کراچی میں منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ سی آئی اے ذرائع کے مطابق شاہ زین مری بھی منشیات کی خریداری میں ملوث نکلا۔ گرفتار ملزم ساحر حسین کی تفتیش کے دوران شاہ زین مری کا نام سامنے آیا ہے، جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی مزید گہرائی سے چھان بین کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ کراچی کے پوش علاقوں میں منشیات کے دھندے میں خوشحال گھروں کے نوجوان بھی ملوث پائے گئے ہیں، جن کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر شکنجہ کس رہے ہیں۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ قتل کیس ٹھیک سے ہینڈل ہوا تو منشیات کا خاتمہ ہوگا، مصطفیٰ کیس میں بڑے بڑے نام سامنے آئیں گے، ان کے پیچھے جن طاقتوں کا ہاتھ ہے وہ بہت با اثر ہیں، مجھے بھی جان سے مارنے کی ای میل بھیجی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ عمران فاروق جیسا حال ہوگا۔

شاہ زین مری کے پانچ گارڈز کا دو روزہ ریمانڈ منظور
کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں شہری پر شاہ زین مری اور ان کے گارڈز کے تشدد کے کیس میں گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں اہم سماعت ہوئی، جہاں پولیس نے ان کے گرفتار پانچ سیکیورٹی گارڈز کو پیش کردیا۔ گارڈز کے وکیل کا کہنا ہے کہ صرف میڈیا کی وجہ سے ملازمین اور باورچی کو گرفتار کیا گیا۔ شاہ زین مری کوئٹہ میں بیٹھا ہے۔ سسٹم میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ شاہ زین کو گرفتار کرے۔

تفتیشی افسر نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ کیس کی مکمل تحقیقات کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کا فرانزک کرانا ضروری ہے۔

عدالت میں ملزمان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ جن افراد کو پیش کیا گیا ہے، وہ سی سی ٹی وی ویڈیو میں واضح نظر آرہے ہیں، لیکن اصل ملزم تک پولیس اب تک نہیں پہنچ سکتی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ صرف میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے ان ملازمین کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ اصل ملزم شاہ زین مری کو گرفتار کرنے کی جرات کوئی نہیں کر سکتا۔

وکیل نے کہا کہ باورچی ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا جو اس وقت وہاں موجود بھی نہیں تھے۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ شاہ زین مری کوئٹہ میں موجود ہے، لیکن اسے گرفتار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر شاہ زین خود بھی عدالت میں آکر کھڑا ہوجائے تو پولیس اسے ہاتھ نہیں لگائے گی۔

عدالت نے پولیس کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جبکہ پانچوں سیکیورٹی گارڈز کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

مرکزی ملزم شاہ زین کے اہلِ خانہ کا ردعمل
شہری پر تشدد کے مرکزی ملزم شاہ زین کے اہلِ خانہ کا ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعہ کو یکطرفہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، شاہ زین اور ساتھیوں کو برکت سومرو نے گالیاں بکیں جو قبائلی معاشرے میں برداشت نہیں ہوتیں۔

اہل خانہ کا یہ بھی کہنا ہے پولیس واقعہ کے اہم پہلو کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ شاہ زین کھانے کے بعد رخصت ہو رہے تھے، ایک گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی تھی، ڈرائیور نشے کی حالت میں فون پر مصروف تھا، شاہ زین مری نے ہارن بجایا۔

خاندانی ذرائع کے مطابق گاڑی میں موجود برکت سومرو نے راستہ نہ دیا، برکت سومرو نے گالم گلوچ اور بدتمیزی شروع کر دی، ردعمل کے طور پر جو ہوا، وہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے۔

خاندانی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوابزادہ شاہ زین اور ان کے ساتھیوں کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ موجود تھا، مگر ان لوگوں نے جوابی کارروائی سے گریز کیا، پولیس نے واقعے کے ایک اہم پہلو کو چھپانے کی کوشش کی۔

واقعے کا پس منظر

کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں 19 فروری کی رات شاہ زین مری اور ان کے مسلح گارڈز کے ہاتھوں ایک شہری اور اس کے دوست پر بہیمانہ تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور ملزم شاہ زین مری کے چار گارڈز سمیت سات ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے گارڈز کی شناخت غوث بخش، جلاد خان، علی زین اور حسن شاہ کے نام سے ہوئی ہے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔

متاثرہ شہری نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ اور اس کا دوست کھانے کے لیے آئے تھے جب ایک گاڑی نے پیچھے سے آکر بدتمیزی کی اور ٹکر ماری، جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس نے سوال اٹھایا کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کب ہوگا؟

پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد ملزم شاہ زین مری بلوچستان فرار ہوگیا۔ ڈیفنس خیابانِ فیصل پر پولیس ناکہ بندی کے دوران شاہ زین اپنی گاڑی چھوڑ کر فرار ہوا، جسے بعد میں تحویل میں لے لیا گیا۔ گاڑی اس وقت درخشاں تھانے میں موجود ہے جبکہ شاہ زین مری کی گرفتاری کے لیے پولیس نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کر لیا ہے۔

