Express News:
2025-04-18@05:48:53 GMT

یوکرین، عالمی طاقت کا یوٹرن

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یو کرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات تلخ کلامی میں بدل گئی۔ روس کے ساتھ جنگ بندی پر دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر سخت الزامات لگائے۔ اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی تلخ گفتگو کے سامنے آجانے سے ایک واضح عالمی اصول کی حقیقت دنیا کے سامنے پھر آشکار ہوئی ہے کہ بڑی طاقت کے مفادات جب تبدیل ہوجائیں تو پھرکمزور ملک خواہ اتحادی ہو یا مخالف کیمپ سے تعلق رکھتا ہو وہ یکساں طور پر بڑی طاقت کے ہاتھوں سرد مہری، ناروا سلوک اور لاتعلقی کا شکار ہوجاتا ہے۔

 یوکرین کی روس کے خلاف جنگ کے دوران امریکا اور صدر بائیڈن نے نہ صرف یوکرین کا سرپرست اور اتحادی بن کر اربوں ڈالرزکے ہتھیار، امداد، عالمی حمایت فراہم کرکے روس کے خلاف جنگ کو جاری رکھا کیونکہ امریکی مفادات کا یہی تقاضا تھا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی امریکا کی نظر میں آزادی کے ہیرو اور امریکا میں مقبول تھے لیکن 20 جنوری کو ری پبلکن صدر ٹرمپ کی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی امریکی مفادات کے تقاضے تبدیل ہوگئے تو روس کے صدر پیوتن سے مذاکرات ہونے لگے اور صرف چار ہفتے کے عرصے میں روسی صدر پیوتن سے امریکی ڈائیلاگ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے وہائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس سے جو تلخ گفتگو ہوئی اس کے وائرل ہونے سے دیگر اقوام کے لیے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ بڑی طاقتوں کے اتحادی بن کر اُن کے مفادات کے لیے اپنے ملکی اور قومی مفادات کی قربانی دینے والوں کو بالٓاخر بڑی طاقت کے ہاتھوں لاتعلقی، بحران اور تنزلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے مابین ہونے والی اس دھواں دھار ملاقات پرکینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک صدر زیلنسکی کی حمایت میں بول پڑے ہیں اور کہا ہے کہ یوکرین کو اکیلا نہ سمجھا جائے۔ یہ ساری باتیں ظاہر ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں اور اس معاملے میں اگر اختلافات بڑھ گئے تو امریکا کی یوکرائن کے لیے حمایت میں واضح کمی ہو گی اور تیسری عالمی جنگ کے برپا ہونے کی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپی یونین کو پہلے ہی بہت بے چین کر رکھا ہے۔

یوکرین کے معاملے میں امریکی انتظامیہ کی یک رخی پالیسیاں مذکورہ بالا تمام ممالک کے صبرکے اونٹ پر آخری تنکا ثابت ہو سکتی ہیں۔ کسی معاملے میں حالات کس طرح پلٹا کھاتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا میں انتظامیہ یا حکومت کی تبدیلی کے بعد یوکرین روس جنگ کا پورا منظر نامہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

کہاں اس بات پر مذاکرات ہو رہے تھے کہ روس اور یوکرین، دونوں جنگ بندی پر رضامند ہو جائیں اور کہاں اب جنگ شروع کرنے اور حالات کو موجودہ نہج تک پہنچانے کا سارا ملبہ یوکرین پر ڈالا جا رہا ہے، حالانکہ یوکرین کو روس کے خلاف کھڑا کرنے اور اسے ہلا شیری دینے کے ذمے دار نیٹو، یورپ اور امریکا تینوں ہیں۔ ان تینوں نے ہی یوکرین کے صدر کو کہا تھا کہ وہ روس کے خلاف ڈٹ جائیں تو ان کی ہر طرح سے مدد کی جائے گی۔

