سپریم کورٹ ،انسانی حقوق یادگار کی معلومات کیلیے درخواست دائر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اسلام آباد:
لاہور ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ کی حدود میں قائم ’’انسانی حقوق یادگار‘‘ کی تعمیراتی لاگت سمیت دیگر معلومات کیلیے درخواست دائر کر دی گئی۔
وکیل ابوذر سلمان نیازی کی دائر درخواست میں رجسٹرار سپریم کورٹ کو مدعا علیہ بناتے ہوئے انھیں معلومات فراہم کرنے کیلیے ہدایات جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے، سماعت آج جسٹس شمس محمود مرزا کریں گے۔
یہ پروجیکٹ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں شروع ہوا۔ درخواست کے مطابق درخواست گزار نے دو مرتبہ معلومات کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ سے رجوع کیا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
درخواست میں پروجیکٹ کے حوالے سے رجسٹرار سے چھ سوالوں کے جواب مانگے ہیں، جن میں پروجیکٹ منظوری کا طریقہ کار،ذمہ دار اتھارٹی اور متعلقہ قانون و ریگولیشن کی وضاحت مانگی گئی ہے جس کے تحت پروجیکٹ کی منظوری دی گئی،
چوتھا سوال پروجیکٹ کا ڈیزائن و آرکیٹکچرل خدمات فراہم کرنیوالی کمپنی اور خدمات کے حصول کے طریقہ کار سے متعلق ہے، آخری سوال پروجیکٹ کا تعمیراتی کام کرنیوالی کمپنی اور کل لاگت سے متعلق ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ
پڑھیں:
’ساتھی ہاتھ بڑھانا‘: چیلسی کے رہائشیوں کا ہزاروں کتابیں شفٹ کرنے کا انوکھا طریقہ
امریکی ریاست مشی گن کے ایک چھوٹے سے شہر چیلسی کے ہر عمر کے رہائشیوں نے علاقے کی ایک کتب فروش کی دکان کی شفٹنگ میں انوکھے انداز میں مدد کی۔
یہ بھی پڑھیں: گھر کے نیچے کئی کمرے اور سرنگیں برآمد، مالک حیران رہ گیا
انہوں نے ایک انسانی زنجیر بنائی اور کتب فروش کو اپنی 9،100 کتابوں کو ایک ایک کرکے کچھ فاصلے پر واقع ایک نئے اسٹور میں منتقل کرنے میں مدد کی جس سے دکان کی مالکن کا پیسہ اور وقت دونوں بچ گئے۔
تقریباً 300 افراد پر مشتمل وہ ’بک بریگیڈ‘ اپنے علاقے کے مرکز چیلسی میں ایک فٹ پاتھ کے ساتھ 2 لائنوں میں کھڑی ہوئی اور پھر اس نے کتابوں کی دکان Serendipity Books کے سابقہ مقام سے ہر کتاب کو ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہوئے براہ راست نئی عمارت میں موجود شیلفس پر قرینے سے سجایا۔
اسٹور کی مالک مشیل ٹوپلن نے کہا کہ کتابوں کو منتقل کرنے کا یہ ایک عملی طریقہ تھا لیکن یہ ہر ایک کے لیے حصہ لینے کا ایک طریقہ بھی تھا۔
مشیل ٹوپلن نے کہا کہ جب لوگ کتابیں ایک دوسرے کو پاس کر رہے تھے تو اکثر نے کچھ کتابیں دیکھ کر کہا کہ ارے یہ تو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اور بھی اچھا ہوا کیوں کہ اب لوگ ان سے وہ کتابیں خرید کر لے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام کتابوں کو پرانی دکان سے نکال کر نئی دکان کے شیلفس تک پہنچانے میں صرف 2 گھنٹے صرف ہوئے۔
مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
مشیل ٹوپلن نے کہا کہ اگر وہ کسی کمپنی کی خدمات ہائر کرتیں تو وہ کتابوں کو پہلے ڈبوں میں پیک کرتی پھر نئی دکان جاکر ان کو ان پیک کرتی جو ایک وقت طلب کام ہوتا اور پیسے بھی خرچ ہوتے لیکن ان کے علاقے کے لوگوں نے بڑے آرام سے وہ ہزاروں کتابیں حروف تہجی کی ترتیب سے نئی دکان کے شیلفس پر رکھ دیں۔
اب مشیل ٹوپلن کو امید ہے کہ نئی جگہ 2 ہفتوں کے اندر کھل جائے گی۔
کتابوں کی دکان 1997 سے ڈیٹرائٹ سے تقریباً 95 کلومیٹر مغرب میں چیلسی میں ہے۔ مشیل ٹوپلن سنہ 2017 سے مالک ہیں اور اس کے 3 جز وقتی ملازمین ہیں۔
چیلسی کے انسان دوست رہائشیتقریباً 5،300 لوگ چیلسی میں رہتے ہیں اور ان رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پڑوسی پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں۔
یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور لوگ واقعی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟
ایک رہائشی 32 سالہ کیسی فریس کا کہنا ہے کہ اس قصبے میں آپ کہیں بھی جائیں آپ کو جو ملے گا وہ آپ کا جاننے والا ہی ہوگا اور آپ سے حال احوال دریافت کرے گا۔
کیسی فریس نے کہا کہ اس ’بک بریگیڈ‘ کا کارنامہ اس بات کا ثبوت پہے کہ وہاں کے رہائشی کتنے خاص لوگ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا چیلسی چیلسی کے شاندار رہائشی کتابوں کی شفٹنگ مشی گن