ایسا لطیفہ شاید ہی کسی ملک میں ہوا ہو کہ ایک شخص جو جیل میں کرپشن کے جرائم ثابت ہونے پر قید ہے، اسے نہ فون کی سہولت میسر ہے نہ انٹرنیٹ دستیاب ہے، نہ اس نے کبھی کچھ تحریر کرنے کی غرض سے کاغذ قلم طلب کیا ہے ، نہ ہی اس نے کسی کو اپنی تحریر نقل کروائی ہے۔ نہ کسی بین الاقوامی جریدے کے صحافی نے جیل کا دورہ کیا ہے نہ ملاقات کرنے والے کسی صحافی کو اس کی جانب سے کسی بین الاقوامی تحریک کا شائبہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ہر چوتھے دن کسی انٹرنیشنل اخبار میں اس کا مضمون شائع ہوتا ہے۔ کبھی کسی بین الاقوامی شہرت کے حامل جریدے میں اس کا پراسرار انٹرویو شائع ہوتا ہے، اس کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ ایسے ایسےٹویٹ کر رہا ہے کہ جو عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گے۔
اس کا سوشل میڈیا وہ زبان بول رہا ہے جو اس کے لیے ہی مصیبت بنتی جا رہی ہے۔ تو سوال بنتا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کون چلا رہا ہے؟ اس ٹوئیٹر کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں؟ ملک میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے کہاں بن رہے ہیں؟ نوجوانوں کی گمراہی کا سبب کون بن رہا ہے؟ طاقت کے اس کھیل میں عمران خان کیا اپنے سوشل میڈیا کا بھی قیدی ہو گیا ہے؟ کیا اپنے بیانیے کی گرفت میں وہ آ گیا ہے جو اس وقت مفاہمت پر پوری طرح رضامند ہے؟
یہ بات بہت واضح ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا عمران خان کے کنٹرول سے باہر ہے کیونکہ وہ جو زبان بول رہا ہے اس سے خان کی رہائی ممکن نہیں۔ جب بھی بات مفاہمت کی ہوتی ہے، کچھ رعایتیں ملنے لگتی ہیں، کچھ ربط ضبط شروع ہوتا ہے اس سوشل میڈیا پر اچانک آگ لگا دی جاتی ہے۔ پھر رہائی کے منصوبے تلپٹ ہو جاتے ہیں اور رعایتوں کی امید آناً فاناً دم توڑ جاتی ہے۔
اس ظالم سوشل میڈیا کو عمران خان کی رہائی قبول ہے نہ پسپائی خوش آتی ہے۔ اس کو عمران کی شہادت درکار ہے۔ تاکہ یہ سوشل میڈیا عمران خان کے مزار پر ہر روز عرس منائے اور احتجاج کے نام پر چندے کمائے۔ چند بدبخت جو ملک چھوڑ چکے ہیں انہیں فکر لاحق ہے کہ خان رہا ہو گیا تو ان کی کمائی کو نظر لگ جائے گی، ڈالروں کی ترسیل رک جائے گی، جھوٹ کی کمائی کو گھن لگ جائے گا۔ اس لیے وہ ہر لمحہ بغاوت کا پیغام دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بغاوت حکومت سے بھی ہے، آئین سے بھی ہے، افواج سے بھی ہے اور ریاست سے بھی ہے۔ اتنی بہت سی بغاوتیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ ان کا نتیجہ پسپائی ہی نکلتا ہے مگر ڈالروں والے سوشل میڈیا کو یہ پسپائی قبول نہیں۔ یہ سوشل میڈیا عمران خان کا سب سے بڑا اثاثہ بھی ہے اور یہی خان کا سب سے دشمن بھی ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے خمیر سے پی ٹی آئی نے جنم لیا اور یہی پی ٹی آئی کی چتا کو آگ دکھانے کے درپے بھی ہے۔
ایک انتہائی باوثوق ذریعے کے مطابق پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا روزانہ 6کروڑ روپیہ خرچ کر رہاہے۔ دھیان رہے کہ یہ پیسہ امریکا میں لابنگ کے اخراجات کے سوا ہے۔ روز کے 6 کروڑ ایک مہینے کے ایک ارب 80کروڑ بنتے ہیں۔اور اس رقم کو اگر سال پر ضرب دیا جائے تو یہ رقم قریباً 22ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ اس سوشل میڈیا کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟ نہ اتنی رقم حکومت کے پاس ہے نہ کسی سیاسی جماعت کی اتنی بساط ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟ عمران خان نے تو کبھی گھر آنے والوں کو چائے تک نہیں پوچھی۔ گھر کا خرچہ بھی دوست احباب نے ہمیشہ ادا کیا۔ تو پھر اتنی رقم کا بندوبست کہاں سے ہوتا ہے۔ اس کے 2 ذرائع ہو سکتے ہیں۔
