کیا کرپٹو کرنسی کی وجہ سے زرمبادلہ میں کمی ہوسکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
حکومت پاکستان ملک میں کرپٹو کونسل قائم کرنے کے حوالے سے سوچ رہی ہے تاکہ کرپٹو کرنسیوں کے کاروبار کو ریگولیٹ کیا جا سکے، کیونکہ اس وقت بھی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد غیرقانونی طور پر کرپٹو میں انویسٹ کررہی ہے۔
واضح رہے کہ کچھ ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی دیگر چند ممالک کی طرح کرپٹو کرنسیوں کو اپنانا چاہیے، کیونکہ اگر کرپٹو کرنسی کو نہ اپنایا گیا تو پاکستان اس میدان میں بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں وزیر خزانہ کی ایف اے ٹی ایف گائیڈ لائنز کے مطابق ڈیجیٹل اثاثوں کے ضابطہ کار کو یقینی بنانے کی ہدایت
یاد رہے کہ پاکستانیوں کی کرپٹو کرنسیوں میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، اور اس کا اندازہ دسمبر 2021 میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 2021 میں تقریباً 20 بلین ڈالر کی کرپٹو کرنسی کی قدر ریکارڈ کی جو کہ ملک کے موجودہ وفاقی ذخائر سے زیادہ ہے۔
پاکستان 21-2020 کے دوران کرپٹو کرنسی اپنانے کے انڈیکس میں ہندوستان اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیوں کا رجحان تیزی سے زور پکڑ رہا ہے اور حالیہ برسوں میں کرپٹو کرنسیوں کے حوالے سے عوام میں مزید آگاہی پیدا ہوئی ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا یے کہ اب پاکستانیوں نے کرپٹو کرنسیوں میں کتنا انویسٹ کیا ہوگا۔
اس بات میں کوئی دورائے نظر نہیں آتی کہ آنے والا دور ڈیجیٹل کرنسی کا ہی ہے اور خاص طور پر کرپٹو کرنسیوں نے پوری دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا کرپٹو کرنسی کی وجہ سے واقعی زرمبادلہ میں کمی ہو سکتی ہے؟
’میرے خیال میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا‘اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کرپٹو کرنسیوں کی ریگولیشن سے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوگی، بلکہ میرے خیال میں تو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ابھی تک پاکستان سے باہر ہی بٹ کوائن خریدے جاتے ہیں، اور وہ پاکستان سے باہر ہی رہتے ہیں، جبکہ اس کے علاوہ بھی ایکسچینج کمپنیاں موجود ہیں، جو عام عوام کو سالانہ 4 بلین ڈالر کی سہولت مہیا کررہی ہیں اور انٹر بینک کو 6 بلین ڈالر دے رہی ہیں، جس کی وجہ سے ملکی خزانے پر اس کا بوجھ نہیں بڑھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب لوگ کرپٹو میں پاکستان سے لین دین کریں گے تو اس سے پاکستانی کی معیشت کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا لہٰذا پاکستان کو جتنا جلدی ہو سکے کرپٹو کرنسیوں کو قبول کر لینا چاہیے اور دنیا کے ساتھ چلنا چاہیے۔
’ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ پاکستانی کرپٹو کرنسیوں میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انوسٹمنٹ بھی کررکھی ہے، قریباً پاکستانیوں کی 20 ارب ڈالرز کی انویسٹمنٹ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن حکومت کو اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی ریگولیشن کی جانب جانا چاہیے، کیونکہ یہ خطرناک کاروبار بھی ہے، کب کیا ہو جائے، اس کے حوالے سے کچھ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، اور دوسرا اس میں فراڈ جیسے پہلو بھی بہت عام ہوتے ہیں، بلکہ حکومت کو چاہیے کہ کونسل بنانے کے بجائے اسے مکمل طور پر اسٹیٹ بینک کے انڈر کردے۔
انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کے پاس قابلیت بھی ہے، حکومتی سطح پر سکیورٹی کونسل بنانے سے اس میں سیاست سے منسلک بھی بہت لوگ آجائیں گے، جس کی وجہ سے اس میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ کرپٹو کو ریگولرائزڈ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ لوگ ملک میں اسے غیرقانونی طور پر اب بھی خرید رہے ہیں، جس کے باعث اسلحے کی خریداری، انسانی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم جنم لے رہے ہیں۔ اس لیے جب اسے قانونی قرار دے دیا گیا تو ان تمام غیرقانونی سرگرمیوں میں بھی کمی آئے گی، کیونکہ جب چیک اینڈ بیلنس ہوگا تو اس کے حوالے سے قوانین بھی ہوں گے، تو یہ تمام جرائم بھی کم ہوں گے۔
