یوکرین، عالمی طاقت کا یوٹرن
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یو کرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات تلخ کلامی میں بدل گئی۔ روس کے ساتھ جنگ بندی پر دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر سخت الزامات لگائے۔ اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی تلخ گفتگو کے سامنے آجانے سے ایک واضح عالمی اصول کی حقیقت دنیا کے سامنے پھر آشکار ہوئی ہے کہ بڑی طاقت کے مفادات جب تبدیل ہوجائیں تو پھرکمزور ملک خواہ اتحادی ہو یا مخالف کیمپ سے تعلق رکھتا ہو وہ یکساں طور پر بڑی طاقت کے ہاتھوں سرد مہری، ناروا سلوک اور لاتعلقی کا شکار ہوجاتا ہے۔
یوکرین کی روس کے خلاف جنگ کے دوران امریکا اور صدر بائیڈن نے نہ صرف یوکرین کا سرپرست اور اتحادی بن کر اربوں ڈالرزکے ہتھیار، امداد، عالمی حمایت فراہم کرکے روس کے خلاف جنگ کو جاری رکھا کیونکہ امریکی مفادات کا یہی تقاضا تھا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی امریکا کی نظر میں آزادی کے ہیرو اور امریکا میں مقبول تھے لیکن 20 جنوری کو ری پبلکن صدر ٹرمپ کی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی امریکی مفادات کے تقاضے تبدیل ہوگئے تو روس کے صدر پیوتن سے مذاکرات ہونے لگے اور صرف چار ہفتے کے عرصے میں روسی صدر پیوتن سے امریکی ڈائیلاگ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے وہائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس سے جو تلخ گفتگو ہوئی اس کے وائرل ہونے سے دیگر اقوام کے لیے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ بڑی طاقتوں کے اتحادی بن کر اُن کے مفادات کے لیے اپنے ملکی اور قومی مفادات کی قربانی دینے والوں کو بالٓاخر بڑی طاقت کے ہاتھوں لاتعلقی، بحران اور تنزلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے مابین ہونے والی اس دھواں دھار ملاقات پرکینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک صدر زیلنسکی کی حمایت میں بول پڑے ہیں اور کہا ہے کہ یوکرین کو اکیلا نہ سمجھا جائے۔ یہ ساری باتیں ظاہر ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں اور اس معاملے میں اگر اختلافات بڑھ گئے تو امریکا کی یوکرائن کے لیے حمایت میں واضح کمی ہو گی اور تیسری عالمی جنگ کے برپا ہونے کی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپی یونین کو پہلے ہی بہت بے چین کر رکھا ہے۔
یوکرین کے معاملے میں امریکی انتظامیہ کی یک رخی پالیسیاں مذکورہ بالا تمام ممالک کے صبرکے اونٹ پر آخری تنکا ثابت ہو سکتی ہیں۔ کسی معاملے میں حالات کس طرح پلٹا کھاتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا میں انتظامیہ یا حکومت کی تبدیلی کے بعد یوکرین روس جنگ کا پورا منظر نامہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کہاں اس بات پر مذاکرات ہو رہے تھے کہ روس اور یوکرین، دونوں جنگ بندی پر رضامند ہو جائیں اور کہاں اب جنگ شروع کرنے اور حالات کو موجودہ نہج تک پہنچانے کا سارا ملبہ یوکرین پر ڈالا جا رہا ہے، حالانکہ یوکرین کو روس کے خلاف کھڑا کرنے اور اسے ہلا شیری دینے کے ذمے دار نیٹو، یورپ اور امریکا تینوں ہیں۔ ان تینوں نے ہی یوکرین کے صدر کو کہا تھا کہ وہ روس کے خلاف ڈٹ جائیں تو ان کی ہر طرح سے مدد کی جائے گی۔
