تحریک تحفظ آئین پاکستان رہنماؤں نے کہا ہے کہ جب تک آئین کی حکمرانی نہیں ہوگی ملک نہیں چل سکتا۔ ملک غلط حکمرانوں کے ہاتھ میں آ کر بحران میں گھرا ہوا ہے ہم خوشامد پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں اس وقت ملک کے عوام کنفیوژ ہیں اور ملک میں اس وقت دھونس، دھاندلی اور فریب کا نظام قائم ہے اور ہمیں اس نظام کو ختم کرنا ہے۔
حکمران ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں، ان رہنماؤں نے اپنے ان خیالات کا اظہار مزار قائد پر حاضری اور میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ اس گفتگو میں حکومت پر الزامات لگائے گئے اور عوام کو آزادی دلانے کے عزم کا اظہار کیا گیا مگر کسی بھی رہنما نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا اور کہا کہ ہمیں اقتدار کی کوئی ہوس نہیں ہے ملک میں سب کچھ آئین کے مطابق ہوگا تب ہی پاکستان ترقی کی طرف آ سکتا ہے ہم آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ حکومت ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار حلقے یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے اور موجودہ حکومت کے ایک سال میں ملک ترقی کی راہ پر آگیا ہے ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے، ترقی پاکستان کا مقدر بن چکی ہے اب خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔
اپوزیشن کے رہنماؤں کے مطابق عوام کنفیوژ اور ملک میں آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں اور اسی لیے محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں تحریک تحفظ آئین قائم ہوئی ہے مگر انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ 26 ویں ترمیم سے قبل کا آئین چاہتے ہیں یا بعد کا۔ ملک میں حکومت نے آئین میں جو ترمیم کی تھی تحریک تحفظ آئین اسے مسترد بھی کر چکی ہے مگر 26 ویں ترمیم کے نتیجے میں بنائے گئے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات بھی کرتے ہیں جس میں چیف جسٹس نے انھیں سسٹم میں رہ کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ عوام واقعی کنفیوژ ہیں کہ یہ کیسی اپوزیشن ہے جو 26 ویں ترمیم ختم کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہے اور ترمیم کو نہیں مانتی اور ترمیم کے تحت پارلیمانی معاملات میں بھی شریک ہوتی ہے۔
سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے شاہد خاقان عباسی جو پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی اپوزیشن کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں، نے کہا کہ اپوزیشن میں اختلافات موجود ہیں کیونکہ تحریک انصاف کا ایجنڈا اپنے بانی کی رہائی ہے مگر ہماری کنٹینر پر جانے کی کوئی سوچ نہیں ہے۔ سینیٹر فیصل واؤڈا کا کہنا ہے کہ گرینڈ الائنس میں شامل تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں۔ سیاستدان بے ایمان اور چور ہیں۔
سمجھوتے کے تحت بانی تحریک انصاف کو جیل میں رکھا ہوا ہے اور پی ٹی آئی ویسے بھی چاہتی ہے کہ بانی جیل میں رہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی میں شدید اختلافات اور گروپنگ موجود ہے اور اس کے بعض رہنماؤں کے بیانات سے یہ صاف ظاہر ہے اور سب بظاہر بانی کی رہائی بھی چاہتے ہیں اور ایک دوسرے پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مفاداتی سیاست کے لیے نہیں چاہتے کہ بانی رہا ہوں اور ان کی سیاست ختم ہو جائے۔
پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت پارٹی میں نئے آنے والے وکلا رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جس پر سینئر رہنماؤں کے تحفظات بھی ہیں مگر وہ بانی کی ناراضگی کے خوف سے اس کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ان میں اتنی جرأت ہے کہ بانی سے ملاقات میں اس کا ان سے اظہار کریں۔ پی ٹی آئی رہنما ایک دوسرے پر یہ الزام بھی لگا چکے ہیں کہ وہ بانی سے ملاقات میں انھیں گمراہ کرتے ہیں، چغلیاں لگائی جاتی ہیں اور بانی کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے بانی سے ایک دوسرے کی شکایتیں کی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئیکے کچھ رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی میں بعض رہنما خود بانی کی رہائی نہیں چاہتے تاکہ ان کی منفی سیاست چلتی رہے۔
عوام واقعی حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات پر کنفیوژ ہیں کیونکہ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے، غلط بیانیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مطابق حکومت غلط ہاتھوں میں ہے اور آئین پر عمل نہیں کر رہی۔ حکومتی رہنماؤں اور وزیر اعظم کے مطابق ملک محفوظ اور ایسے ہاتھوں میں ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرچکے ہیں جب کہ پی ٹی آئی غلط ہاتھوں میں ہے جو ملک کی ترقی نہیں چاہتی اور اپنی احتجاجی سیاست سے ملک کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتی ہے مگر حکومتی اتحادی پی ٹی آئی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ موجودہ حکومت نے اپنی ایک سال کی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کرنا شروع کر دیا ہے اور حکومت کے اتحادی واضح کر رہے ہیں کہ 26 ویں ترمیم آئین کے مطابق ہوئی ہے جس میں جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن کی مشاورت سے ہوئی جو حکومت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا حصہ ہیں۔
