس نے شہری چوہدری طاہر الحق کی جانب سے مفاد عامہ میں دائر درخواست پر سماعت کی جہاں درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر عمران رشید اور وحید الرحمان قریشی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت عالیہ نے وفاق، پی ٹی اے، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ غیر قانونی جوئے کے کاروبار میں ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سہولت فراہم کرنے والوں کے کام میں بھی مداخلت کریں، آن لائن گیمبلنگ ایپس ادائیگیوں کے پراسیس کے لیے بلاواسطہ طریقے استعمال کرتی ہیں۔
عدالت سے کہا گیا کہ گیمبلنگ اکاؤنٹ میں رقم لگانے کے لیے ایپس نامعلوم تھرڈ پارٹی کامقامی اکاؤنٹ نمبر دیتی ہیں، گیمبلنگ ایپس رقم وصولی کے بعد اسے صارف کے اکاؤنٹ میں کریڈٹ کرتی ہیں تاکہ وہ جوا کھیل سکے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جوئے کی رقم جیتنے پر بھی اسی طریقے سے صارف کے اکاؤنٹ میں ادائیگی کر دی جاتی ہے، یہ سارا عمل بینکنگ کی پابندیوں اور لیگل سکروٹنی سے بچ کر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں بھی مدد کرتا ہے۔
چوہدری طاہر الحق نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ پیکا ایکٹ کی سیکشن 37 پی ٹی اے کو غیر قانونی گیمبلنگ پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کا اختیار دیتا ہے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اس متعلق اپنی اتھارٹی منوانے میں ناکام رہی ہے۔
عدالت سے کہا گیا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ غیر قانونی ٹرانزیکشنز کی سہولت فراہم کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کرتا ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان فنانشل ایکو سسٹم کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آن لائن گیمبلنگ ایپس اور ان کی ایڈورٹائزمنٹ پر پاکستان میں پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو گیمبلنگ ٹرانزیکشنز روکنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر فنانشل کنٹرول کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے کو تمام گیمبلنگ ویب سائٹس، ایپس اور پاکستان میں ڈیجیٹل ایڈورٹائزمنٹ کی پروموشن روکنے اور ایف آئی اے کو گیمبلنگ ٹرانزیکشنز میں ملوث افراد اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا جائے۔