سوویت یونین کا بچ جانے والا حصہ یعنی روس یوکرین کو اب بھی اپنا ماتحت رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی خواہش ہے جس نے حالات اس نہج تک پہنچائے۔ 2022ء تک یعنی جنگ سے پہلے تک کی صورتحال یہ تھی کہ یو کرین کے صدر (ولادیمیرزیلنسکی) اپنے ملک کو نیٹو کا رکن بنانا چاہتے تھے جب کہ روس ان کے اس فیصلے یا خواہش کے خلاف تھا۔ روس کا موقف تھا کہ یوکرین نیٹو کا رکن بنتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ امریکا اور نیٹو روس کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین اس تنازع میں یو کرین کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
یوں روس اور یوکرین کے مابین تناؤ اورکشیدگی میں اضافہ ہونے لگا۔ روس یوکرین کو روس اور یورپ کے نیٹو ممالک کے مابین ایک بفر ریاست سمجھتا ہے۔ ان حالات میں زیلنسکی کے یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کے اصرار پر روس کے کان کھڑے ہونا قدرتی امر تھا۔ روس نے ان خدشات کے پیشِ نظر ہی آج سے کم و بیش تین سال پہلے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ روسی قیادت کو یقین تھا کہ چند روز میں یوکرینی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کر لیں گے، لیکن یورپ اور امریکا کی جانب سے یوکرین کی ہر طرح سے مدد روسی قیادت کی اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ امریکا کی جانب سے یوں تو یوکرین کی مدد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں پھر بھی ثبوت کے طور پر امریکا کے سابق ترجمان برائے قومی سلامتی جان کِربی کا ایک بیان پیش کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے اپنے دور میں کہا تھا کہ امریکا رواں سال یوکرین کو فنڈنگ ختم ہونے سے پہلے ایک اور امدادی پیکیج فراہم کرے گا۔ نیدرلینڈز نے بھی یوکرین کو 18 ایف 16 جنگی طیارے دینے کا اعلان کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کو امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین مسلسل امداد فراہم کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ یوکرین اب تک روس کے سامنے ڈٹا ہوا تھا، لیکن اب ساری صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ امریکا میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے اور نئے صدر ٹرمپ کی اپنی پالیسیاں اور اپنے منفرد منصوبے ہیں جن میں یوکرین روس جنگ فٹ نہیں بیٹھتی، چنانچہ وہ یوکرین کے درپے ہیں۔ ایک بہت ہی اہم سوال! موجودہ حرکیات کے ساتھ، روس یقیناً صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔
یہاں کچھ ممکنہ طریقے ہیں۔ روس امریکا اور یورپ میں سمجھی جانے والی غیر یقینی صورتحال اور ممکنہ تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، یوکرین میں تنازعہ کو بڑھا سکتا ہے روس یورپ کو توانائی فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے۔ یہ یورپی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی توانائی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، خاص طور پر وہ جو روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ روس اپنے مفادات اور ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے امریکی اور یورپی قیادت کے اندر کسی بھی سمجھی جانے والی تقسیم یا کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ روس مشرقی یورپ اور بحیرہ اسود کے علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھ سکتا ہے، ممکنہ طور پر امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے عزم اور اتحاد کی آزمائش کر رہا ہے وہ عوامل جو روس کے اقدامات کو متاثر کر سکتے ہیں نئی انتظامیہ کے تحت امریکی پالیسی کی سمت روس کے اقدامات کا تعین کرنے میں اہم ہوگی۔