مولانا کے بھی فروری کے انتخابات پر تحفظات ہیں مگر وہ پی ٹی آئی جیسے الزامات حکومت پر نہیں لگا رہے۔ غیر جانبدار حلقوں کے بھی فروری کے انتخابی نتائج پر تحفظات ضرور ہیں مگر وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ملکی معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کی طرف سے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جا رہا ہے جس میں نئے رہنماؤں کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے جس کی مثال 26 نومبر کی ہلاکتوں پر بولا جانے والا جھوٹ ہے جس میں ہر رہنما نے ہلاکتوں کی تعداد مختلف بتائی تھی جس پر حکومت ثبوت مانگتی رہی جو دینے میں پی ٹی آئی اب تک ناکام ہے۔
حکومت 26 ویں ترمیم لانے کی وجہ بھی پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کو قرار دیتی ہے جس کی وجہ سے آئین میں ترمیم آئینی طریقے سے آئی اور عدالتی نظام بہتر بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں بحران تھا جو اب ختم ہو چکا ہے اور ملک بہتری کی طرف گامزن ہے جو پی ٹی آئی سے برداشت نہیں ہو رہا اور اس کی طرف سے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش جاری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئین کی حکمرانی ہاتھوں میں ہے رہنماؤں کے ویں ترمیم چاہتے ہیں ایک دوسرے پی ٹی آئی کی رہائی حکومت کے کے مطابق ہیں اور رہے ہیں بانی کی ملک میں اور ملک ہے مگر ہیں کہ آئی کی کی طرف ہے اور اور اس
پڑھیں:
پاکستان: روزانہ 675 بچوں کی صحت کے قابل علاج مسائل کے ہاتھوں موت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 اپریل 2025ء) پاکستان میں روزانہ 27 مائیں اور ایک ماہ سے کم عمر کے 675 بچے صحت کی قابلِ انسداد پیچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں جس پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اموات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔
ان اموات کی روزانہ تعداد کا مطلب ہے کہ ہر سال 9800 سے زائد مائیں اور 246,300 نوزائیدہ بچے صحت کے قابل تدارک مسائل کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں ہر سال 190,000 سے زائد مردہ بچوں کی پیدائش کا اندراج ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے بین الاقوامی اور قومی شراکت داروں کو پاکستان میں زچہ و بچہ کی صحت میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نا صرف پاکستان بلکہ پورے خطّے کی خوشحالی کے لئے نانگزیر ہے۔(جاری ہے)
حالیہ پیش رفت
پاکستان نے گزشتہ برسوں کے دوران نمایاں پیش رفت کی ہے۔
تازہ ترین دستیاب اعدادوشمار کے مطابق زچگی کی شرح اموات 2006 میں ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 276 اموات سے کم ہو کر 2024 میں 155 تک آ گئی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بھی 2006 میں ہر ہزار زندہ پیدائشوں پر 52 اموات سے کم ہو کر 2024 میں 37.6 ہو گئی ہے، جبکہ مردہ پیدائشوں کی شرح 2000 میں ہر ہزار پیدائشوں پر 39.8 سے کم ہو کر 2024 میں 27.5 ہو گئی ہے۔پاکستان نے ڈبلیو ایچ اواور شراکت داروں کی مدد سے ملک بھر میں ماؤں اور نوزائیدہ بچوں میں تشنج (ایم این ٹی) کے خلاف بھی اہم پیش رفت کی ہے۔
پاکستان کی تقریبا 80 فیصد آبادی (19 کروڑ افراد) اب ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں نوزائیدہ بچوں میں تشنج کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا گیا ہے، اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر 1000 زندہ پیدائشوں پر اوسط ایک سے بھی کم تشنج کے مریض سا منے آ تے ہیں۔ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نے مارچ 2025، سندھ نے دسمبر 2024، اور پنجاب نے 2016 میں اس بیماری کا خاتمہ کیا۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس حوصلہ افزا پیش رفت کے باوجود 2030 کے لیے عالمی پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) حاصل کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ جس میں زچگی کی شرح اموات کو ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 70 اموات اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کو ہر ایک ہزار پیدائشوں پر 12 اموات تک کم کرنا شامل ہے۔
ان اہداف کے حصول کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ خواتین کی طویل المدتی صحت اور فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جائے، جس میں جنسی اور تولیدی صحت کی سہولیات تک مؤثر رسائی، معیاری قبل از پیدائش نگہداشت، پیدائش کے دوران جان بچانے والی سہولیات، اور نوزائیدہ بچوں کی فوری دیکھ بھال شامل ہیں مثلا دودھ پلانے میں مدد، چوٹوں اور انفیکشن سے تحفظ، اور ضروری غذائی سہولیات کی فراہمی۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بالواسطہ وجوہات جیسے کہ خون کی کمی (انیمیا) کا مؤثر انداز میں حل نکالا جائے جو پاکستان میں تولیدی عمر کی 41.7 فیصد خواتین (15 سے 49 سال کی عمر) کو متاثر کرتی ہے.اور دائیوں پر مبنی نگہداشت کے طریقہ کار، ذہنی صحت، خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی، تعلیم، اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ خواتین کو اپنی اور اپنے خاندان کی صحت سے متعلق باخبر فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو۔
ہر 1 امریکی ڈالر جو زچہ و بچہ کی صحت میں پر خرچ کیا جاتا ہے، اس سے 9 سے 20 امریکی ڈالر تک کا منافع متوقع ہوتا ہے۔ زچہ و بچہ کی صحت پر خرچ کرنا انسانی سرمایہ پر سرمایہ کاری ہے جو اقتصادی ترقی اور خوشحال و صحت مند معاشروں کی جانب لے جاتا ہے۔