’اگر قوانین کا مؤثر نفاذ نہیں ہوتا تو زرمبادلہ ذخائر میں کمی کا خطرہ موجود رہے گا‘کرپٹو ایکسپرٹ ہارون بیگ کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ کرپٹو کرنسیاں ڈالرز میں خریدی جا سکتی ہیں اور جیسا کہ حکومت کرپٹو کونسل بنا رہی ہے، اگر کرپٹو کر ریگولرائز کردیا جاتا ہے تو لوگ بینکوں کے ذریعے اگر کرپٹو خریدتے ہیں تو بینک کو کرپٹو ایکسچینجز کو ڈالر میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی، اس لیے اگر قوانین کا مؤثر نفاذ نہیں ہوتا تو زرمبادلہ کے انخلا کا خطرہ یقینی طور پر پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے خطرات کم ہوتے ہیں، چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے تو پاکستان جیسے ممالک میں زرمبادلہ کے انخلا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر اگر حکومت اس شعبے پر ہر پہلو سے چیک اینڈ بیلنس رکھنے میں ناکام ہوگئی۔
’حکومت اگر کرپٹو سیکٹر کو باقاعدہ طور پر قبول کرلے تو کرپٹو ایکسچینجز جب اپنے دفاتر پاکستان میں کھولیں گے تو اس صورت میں وہ حکومت کو مالی معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، اس طرح نہ صرف ٹیکسیشن اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر ہوگا بلکہ یہ سرمایہ کاری کو بھی فروغ دے سکتا ہے، لیکن اس کا انحصار مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ حکومت کس طرح اس معاملے کو سنبھالتی ہے۔‘
’زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہوسکتی ہے‘معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی میں جو ٹریڈ کررہے ہوتے ہیں، وہ زیادہ تر بائنانس میں اپنے بٹ کوائنز وغیرہ رکھتے ہیں، اور کرپٹو کرنسی میں جتنا بھی لین دین ہوتا ہے وہ ڈالرز میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھی کرپٹو میں ٹریڈ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس شخص کو ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ڈالرز یا تو اوپن مارکیٹ سے خریدے جا سکتے ہیں، یا کہیں سے بھی خریدیں گئے ہوں تو وہ ڈالرز ملکی خزانے سے ہی جائیں گے، یعنی پاکستان سے ہی باہر جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کیا مستقبل ہے؟
انہوں نے کہاکہ جب زرمبادلہ باہر جاتا ہے تو ملک کو نقصان ہوتا ہے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بٹ کوائن پاکستانی حکومت پاکستان زرمبادلہ ذخائر سرمایہ کاری کرپٹو کرنسی کرپٹو کونسل وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بٹ کوائن پاکستانی حکومت پاکستان زرمبادلہ ذخائر سرمایہ کاری کرپٹو کرنسی کرپٹو کونسل وی نیوز زرمبادلہ کے ذخائر میں انہوں نے کہاکہ کا کہنا تھا کہ کے حوالے سے کہ پاکستان پاکستان سے میں کرپٹو کی وجہ سے کرپٹو کو ہوتا ہے سکتا ہے
پڑھیں:
کراچی میں ٹینکرز کے مسائل کی وجہ سندھ حکومت ہے، ارسلان خالد
انصاف ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کراچی کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ پورا پاکستان فارم 47 کے لوگوں وجہ سے مسائل کا شکار ہے، پی ٹی آئی کراچی کو دوبارہ تاریکی میں نہیں جانے دے گی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کراچی میں انصاف ہاؤس میں اہم پریس کانفرنس کی ہے۔ کراچی میں انصاف ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری پی ٹی آئی کراچی ارسلان خالد کا کہنا ہے کہ پورا پاکستان فارم 47 کے لوگوں وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں ٹینکرز کے مسائل کی وجہ ہم سندھ حکومت کو سمجھتے ہیں۔ ارسلان خالد نے کہا کہ ڈی آئی جی ٹریفک کو اس مسئلے کی وجہ ہے مستعفی ہونا چاہیئے۔ سیکریٹری جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کراچی کو دوبارہ تاریکی میں نہیں جانے دے گی۔