یورپی ممالک کے درمیان اتحاد اور عزم کی سطح روس کے حساب کتاب کو بھی متاثر کرے گی۔ روس کی اقتصادی صورتحال، بشمول پابندیوں اور توانائی کی قیمتوں کے اثرات بھی اس کے اقدامات کی تشکیل میں کردار ادا کریں گے۔ مجموعی طور پر، صورت حال پیچیدہ ہے، اور روس کے اقدامات مختلف عوامل پر منحصر ہوں گے۔ٹرمپ پر روس کا اعتماد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جب کہ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے اگر کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے تو یہ پوتن پر اعتماد کا اظہار ہوگا، روس کی پوزیشن زیادہ اہم ہے۔ فتح کے لیے روس کی حکمت عملی اس کے کنٹرول سے باہر ہونے والے عمل پر منحصر ہے، جس کی وجہ سے پوتن کے لیے ٹرمپ یا کسی اور پر اعتماد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر ٹرمپ کی پالیسیاں روس کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں تو اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، عالمی سیاست اور معیشت کے لیے اہم ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور پوتن کی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ توانائی کی ضروریات، تیل کی ترسیل، اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا ہوگا۔
یوکرین کو ٹرمپ اچانک بیچ منجھدار نہیں چھوڑ رہے دراصل وہ چاہتے ہیں کہ امریکا سے امداد کی صورت میں اربوں ڈالر کا جو اسلحہ اور ہتھیار یوکرین کو دیا گیا اُس کے عوض زیلنسکی امریکا کو منافع اب کچھ فائدہ بھی دیں ٹرمپ کی نظر یوکرین کی قیمتی معدنیات پر ہے مگر ٹرمپ کا یہ انداز کسی صورت یوکرین کے مفاد میں نہیں تھا۔
زیلنسکی کی مقبولیت میں چار فیصد کمی اور ملک میں انتخابات کا مطالبہ ہی تازیانے سے کم نہ تھا کہ پوتن سے ٹیلیفونک گفتگوکے بعد ٹرمپ نے رواں برس مئی میں روس کے دورے کا عندیہ دیدیا ہے یہ عندیہ بھی دباؤ کا ایک حربہ ہے جو زیلنسکی کے سیاسی کردار کے خاتمے اور چھینے گئے علاقوں سے یوکرین کی ہمیشہ کے لیے محرومی پرمنتج ہوسکتا ہے۔ روس کو امریکا اپنا احسان مند بناکر چین سے فاصلہ رکھنے کی فرمائش کے قابل ہوجائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور یوکرین کے یوکرین کے صدر صدر زیلنسکی روس کے خلاف امریکا میں زیلنسکی کے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور کے اقدامات کے درمیان اور یورپی کہ یوکرین یوکرین کو امریکا کی یوکرین کی کہ امریکا تبدیل ہو فراہم کر اور یورپ بڑی طاقت ممالک کے ٹرمپ اور ٹرمپ کی سکتا ہے تھا کہ رہا ہے روس کی کے لیے
پڑھیں:
نادر شاہ اور ٹرمپ
دنیا کا نظام بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کی حکومت امریکا اور دنیا پرگہرے نقوش چھوڑتی نظر آرہی ہے۔ یوکرین اور زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ یوکرین، دنیا کی ایک مضبوط طاقت روس سے نبرد آزما تھا اور یوکرین کے ساتھ امریکا اور پورا یورپ کھڑا تھا مگر ٹرمپ صاحب کے چار جملوں نے یوکرین اور زیلنسکی پر جیسے میزائل داغ دیے، شاید ایسا نقصان یوکرین کو روس کے ساتھ تین سال جنگ میں بھی نہ ہوا۔
زیلنسکی سے پہلا سوال ٹرمپ نے یہ کیا کہ انھوں نے اب تک انتخابات کیوں نہیں کرائے؟ اور یہ بھی کہا کہ وہ جمہوری نظام سے نکلا ہوا ایک آمر ہے۔ یوکرین کی جنگ کے حوالے سے امریکا کے ساتھ روس کے ساتھ مذاکرات، سعودی عرب میں ہوچکے ہیں جب کہ ان مذاکرات میں یو کرین فریق نہیں ہے۔
