امریکی صدر! غزہ سے جبری نقل مکانی کے پیش کردہ اپنے ہی منصوبے میں سنجیدہ نہیں، ایھود باراک
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں ایتمار بن گویر کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے یہ بات باعث شرم ہے کہ ہماری کابینہ نے جبری نقل مکانی کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرامپ کی تجاویز کو منظور نہیں کیا۔ اسلام ٹائمز۔ سابق صیہونی وزیراعظم "ایهود باراک" نے کہا کہ امریکی صدر "ڈونلڈ ترامپ" غزہ سے جبری نقل مکانی کے اپنے ہی پیش کردہ منصوبے میں سنجیدہ نہیں۔ وہ اس مسئلے کو عملی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔ ایهود باراک نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم "نتین یاہو" امریکہ کو جھوٹ بیچ رہے ہیں اور یوکرین میں امریکیوں کی مصروفیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نتین یاہو صرف خود کو اور اپنی کو کابینہ کو بچانے کے چکر میں ہیں۔ دوسری جانب مستعفی صیہونی وزیر داخلہ "ایتمار بن گویر" نے کہا کہ ہمارے لئے یہ بات باعث شرم ہے کہ ہماری کابینہ نے جبری نقل مکانی کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرامپ کی تجاویز کو منظور نہیں کیا اور حماس کو قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کے بارے میں خبردار نہیں کیا۔ قبل ازیں فلسطینی چینل سماء نے رپورٹ دی کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی ایلچی کے بیانات ڈونلڈ ٹرامپ کے جبری نقل مکانی کے منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد انہیں اپنے ہی یورپی و عرب اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جبری نقل مکانی کے نے کہا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملے کا منصوبہ مسترد کر دیا، نیویارک ٹائمز
امریکی اخبار نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حکام نے حال ہی میں مئی میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہ اس کو انجام دینے کے لیے تیار تھے، اور پر امید تھے کہ امریکہ ساتھ دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں تقسیم سامنے آنے کے بعد ایران پر اسرائیلی حملے کے منصوبے کو روک دیا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو اگلے ماہ نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں تہران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے بعد اسے مسترد کیا۔ ٹرمپ نے یہ فیصلہ مہینوں کی داخلی بحث کے بعد کیا کہ کیا تہران کے ساتھ سفارت کاری کو آگے بڑھانا ہے یا ایران پر اسرائیلی حملے کے منصوبے کی حمایت کرنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس بحث کے دوران ٹرمپ انتظامیہ میں تقسیم واضح ہو گئی اور کئی عہدیداروں نے حملے کی مخالفت کی اور تہران کے ساتھ سفارتکاری کے منصوبے کی حمایت کی۔ جس کے بعد ٹرمپ نے اسرائیلی حملے کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔ امریکی اخبار نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حکام نے حال ہی میں مئی میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہ اس کو انجام دینے کے لیے تیار تھے، اور پر امید تھے کہ امریکہ ساتھ دے گا۔ اس منصوبے کا مقصد تہران کی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کو ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک پیچھے رکھنا تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ میں تقسیم واضح ہونے کے بعد اسرائیلی منصوبہ ناکام ہو گیا اور واشنگٹن نے فوجی کارروائی پر سفارت کاری کو ترجیح دی۔