سوویت یونین کا بچ جانے والا حصہ یعنی روس یوکرین کو اب بھی اپنا ماتحت رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی خواہش ہے جس نے حالات اس نہج تک پہنچائے۔ 2022ء تک یعنی جنگ سے پہلے تک کی صورتحال یہ تھی کہ یو کرین کے صدر (ولادیمیرزیلنسکی) اپنے ملک کو نیٹو کا رکن بنانا چاہتے تھے جب کہ روس ان کے اس فیصلے یا خواہش کے خلاف تھا۔ روس کا موقف تھا کہ یوکرین نیٹو کا رکن بنتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ امریکا اور نیٹو روس کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین اس تنازع میں یو کرین کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

یوں روس اور یوکرین کے مابین تناؤ اورکشیدگی میں اضافہ ہونے لگا۔ روس یوکرین کو روس اور یورپ کے نیٹو ممالک کے مابین ایک بفر ریاست سمجھتا ہے۔ ان حالات میں زیلنسکی کے یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کے اصرار پر روس کے کان کھڑے ہونا قدرتی امر تھا۔ روس نے ان خدشات کے پیشِ نظر ہی آج سے کم و بیش تین سال پہلے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ روسی قیادت کو یقین تھا کہ چند روز میں یوکرینی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کر لیں گے، لیکن یورپ اور امریکا کی جانب سے یوکرین کی ہر طرح سے مدد روسی قیادت کی اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ امریکا کی جانب سے یوں تو یوکرین کی مدد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں پھر بھی ثبوت کے طور پر امریکا کے سابق ترجمان برائے قومی سلامتی جان کِربی کا ایک بیان پیش کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اپنے دور میں کہا تھا کہ امریکا رواں سال یوکرین کو فنڈنگ ختم ہونے سے پہلے ایک اور امدادی پیکیج فراہم کرے گا۔ نیدرلینڈز نے بھی یوکرین کو 18 ایف 16 جنگی طیارے دینے کا اعلان کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کو امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین مسلسل امداد فراہم کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ یوکرین اب تک روس کے سامنے ڈٹا ہوا تھا، لیکن اب ساری صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ امریکا میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے اور نئے صدر ٹرمپ کی اپنی پالیسیاں اور اپنے منفرد منصوبے ہیں جن میں یوکرین روس جنگ فٹ نہیں بیٹھتی، چنانچہ وہ یوکرین کے درپے ہیں۔ ایک بہت ہی اہم سوال! موجودہ حرکیات کے ساتھ، روس یقیناً صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

یہاں کچھ ممکنہ طریقے ہیں۔ روس امریکا اور یورپ میں سمجھی جانے والی غیر یقینی صورتحال اور ممکنہ تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، یوکرین میں تنازعہ کو بڑھا سکتا ہے روس یورپ کو توانائی فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے۔ یہ یورپی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی توانائی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، خاص طور پر وہ جو روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ روس اپنے مفادات اور ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے امریکی اور یورپی قیادت کے اندر کسی بھی سمجھی جانے والی تقسیم یا کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ روس مشرقی یورپ اور بحیرہ اسود کے علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھ سکتا ہے، ممکنہ طور پر امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے عزم اور اتحاد کی آزمائش کر رہا ہے وہ عوامل جو روس کے اقدامات کو متاثر کر سکتے ہیں نئی انتظامیہ کے تحت امریکی پالیسی کی سمت روس کے اقدامات کا تعین کرنے میں اہم ہوگی۔

یورپی ممالک کے درمیان اتحاد اور عزم کی سطح روس کے حساب کتاب کو بھی متاثر کرے گی۔ روس کی اقتصادی صورتحال، بشمول پابندیوں اور توانائی کی قیمتوں کے اثرات بھی اس کے اقدامات کی تشکیل میں کردار ادا کریں گے۔ مجموعی طور پر، صورت حال پیچیدہ ہے، اور روس کے اقدامات مختلف عوامل پر منحصر ہوں گے۔ٹرمپ پر روس کا اعتماد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جب کہ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے اگر کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے تو یہ پوتن پر اعتماد کا اظہار ہوگا، روس کی پوزیشن زیادہ اہم ہے۔ فتح کے لیے روس کی حکمت عملی اس کے کنٹرول سے باہر ہونے والے عمل پر منحصر ہے، جس کی وجہ سے پوتن کے لیے ٹرمپ یا کسی اور پر اعتماد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اگر ٹرمپ کی پالیسیاں روس کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں تو اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، عالمی سیاست اور معیشت کے لیے اہم ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور پوتن کی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ توانائی کی ضروریات، تیل کی ترسیل، اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا ہوگا۔