ان مذاکرات میں یو کرین کو فریق نہ بنانا نفسیاتی اعتبار سے ان کو جھکانے کے برابر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیوتن کو یہ جنگ جیتنے میں تین سال لگے اور اب وہ اپنی مرضی سے جنگ بندی کا اعلان کریں گے۔ بائیڈن کے دورِ حکومت میں یو کرین کو امریکا سے بھاری امداد بھی ملی اور اسلحہ بھی۔ پورا یورپ یوکرین کے ساتھ تھا اور چین روس کے ساتھ۔
تقریبا تین صدیاں قبل نادر شاہ افشار ایران کا بادشاہ تھا۔ اس کی بہت بڑی سلطنت تھی۔ دہلی پر محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ نادر شاہ کو ہندوستان فتح کرنے سے کوئی سروکار نہ تھا، بس اس کو دلی کی دولت درکار تھی۔
مورخ یہ لکھتا ہے کہ نادر شاہ کی دلی پر چڑھائی، دنیا کی سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔ نادر شاہ نے نہ صرف دلی کو لوٹا بلکہ ہندوستان کا بیش قیمت ہیرا کوہِ نور بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ بعد ازاں یہ ہیرا رنجیت سنگھ کی شان بنا اور رنجیت سنگھ کے بعد انگریز سامراج کے آنے کے بعد یہ ہیرا برطانیہ کی ملکہ کے تاج کی زینت بنا اور آج تک انھیں کے قبضے میں ہے۔ نادر شاہ کی پالیسی کے خدوخال، ٹرمپ سے ملتے جلتے ہیں۔ ایران اس وقت کی سپر پاور تھا اور امریکا آج کا سپر پاور ہے۔
سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کی حا لت خراب ہوئی، جس طرح ہمایوں نے 1542 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد عمرکوٹ میں پناہ لی، ہمایوں کو عمرکوٹ میں راجپوتوں نے پناہ دی ۔ جہاں عمرکوٹ قلعہ میں اکبر بادشاہ پیدا ہوا، وہ صرف گیارہ سال کی عمر میں دلی کے تخت پر بیٹھا، اکبر نے ہندوستان میں رواداری کی روایت ڈالی۔
اکبر ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس نے عام رعایا میں مقبولیت حاصل کی۔ اکبر بادشاہ کے دور میں ہندو و مسلم عداوتیں کم ہوئیں، مگر ہندوستان پر راجپوتوں اور ٹھاکروں کی مخصوص ذہنیت ہمیشہ غالب رہی۔ نریندر مودی نے نادر شاہ کی ہندوستان پر چڑھائی اور ڈکیتی کا الزام بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر لگا دیا اور اب وہ ان تمام آثارِ قدیمہ اور نقوش کو ہندوستان سے مٹانا چاہتا ہے جو مسلمان حکمرانوں سے منسلک ہیں مگر انتخابات میں ہندوستان کے عوام نے گاندھی کی سیکیولر ازم کو ترجیح دی۔ اب ہیں امریکا میں ٹرمپ اور ہندوستان میں مودی۔
دلی سے ایچ ٹی سورلے یہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو کو نادر شاہ نے یہ پیغام بھجوایا کہ اتنا خراخ دے اور بطور ضمانت اپنا بیٹا غلام شاہ کلہوڑو ان کے حوالے کردے بہ صورتِ دیگر نادر شاہ سندھ پر حملہ کردے گا۔ غلام شاہ کلہوڑو، نادر شاہ کے پاس مغوی رہا اور سندھ کے بادشاہ نور محمد کلہوڑو اپنے بیٹے کے عوض نادر شاہ کو برابر تاوان بھیجتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی حیات تھے۔
تاریخ کے ان صفحوں کو پلٹ کر میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ نادر شاہ کے بعد سے لے کر اب تک یہ دنیا بدلی نہیں۔ پہلے چنگیز خان تھا، نادر شاہ تھا، ہٹلرصاحب اس دنیا پر مسلط ہوئے جوکہ ایک بہت ہی مختلف آمر تھا اس کے بیج جمہوریت سے تھے اور پھر اس بات کی تصدیق مورخ کرے گا کہ یوکرین کا زیلنسکی آمر تھا یا پھر پیوتن؟ اور اگر بات کی جائے امریکا کی ، تو امریکی تاریخ میں سب سے انوکھے صدر جو آئے ہیں وہ ہیں صدر ٹرمپ! صدر ٹرمپ کا پہلا دورگزرگیا، مگر اس دورحکومت میں یعنی صرف ڈیڑھ مہینے میں جس طرح کے آرڈر وہ پاس کر رہے ہیں، امریکی مبصرین کو امریکا کی جمہوریت سے ایک آمر ابھرتا نظر آ رہا ہے۔
یہ ہے کیپٹل ازم نظام میں پنپتی جمہوریت کا عالم اور قصور جمہوریت کا نہیں کیپٹل ازم نظام کا ہے۔ جس کو لالچ یا پھر بزنس کی زبان میں پرافٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ انسانی ذہانت کے درپردہ یہ ہے اس دنیا کی شکل۔ امریکا کے اندر اس وقت ایلون مسک جیسے لوگوں کا راج ہے۔