بلوچستان پولیس کا بیان

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ شاہ زین مری کی بلوچستان میں موجودگی سے متعلق کہنا قبل از وقت ہے، شاہ زین مری سے متعلق محکمہ داخلہ سندھ کے مراسلے کا علم نہیں ہے، تصدیق نہیں کرسکتے شاہ زین مری کون سے علاقے میں چھپا ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان نے سندھ حکومت کے مراسلے سے متعلق آگاہ نہیں کیا، جس ضلع میں نشاندہی ہوگی محکمہ داخلہ بلوچستان کی ہدایت پر کارروائی ہوگی۔

شاہ زین مری بھی منشیات کی لین دین میں ملوث

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفٰی قتل کیس کے مرکزی کردار ارمغان اور ساحر سے تفتیش کے دوران شاہ زین مری کا نام بھی سامنےآگیا۔ منشیات کی لین دین میں شاہ زین مری بھی ملوث نکلا۔

سی آئی اے ذرائع کے مطابق شاہ زین مری منشیات کی خریداری میں ملوث ہے گرفتار ملزم ساحر حسین کی تفتیش میں شاہ زین مری کا نام ہے جس کے بعد ٹیم اس معاملے کی مزید گہرائی سےتفتیش کررہی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: شاہ زین مری کا نام ذرائع کے مطابق شاہ زین مری کو کا کہنا ہے کہ ملزم شاہ زین کو گرفتار منشیات کی کراچی کے کے بعد گیا ہے

پڑھیں:

پولیس کے ہی پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا مصطفیٰ قتل کیس میں پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کیوں؟

سندھ پولیس کے پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے مصطفیٰ قتل کیس میں پولیس کی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ پروسیکیوشن نے کیس کے تفتیشی افسر سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے۔

پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے مبینہ قاتل ملزم ارمغان کے خلاف درج 4 مقدمات میں اب تک ہونے والی پیش رفت سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے شعبہ تفتیش سے کہا ہے کہ بتایا جائے کیس میں ملزمان سے اب تک کیا تحقیقات ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں زوما نامی لڑکی کی انٹری

مصطفیٰ قتل کیس میں پروسیکیوشن کی جانب سے کیس کے تفتیشی حکام کو لکھے ایک خط کے ذریعے کیس سے جڑے تمام مواد جس میں فورینزک رپورٹ، ڈی این اے، فنگر پرنٹس، سی سی ٹی وی فوٹیجز سمیت کیس کی پیش رفت رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے خط میں دریافت کیا گیا ہے کہ کیس میں اب تک کتنے گواہوں کے بیانات رکارڈ کیے ہیں، بتایا جائے کہ کیس میں ڈی این اے اور فنگر پرنٹس وغیرہ کا فورینزک شروع ہوا یا نہیں۔

مزید پڑھیں: مصطفیٰ قتل کیس، مرکزی ملزم کے گھر سے کرپٹو کرنسی کی 2 مائنگ مشینیں برآمد

ذرائع کے مطابق پولیس پروسیکیوشن کی جانب سے پولیس کی اس کیس میں پیش رفت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، اس حوالے سے پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا گمان ہے شعبہ تفتیش ایسا لگتا ہے کہ جیسے نیند میں ہے، جیسا کہ آخری ریمانڈ پر دیکھا گیا۔

پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ریمانڈ کے موقع پر دیکھا گیا کہ ریمانڈ پیپر پر ہاتھ سے کیس میں زوما نامی لڑکی کی انٹری کی بابت درج کیا گیا ہے، جبکہ یہ اندراج بھی پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے اصرار پر ہوئی، ورنہ پولیس یہ بھی نہیں کرتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ڈی این اے ریمانڈ زوما سی سی ٹی وی شعبہ تفتیش فنگر پرنٹس فوٹیجز فورینزک

متعلقہ مضامین

  • مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان سے ملنے والے اسلحہ کی تحقیقات کرانےکا فیصلہ
  • مصطفی قتل کیس میں ایف آئی اے متحرک، سندھ پولیس کو خط لکھ دیا
  • مصطفیٰ قتل کیس میں ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں، ڈی آئی جی مقدس حیدر
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز
  • مصطفیٰ قتل کیس: تحقیقات میں مدد کیلئے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس کو خط لکھنے کا فیصلہ
  • شہری پر تشدد کا کیس: ’اصل ملزم سامنے بھی آئیں تو نہیں پکڑیں گے‘
  • پولیس کے ہی پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا مصطفیٰ قتل کیس میں پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کیوں؟
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے 2 ملازمین کے 164 کے مکمل بیانات کی تفصیل سامنے آگئی
  • کراچی، سرعام غنڈہ گردی کرنیوالا بااثر شخص گرفتار کیوں نہیں ہوسکا؟