یوکرین کو ٹرمپ اچانک بیچ منجھدار نہیں چھوڑ رہے دراصل وہ چاہتے ہیں کہ امریکا سے امداد کی صورت میں اربوں ڈالر کا جو اسلحہ اور ہتھیار یوکرین کو دیا گیا اُس کے عوض زیلنسکی امریکا کو منافع اب کچھ فائدہ بھی دیں ٹرمپ کی نظر یوکرین کی قیمتی معدنیات پر ہے مگر ٹرمپ کا یہ انداز کسی صورت یوکرین کے مفاد میں نہیں تھا۔

زیلنسکی کی مقبولیت میں چار فیصد کمی اور ملک میں انتخابات کا مطالبہ ہی تازیانے سے کم نہ تھا کہ پوتن سے ٹیلیفونک گفتگوکے بعد ٹرمپ نے رواں برس مئی میں روس کے دورے کا عندیہ دیدیا ہے یہ عندیہ بھی دباؤ کا ایک حربہ ہے جو زیلنسکی کے سیاسی کردار کے خاتمے اور چھینے گئے علاقوں سے یوکرین کی ہمیشہ کے لیے محرومی پرمنتج ہوسکتا ہے۔ روس کو امریکا اپنا احسان مند بناکر چین سے فاصلہ رکھنے کی فرمائش کے قابل ہوجائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور یوکرین کے یوکرین کے صدر صدر زیلنسکی روس کے خلاف امریکا میں زیلنسکی کے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور کے اقدامات کے درمیان اور یورپی کہ یوکرین یوکرین کو امریکا کی یوکرین کی کہ امریکا تبدیل ہو فراہم کر اور یورپ بڑی طاقت ممالک کے ٹرمپ اور ٹرمپ کی سکتا ہے تھا کہ رہا ہے روس کی کے لیے

پڑھیں:

یوکرینی جنگ کے خاتمے سے متعلق امریکی یورپی مکالمت فرانس میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اپریل 2025ء) یوکرین میں جنگ بندی پر اپنے یورپی شراکت داروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے ایک امریکی وفد آج جمعرات 17 اپریل کو فرانسیسی دارالحکومت پیرس پہنچا۔ اس بات چیت میں برطانوی وزیر خارجہ سمیت یورپی یونین کے بیشتر اعلیٰ سفارت کاروں کی شرکت بھی متوقع ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں جمعرات کے روز ہی پیرس میں امریکی وزیر خارجہ روبیو اور خصوصی مندوب وٹکوف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے چیف آف اسٹاف کا کہنا ہے کہ کییف حکومت کا ایک وفد بھی یورپی یونین اور امریکی وفود سے ملاقات کے لیے پیرس میں موجود ہے۔

صدر زیلنسکی کے چیف آف سٹاف آندری یرماک نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''میں ابھی پیرس پہنچا ہوں۔

(جاری ہے)

ہم وزیر خارجہ آندری سائبیگا اور وزیر دفاع رستم عمروف کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔

‘‘ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فرانس میں ان کی کن رہنماؤں سے ملاقات ہونے والی ہے۔

کییف میں یوکرینی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق فریقین ممکنہ مکمل جنگ بندی، بین الاقوامی امن دستوں کی شمولیت اور یوکرین کے سکیورٹی فریم ورک کی مضبوطی جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