ایلون مسک نے ٹیکنالوجی اور سائنس میں جو کمالات دکھائے ہیں وہ الگ لیکن منافع کمانے کے لیے لالچی سوچ جو وہ رکھتے ہیں، اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی جریدہ اکانومسٹ یہ لکھتا ہے کہ امریکا میں ٹرمپ حکومت بہت سی انڈر ڈیل کرسکتی ہے۔ ہم جیسے ممالک اور ہمارے سیاستدان بھی انڈر ڈیلزکرتے ہیں، واشنگٹن میں لابنگ کرتے ہیں۔ یہ ہے جدید دور میں نادر شاہ جیسی ٹرمپ کے امریکا کی نیم صورت۔
بے نظیرکی حکومت سے لے کر نواز شریف تمام سیاستدانوں نے ایسا ہی کچھ کیا۔ عمران خان نے تو لابنگ میں سب کو ہی پیچھے چھوڑ دیا، جو بیان ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کے لیے دیا اگر وہ ہی میزائل وہ پاکستان پر داغتے تو یہاں کے حکمرانوں کو بھی لگ پتا جاتا۔
2014 بیرونی طاقتوں کو یہ نظر آیا کہ شاید پاکستان، چین کے بلاک میں جا رہا ہے۔ ہم نے چین کو بھی دیکھ لیا ہے کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے اپنی بقاء کے لیے قرضے درکار تھے۔ اب ان بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ہم آزاد نہیں رہ سکتے۔ ہم پر چین کے قرضوں کا بھی اتنا ہی بوجھ ہے جتنا کہ امریکا کے قرضوں کا۔
ریاست کے پیچھے اب بھی وہ ہی جنگل کا قانون ہے۔ وہ ہی غاروں سے نکلے ہوئے انسان ہیں جنھوں نے معاشرہ بنایا اور معاشرے نے خود اپنی ارتقاء کے قوانین بنائے، اخلاقیات مرتب کی اور پھر ایک ماڈرن انسان وجود میں آیا۔ ریاستوں نے آئین دیے اور آئین نے بنیادی حقوق اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقوق وسیع ہوتے گئے۔ امریکا کی عدالتوں نے ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے کیونکہ عدالتیں انسانی حقوق کی محافظ ہیں۔ ایلون مسک سے یورپ نے گاڑیاں لینا بند کردی ہیں اور یہ چین کی فتح ہے، ایک پاگل پن ہے جو دنیا پر مسلط ہے۔
اس پسِ منظر میں بہ حیثیت ایک ملک ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کا حل ہے ہمارا آئین اور ہماری جمہوریت جو آج کل مشکل میں ہیں۔ اکانومسٹ جو جمہوریت کے حوالے سے اپنا انڈیکس ترتیب دیتا ہے اور اس ترتیب میں اس دفعہ ہم 37 سے35 نمبر پر جا چکے ہیں۔
ہم وہ ملک ہیں جن کا شمار دنیا کی دس بدترین جمہوری ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ہیں جمہوری اور ہمارے پاس آئین بھی ہے اور انسانی حقوق بھی۔ ہم وفاق یا پھر وفاقی جمہوریت کے اعتبار سے اور بھی کمزور ہیں اور یہی روایت اب سندھ میں بھی چل پڑی ہے پھر ہم اس کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس پیپلز پارٹی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جس طرح پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کو نعم البدل پی ٹی آئی ہے۔ سولہ سال سے سندھ پر بدترین حکمرانی، پیر پرستی اور وڈیرہ شاہی کا راج ہے۔کہیں ایسا نہ ہوکہ سندھ قوم پرستوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ انگریزوں کی حکومت میں بھی سندھ کا یہ حال نہ تھا جو اب ہے۔ یہ ہماری ریاستی سوچ تھی کہ ان وڈیروں کو زندہ رکھا جائے۔ اسی طرح دیہی اور شہری سندھ کا تضاد بھی زندہ رکھا جائے، لیکن اس پسِ منظر میں مڈل طبقہ پس چکا ہے۔
پاکستان کو اب بدلتی دنیا کے تقاضے پورا کرنے ہوںگے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف پانی کے مسئلے پر انتہائی کمزور ہے جب کہ قوم پرست اور پی ٹی آئی پانی کے مسئلے پر واضح موقف رکھتے ہیں۔