سندھ سرکار کا محکمہ بلدیات میں نئی بھرتیوں کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
آزاد نہڑیو : سندھ سرکار نے محکمہ بلدیات میں 11 گریڈ کے یوسیز سکریٹریز کی نئی بھرتیوں کا فیصلہ کرلیا ۔
محکمہ بلدیات سندھ کے مطابق 11 گریڈ کے 807 یوسیز سیکریٹریز کی نئی بھرتیاں کی جائیں گی ، نئی بھرتیاں تھرڈ پارٹی آئی بی اے سکھر کے ذریعے کی جائیں گی ۔ یوس سیکریٹری کیلئے انٹر کی ڈگری لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
محکمہ بلدیات سندھ نے جاری نوٹیفکیشن میں بتایا ہے کہ ملازمت کے خواہشمند امیدوار اگلے ماہ پانچ اپریل 2025_تک اپلائی کر سکتے ہیں ۔
لاہور میں 255 ٹریفک حادثات ، ایک شخص جاں بحق ، 310 زخمی
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: محکمہ بلدیات
پڑھیں:
ہم بازیاب کرا سکتے ہیں ایسا کیوں ہو رہا ہے روک نہیں سکتے، پارلیمنٹ جائیں، وہی اصل فورم: جسٹس جمال
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمشن تشکیل دینے سے متعلق کیس میں تحریک انصاف کو مزید دستاویزات جمع کرانے کی مہلت دے دے۔ آئینی بینچ نے کہا کہ درخواست میں لکھا ہے 9 مئی کو درجنوں لوگ مارے گئے لیکن کسی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ درخواست کے ساتھ نہیں لگایا، ایک سرٹیفکیٹ یا ایف آئی آر کی کاپی تو لگا سکتے تھے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ کی استدعا کیا ہے؟۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ 9 مئی کے واقعے پر جوڈیشل کمشن تشکیل دیا جائے، 9 مئی کے ملزموں کو کس انداز سے پراسیکیوٹ کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی بات کی ہے اور دوسری استدعا سویلین کا ملٹری ٹرائل نہ کیا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق استدعا تو آپ کی غیر مؤثر ہو چکی ہے، وہ تو الگ سے کیس چل رہا ہے، کیا 184 کی شق 3 میں ہم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا معاملہ دیکھ سکتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ 9 مئی ایک قومی واقعہ ہے لیکن اس کی جوڈیشل انکوائری نہیں ہوئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اسفتسار کیا کہ آپ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس میں کہیں جوڈیشل کمشن کی استدعا کی ہے؟۔ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ نہیں اس کیس میں ہم نے جوڈیشل کمشن کی تشکیل سے متعلق کوئی استدعا نہیں کی۔ جسٹس جمال نے حامد خان سے دریافت کیا کہ کس قانون کے تحت جوڈیشل کمشن بنایا جائے۔ حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ مجوزہ جوڈیشل کمیشن انکوائری کرے گا تو اموات کا پتا چلے گا، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایک سرٹیفکیٹ یا ایف آئی آر کی کاپی تو درخواست کے ساتھ لگائی جاسکتی تھی۔ جسٹس امین الدین نے دریافت کیا کہ کیا 9 مئی کے واقعہ پر کوئی پرائیویٹ شکایت درج کرائی گئی، جس پر حامد خان نے کہا کہ اس معاملہ پر عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہیے تھا کیونکہ عدالت نے ماضی میں میمو گیٹ کیس میں کمشن تشکیل دیا تھا۔ 9 مئی کو عمران خان کو گرفتار کیا گیا اور 11 مئی تک گرفتار رہنے کے باعث انہیں نہیں علم تھا کہ باہر کیا ہوا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ میمو گیٹ کے علاوہ نشتر ہسپتال اور کوئٹہ سانحہ پر بھی عدالت نے کمشن تشکیل دیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے، 9 مئی کے مقدمات اب عدالتوں میں چل رہے ہیں، اس پوزیشن میں نہیں فوری کمشن بنا دیں، اگر کمشن بن جائے تو ملٹری کورٹ سے متعلق 5 رکنی بینچ کے فیصلہ کا کیا بنے گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کمشن بن بھی جائے تو 9 مئی کا فیصلہ عدالت کو ہی کرنا ہے۔ حامد خان کا موقف تھا کہ اصل سوال یہ ہے 9 مئی کے واقعے کا ذمہ دار کون ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ غلط یا صیح اس وقت سینکڑوں لوگوں کو ذمہ دار بنادیا گیا، سینکڑوں لوگوں کیخلاف عدالتوں میں کیسز چل رہے ہیں، سینکڑوں گرفتار لوگوں کے علاوہ بھی دیگر شہریوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ جو لوگ رہ گئے ہیں کیا ان کو بھی پھنسانا چاہتے ہیں، جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت عام انتخابات کے پہلے کے معاملات کو بھی دیکھے، الیکشن کے معاملہ پر بھی جوڈیشل کمشن بننا چاہئے۔ سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ اس معاملہ پر بانی تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے، الیکشن سے قبل ہمارے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا، وکیل انتظار پنجوتھا کو اغوا کیا گیا۔سلمان اکرم راجہ کے مطابق الیکشن معاملہ پر کمیشن انکوائری ایکٹ 2015 میں بھی بتایا گیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہا کہ آپ وہ 35 پنکچر والے کیس کی بات کر رہے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انکوائری کمشن مجموعی طور پر الیکشن کے دوران حالات حاضرہ کا جائزہ لے گا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ ہر الیکشن کی کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت بینیفشری ہوتی ہے، آپ نے تو غلطی کا اعتراف کرلیا کہ آئندہ غلطی نہیں ہوگی۔ سلمان اکرم راجہ نے شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بیان پڑھ لیا، یہاں فیصلہ کوئی اور کرتا ہے، 9 مئی کی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دی گئی، کس نے صوفہ کو جلایا کس نے گیٹ کھولا، سی سی ٹی وی فوٹیج سے سب پتہ چل جائے گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہ آپ کا 9 مئی کیسز میں بہت اچھا دفاع ہو سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں کہ جوڈیشل کمشن کیوں ضروری ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا انتظار پنجوتھا نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انتظار پنجوتھا کو کہا گیا کہ آپ کسی سے مل نہیں سکتے۔ سو نہیں سکتے، نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہمیں حقائق ماننا پڑے گا، ہم بازیاب تو کرا سکتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے اسے روک نہیں سکتے۔ آپ پارلیمنٹ میں ہیں‘ پارلیمنٹ ہی متعلقہ فورم ہے وہاں اس پر آواز اٹھائیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پارلیمنٹ اس پر کچھ نہیں کر سکی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ بہت کچھ کر سکتی ہے وہی اصل فورم ہے‘ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا کل انتظار پنجوتھا بازیاب ہو جائیں گے‘ پھر سب نے دیکھا وہ کس طرح بازیاب ہوئے‘ لوگ خوفزدہ ہیں‘ ہر دوسرے دن کوئی اغوا ہو رہا ہے۔ آپ کی بات درست ہے کہ جب کیسز مختلف فورمز پر چل رہے ہیں تو پھر کمشن آف انکوائری کیا کر سکتا ہے۔ یہ سوال سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے دور میں بھی آیا تھا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ووٹر لسٹ سے ووٹ کے اخراج کے حوالے سے شہری مولانا عزیز الحق کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار کیس بیان کرنے کے بجائے سیاسی تقریر بازی کر رہا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن ایکٹ 2017 وزیراعظم لیاقت علی خان کی جانب سے پاس کی گئی قرارداد مقاصد کے خلاف ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اپ کہانی بیان نہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اپ چاہتے کیا ہیں؟ یہ پاکستانی ہیں اور نہ بنگالی، ان کا سٹیٹس کیا ہے؟ مولانا عزیز الحق نے موقف اختیار کیا کہ میں 1952 اپنی پیدائش سے پاکستان میں رہ رہا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کی شکایت کیا ہے، کیا ووٹر لسٹ میں اب نام نہیں؟ جس پر مولانا عزیز الحق نے موقف اختیار کیا کہ میں قانونی طور پر پاکستان کا شہری ہوں، مجھے غیر ملکی نہ کہا جائے، کبھی مجھے غیر ملکی کہا جاتا ہے، کبھی ہوائی مخلوق کہا جاتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ٓاپ کے بچوں کا تو شناختی کارڈ ہے۔ مولانا عزیز الحق نے کہا کہ پاکستان کی تقسیم کو جو مان لے اس کا کارڈ ایشو ہو جاتا ہے، میں تقسیم کو نہیں مانتا، بنگلہ دیش کو نہیں مانتا، بنگلہ دیش کو ماننے کا مطلب پاکستان کی تقسیم کو ماننا ہے۔ 26ویں ترمیم وغیرہ کچھ بھی نہیں، اصل آئین ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ بنگال نژاد پاکستانیوں سے امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ان کو نہ پاکستانی تسلیم کیا جا رہا ہے اور نہ انکار کیا جا رہا ہے، متعدد مرتبہ حکومت کو ہدایات دیں لیکن حکومت نے ان شہریوں سے متعلق کچھ نہیں کیا، جب ملک دو لخت ہوا، کچھ ادھر رہ گئے اور کچھ ادھر، ملک سے باہر نکالنا ہے تو نکال دیں یا پھر ان کو ملک میں رکھنا ہے تو رکھیں، لیکن کوئی پالیسی تو بنائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جب ہم سندھ ہائی کورٹ میں تھے تو بھی اس طرح کے متعدد کیسز سامنے آئے، ہم نے واضح ہدایات بھی دیں۔