روس سے معاہدے سے پہلے ٹرمپ یوکرین کا دورہ کریں، زیلنسکی

یوکرین میں جنگ بندی کی کوششیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین سالہ یوکرینی جنگ کو جلد ختم کرانے کے وعدے کیے ہیں اور اس سلسلے میں بعض کوششیں بھی ہوئی ہیں، تاہم ان کے باوجود ابھی تک کوئی خاص نتیجہ نہیں نکل پایا۔

ٹرمپ کے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف نے گزشتہ جمعے کو سینٹ پیٹرزبرگ میں کریملن کے سربراہ کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن ''مستقل امن‘‘ کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے وٹکوف کی صدر پوٹن سے یہ تیسری ملاقات تھی۔ وٹکوف نے اسی ہفتے پیر کے روز فوکس نیوز ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ وہ ایک امن معاہدہ ''ابھرتا‘‘ ہوا دیکھ رہے ہیں۔

البتہ صدر پوٹن نے گزشتہ ماہ مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی کی امریکی تجویز کو مسترد کر دیا تھا جبکہ کییف نے اس خیال کی حمایت کی تھی۔

یورپی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ پر اس بات کے لیے زور دیں گے کہ وہ روس پر غیر مشروط جنگ بندی پر رضا مندی کے لیے مزید دباؤ ڈالے۔

سومی میں روسی میزائل حملہ ’جنگی جرم‘ ہے جرمنی کے متوقع چانسلر

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ماسکو کے ساتھ تعلقات کو تیزی سے بہتر بنانے کے لیے اقدام کیے ہیں۔

تاہم واشنگٹن کی ماسکو کے ساتھ بات چیت اس طرز کی رہی ہے کہ کییف پوری طرح سے الگ ہو گیا۔

گزشتہ فروری میں وائٹ ہاؤس میں اس گرما گرم بحث کے بعد سے ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان تناؤ میں کوئی خاص کمی نہیں آئی، جس میں امریکی صدر نے روس کے ساتھ امن مذاکرات پہلے شروع نہ کرنے پر یوکرین کے صدر کی سرزنش کی تھی۔

روس کے یوکرین پر حملے جاری

یوکرین کے ایک علاقائی گورنر نے بتایا کہ بدھ کی شام کو جنوب مشرقی یوکرین کے شہر دنیپرو میں روسی ڈرون حملے میں ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔

گورنر کے مطابق ان حملوں سے کئی مقامات پر آگ بھڑک اٹھی۔ میئر بورس فلاتوف نے کہا کہ ایک حملہ میونسپل دفاتر سے 100 میٹر کے اندر ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے کم از کم 15 مکانات کو نقصان پہنچا۔

یوکرینی شہر سومے پر روسی میزائل حملہ، تیس سے زائد ہلاکتیں

شمال مشرقی یوکرینی علاقے خارکیف کے گورنر نے بھی روسی حملے کی اطلاع دی ہے اور کہا کہ ایک روسی میزائل حملے میں ایزیم قصبے میں دو افراد زخمی ہو گئے۔

اے ایف پی، روئٹرز

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا بڑا یوٹرن؟ ایران پر اسرائیلی حملہ روکنے کی خبروں پر اہم بیان
  • سونے کی قیمت نئی تاریخ ساز سطح پر پہنچ گئی
  • یوکرینی جنگ کے خاتمے سے متعلق امریکی یورپی مکالمت فرانس میں
  • صدر ٹرمپ کی ایرانی جوہری مقامات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی کی مخالفت
  • امریکا کس بلندی پر تھا اور ٹرمپ نے کس پستی میں جا گرایا ہے، جوبائیڈن
  • تجارتی جنگ میں شدت، ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر ٹیرف بڑھا کر 245 فیصد کردیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا میں مہنگائی کم کرنےکادعویٰ
  • ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آڈر پر دستخط کردیے
  • امریکا کا نیا منصوبہ: چین کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش
  • ایران کو جوہری ہتھیاروں کا خواب دیکھنا چھوڑ دے.ڈونلڈ ٹرمپ