مصنوعی ذہانت کیا کمال دکھا رہی ہے ۔ اس کا حال ہی میں ایسا ثبوت سامنے آیا ہے کہ برطانوی سائنسدان بھی اس کے کرشمے پر حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔
برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ طبی ادارے امپریل کالج لندن سے وابستہ طبی ماہر اس بات پر تحقیق کر رہے تھے کہ اینٹی بائیو ٹیکس کچھ ناقابل علاج امراض پر اثر کیوں نہیں کرتیں۔ وہ اس تحقیق میں پچھلے بارہ برس سے مصروف تھے لیکن پچھلے ہفتے پروفیسر جوز نے گوگل کے نئے آئی ٹی تحقیقی ٹول 'سائنٹسٹ کو' سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو پروفیسر اور دیگر سائنسدان یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہ بارہ سال طویل تحقیق کے بعد جن نتائج پر پہنچے تھے وہی 'کوسائنٹسٹ ' نے صرف2دن میں نکال دیے ۔
ایک طرف ترقی یافتہ دنیا اے آئی کے میدان میں زقندیں ماررہی ہے تو دوسری طرف آپ دیکھیں افغانستان میں کیا ہورہا ہے ۔ وہاں گھروں کی کھڑکیوں کو تختے لگا کر بند کیا جارہا ہے تاکہ عورتیں گھر سے باہر نہ جھانک سکیں ۔ نئے گھروں میں بڑی کھڑکیاں بنانے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ اس طرح انھیں مزید قید کیا جارہا ہے جو پہلے ہی حالت قید میں ہیں ۔ 6سال سے زیادہ عمر کی بچی اسکول نہیں جا سکتی ۔ کیونکہ طالبان کو اس میں ایک عورت نظر آتی ہے ۔
ان کی باریک بینی کا اندازہ لگائیں اور اس کی داد دیں ۔ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک فحاشی اور بے حیائی ہے ۔ ان کے دماغوں میں عورت بس ایک جنس کا نام ہے ۔ چاہے وہ کمسن بچی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان کا دماغ اسے بہن یا بیٹی کے روپ میں قبول نہیں کرسکتا ۔
افغانستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو جن حالات کا سامنا ہے یقیناً دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ افغانستان میں خواتین کو ان بدترین حالات میں مبتلا کرنے والا صرف اور صرف امریکا اور اس کا پالا ہوا، انتہاپسند طبقہ ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ جاتے جاتے مفت میں ہی تخت کابل ان طالبان انتہاپسندوں کے حوالے کرگیا۔ جب افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا ، میں شائد واحد قلم کار تھا جو اس بات کی مسلسل نشاندہی کررہا تھا کہ یہ انخلاء ایک ڈیل کے تحت ہوا ہے ۔
طالبان کو اقتدار اس ڈیل کے تحت ملا ہے۔ حال ہی میں اس کا انکشاف صدر ٹرمپ کے اس مطالبے پر ہوا، جس میں انھوں نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ انھیں دیا گیا، امریکی اسلحہ واپس کریں۔ ابھی تو افغان طالبان نے یہ اسلحہ واپس کرنے سے انکارکردیا ہے جس کی مالیت 7ارب ڈالر ہے کیونکہ انھوں نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے ۔اس طرح آخر کار اس ڈیل کا بھانڈا پھوٹ گیا جس پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہوئی تھی ۔ردعمل میں صدر ٹرمپ نے افغانستان کو دی جانے والی وہ خیرات معطل کردی جو 60ملین ڈالر ہفتہ وار پر مشتمل تھی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ یہ سودی امداد معطل ہونے سے افغانستان میں مہنگائی میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے اور غربت مزید بڑھ گئی ہے ، افغانستان کی نصف آبادی جو پہلے ہی سے غربت کا شکار ہے اب اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ اب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں ۔ آج کا افغانستان اور اس سے ملحقہ وسط ایشیاء علاقے ہمیشہ سے برصغیر پاک وہند کے زرخیز خطے کی مرہون منت رہے ہیں۔
برصغیر پاک وہند کا زرخیز خطہ صدیوں سے وسط ایشائی علاقے کے لوگوں کو غلہ، کاٹن اور دیگر اشیاء مہیا کرتا رہا ہے ۔ وسط ایشیا میں ہونے والی مقامی اقتداری جنگ ہمیشہ برصغیر تک پہنچی ہے، اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں اقتدار کی لڑائیوں میں حکمران درباریوں کا ایک طاقتور گروپ ہمیشہ وسط ایشیاء و ایران کے حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کرکے انھیں مدد کے لیے بلاتا رہا ہے ، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔
یہ حملہ آور مقامی سہولت کاروں کے تعاون سے آتے رہے ، ان حملہ آوروں کے مقامی اتحادی برصغیر پاک و ہند میں اقتدار حاصل کرتے رہے اور معاوضے میں غیرملکی حملہ آور اربوں کھربوں کا مال و دولت لوٹ کر واپس جاتے ہیں۔ اب تقریباً دو سو برس سے یہ سہولت ختم ہوچکی ہے، البتہ سرد جنگ کے فائنل راونڈ میں سوویت یونین اور امریکا و اتحادیوں کے درمیان افغانستان میں جو معرکہ ہوا، اس کے نتیجے میں ڈالروں کی فراوانی ہوئی تو پرانی امنگ دوبارہ جاگ گئی ہیں۔اب ان خوارجی دہشتگردوں کے مقامی سہولت کار، مددگار ، ہمدرد جو ہمارے شہروں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ خوارج پاکستان پر قبضہ کرکے انھیں دوبارہ اقتدار پر بٹھائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان میں برصغیر پاک
پڑھیں:
افغان طالبان نے امریکی فوج کے چھوڑے گئے 5 لاکھ ہتھیار دہشتگرد گروپوں کو فروخت کر دیے، برطانوی میڈیا کا دعویٰ
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی فوج کے چھوڑے گئے قریباً 5 لاکھ ہتھیاروں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، جن میں سے بڑی تعداد دہشتگرد گروپوں کو بیچ دی گئی یا اسمگل کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ اسلحہ القاعدہ سے منسلک تنظیموں تک بھی پہنچ چکا ہے اور اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ افغانستان میں القاعدہ سے وابستہ گروپ امریکی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی اسلحہ بلوچستان میں استعمال ہورہا ہے، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز
بی بی سی کا کہنا ہے کہ طالبان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کو اعتراف کیا ہے کہ امریکی فوجی ساز و سامان میں سے کم از کم نصف کا حساب دینا ممکن نہیں رہا۔ سلامتی کونسل کی کمیٹی کے ایک اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں قریباً 5 لاکھ کے قریب امریکی فوجی ساز و سامان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
رپورٹ کے مطابق طالبان نے 2021 میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد قریباً 10 لاکھ سے زائد ہتھیار اور فوجی ساز و سامان قبضے میں لے لیا تھا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان کر دیا
دوسری جانب طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور دہشتگردوں کو فروخت کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت ہتھیاروں کے تحفظ اور ذخیرہ کرنے کے معاملے کو نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے اور تمام ہلکے اور بھاری ہتھیار مکمل محفوظ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلحہ افغانستان القاعدہ امریکا برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی دہشتگردی طالبان کابل