ایک تو شوکت خانم میں غریبوں کے مفت علاج کے نام پر جو رقم آتی ہے اس کو پارٹی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کا سارا رونا ہی یہی ہے۔ ٹی وی کی اسکرینوں پر ایک معصوم کینسر زدہ بچے کی تصویر دکھا کر زکوۃ اور خیرات مانگی جاتی ہے اور وہ پارٹی کے جلسوں انتشار، لانگ مارچ اور ہنگامہ آرائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اس رقم کا دوسرا ذریعہ عمران خان کا پہلا سسرال بھی ہے۔ گولڈ سمتھ خاندان کے لیے یہ رقم بہت معنی نہیں رکھتی ہے۔ لیکن کیا یہ رقم وہ عمران خان کی رہائی کے لیے خرچ کر رہے ہیں یا اس ملک میں یہودی لابی کی سازشیں پھیلانے کے لیے یہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ابھی تشنہ ہے لیکن سچ یہ ہے سوشل میڈیا جس بے مہار طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے یہ عمران خان کے لیے بڑی مصیبت کا پیغام لا رہا ہے۔
دلچسپ تماشا یہ ہے کہ اس سوشل میڈیا نے عمران خان کوایک ایسا برینڈ بنا دیا ہے جو ملک کے آئین سے لے کر افواج تک ہر ایک سے متصادم ہے۔ بیرون ملک یو ٹیوبرز اس برینڈ سے اس ملک کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور ڈالر کماتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے نہ انہیں عمران خان کی پرواہ ہوتی ہے نہ ان کی پارٹی سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے، ان کو بس لائکس اور ویوز سے غرض ہوتی ہے، چاہے اس کے لیے اپنی ماں دھرتی کو بھی گالی ہی کیوں نہ دینا پڑ جائے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان درون خانہ پکار پکار کر این آر او مانگ رہے ہیں مگر خان کا سوشل میڈیا کہہ رہا ہے ’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان ‘ عمران خان گڑ گڑا گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں اور سوشل میڈیا نعرہ لگا رہا ہے کہ ’ کیا ہم کوئی غلام ہیں؟‘ عمران خان جیل میں پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح فوج سے ان کے تعلقات درست ہو جائیں اور وہ اس مشکل سے باہر نکلیں مگر ان کا سوشل میڈیا نعرہ لگا رہے کہ ’تیرا باپ بھی دے گا آزادی ‘۔
یاد رکھیے! اسی سوشل میڈیا سے تحریک انصاف بنی تھی اور یہی سوشل میڈیا عمران خان اور تحریک انصاف کی مکمل بربادی کا سبب بنے گا۔
جیل سے آن لائن رہنے والا جھوٹ اب پکڑا جا چکا ہے، اب اس مکر و فریب کے پیچھے چھپے کرداروں کو سامنے لانے کا وقت آ گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم عمار مسعود عمران خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم سوشل میڈیا عمران خان کا سوشل میڈیا عمران خان کے عمران خان کی پی ٹی آئی سے بھی ہے ہیں اور رہے ہیں ہوتا ہے جاتی ہے یہ رقم خان کا کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ہونے والی تکرار کے بعد سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان
اے آئی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی اپنی نشست سے اٹھ کر امریکی صدر ٹرمپ کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں، جس کے بعد دونوں صدور کے بیچ ہاتھا پائی شروع ہو جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی تکرار کے بعد سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ اے آئی نے بات ہاتھا پائی تک پہنچائی تو کسی نے زیلنسکی کو بھتیجا اور ٹرمپ کو چچا بنادیا، تنازع کو کراچی حیدرآباد بریانی کا جھگڑا بنادیا گیا۔ تاہم اس ملاقات نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا، میمز اور AI سے تیار کردہ ویڈیوز نے تصادم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اے آئی کی جاری کردہ ویڈیو نے تو ڈونلڈ ٹرمپ اور زیلنسکی کی تکرار ہاتھا پائی تک پہنچادی۔
اے آئی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی اپنی نشست سے اٹھ کر امریکی صدر ٹرمپ کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں، جس کے بعد دونوں صدور کے بیچ ہاتھا پائی شروع ہو جاتی ہے، تاہم بعد میں تصدیق ہوئی کہ ویڈیو مصنوعی ذہانت سے شرارت کے طور پر بنائی گئی ہے۔ تو کہیں سوشل میڈیا پر ٹرمپ زیلنسکی تنازع کو حیدرآباد کراچی کے درمیان بریانی کا جھگڑا بنادیا گیا۔ ایک وائرل میم میں ٹرمپ اور زیلنسکی کیلڑائی کو خاندانی جھگڑے میں تبدیل کردی، بھتیجے زیلنسکی جب چچا ٹرمپ سے پیسےمانگنے گئے تو جے ڈی چاچی نے شکرگزاری کا لیکچر دے دیا۔ ایک میم یہ بھی بنی کہ چاند رات پر جب ٹیلر آپ سے کہے کہ بجلی نہیں سوٹ تیار نہیں ہوسکتا تو یہ بات تیسری جنگ عظیم تک پہنچ سکتی ہے۔ ایک اور میم میں ٹرمپ اور جے ڈی وینس کے رویے کو کارٹون کردار کے ردعمل سے تشبیہ دی گئی۔