زیلنسکی کے ساتھ ہتک آمیز رویہ، نائب صدر کیخلاف امریکی عوام کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
VERMONT, US:
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ جمعہ کو اوول آفس وائٹ ہاؤس میں ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے خلاف امریکی عوام نے مظاہرہ کیا۔
امریکہ میں ورمونٹ کے علاقے ویٹسفیلڈ میں جے ڈی وینس اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سیروتفریح کے لیے آ رہے تھے، احتجاجی مظاہرین نے بھی جے ڈی وینس کے خلاف مظاہرے کے لیے اسی علاقے کا انتخاب کیا جہاں سے نائب صدر کو گزرنا تھا۔
مظاہرین نے یوکرین کے حق میں نعرے اور بینر اٹھا رکھے تھے اور ان کا مقصد وینس اور اس کے خاندان کو پیغام دینا تھا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ سے تلخ کلامی کے بعد یوکرینی صدر کا برطانیہ میں پر تپاک خیر مقدم
امریکی میڈیا کے مطابق مظاہروں کے بعد وینس کا خاندان اپنے متوقع اسکئی ریزورٹ کے بجائے نامعلوم غیر معروف مقام پر منتقل ہو گیا۔
نیویارک، لاس اینجلس اور بوسٹن میں بھی سینکڑوں افراد نے ہفتے کے روز یوکرین کی حمایت میں احتجاج کیا۔
وائٹ ہاؤس کے اندر ہونے والی اس غیر معمولی بات چیت میں وینس نے یوکرائنی صدر پر امریکہ کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا۔ ٹرمپ نے بھی زیلنسکی سے کہا کہ وہ روس کے ساتھ معاہدہ کریں ورنہ ہم پیچھے ہٹ جائیں گے اور انہیں تیسری جنگ عظیم سے کھیلنے کا الزام عائد کیا۔
مزید پڑھیں: یوکرینی صدر کی ٹرمپ سے لڑائی کے بعد برطانوی بادشاہ چارلس سے ملاقات
ویٹسفیلڈ میں ہونے والا احتجاج پہلے ہی اس ہفتے کے شروع میں منظم کیا گیا تھا، لیکن ٹرمپ اور وینس کے ساتھ زیلنسکی کی جھگڑے کے بعد مزید افراد اس میں شامل ہو گئے۔ احتجاج کے منتظمین نے کہا کہ اس واقعے نے لوگوں کو زیادہ جوش دلا دیا ہے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس جو اپنی اہلیہ اُشا اور تین بچوں کے ساتھ ورمونٹ آ رہے تھے، نے ابھی تک ان احتجاجات پر کوئی عوامی بیان نہیں دیا۔
ویٹسفیلڈ میں ٹرمپ اور وینس کے حامیوں کی طرف سے بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جے ڈی وینس کے ساتھ وینس کے کے بعد
پڑھیں:
اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبا کی نگرانی سے انکار، ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.3 ارب ڈالر کی امداد بند
واشنگٹن: امریکا کی معروف اور بااثر ہارورڈ یونیورسٹی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے متنازع مطالبات ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد وفاقی حکومت نے یونیورسٹی کی 2.3 ارب ڈالر کی امداد منجمد کر دی ہے۔
امریکی محکمہ تعلیم کے مطابق، ہارورڈ کی 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹس اور 60 ملین ڈالر کے معاہدے روک دیے گئے ہیں۔ اس اقدام سے ملک کی سب سے امیر یونیورسٹی اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
جمعے کے روز ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کو ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ وہ طلبہ اور اساتذہ کے اختیارات محدود کرے، بیرونِ ملک سے آئے طلبہ کی خلاف ورزیاں رپورٹ کرے اور ہر شعبے پر نگرانی کے لیے بیرونی ادارہ مقرر کرے۔
تاہم ہارورڈ یونیورسٹی نے ان مطالبات کو غیر آئینی اور قانونی اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔
ہارورڈ کے قائم مقام صدر ایلن گاربر نے کہا: “کسی حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ نجی ادارے کو بتائے کہ وہ کیا پڑھائے، کن موضوعات پر تحقیق کرے یا کس کو داخلہ دے۔”
یاد رہے کہ مارچ میں ٹرمپ انتظامیہ نے یہود مخالف رویے روکنے میں ناکامی پر ہارورڈ کی 8.7 ارب ڈالر کی ممکنہ گرانٹس کا بھی جائزہ لینے کا اعلان کیا تھا۔