Daily Ausaf:
2025-03-03@09:33:21 GMT

اسلام میں گداگری کی ممانعت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

گداگری بہت بڑا سوشل ایشو ہے جس نے مستقل پیشے کی صورت اختیار کر لی ہے۔گداگری کے اب نت نئے طریقے متعارف ہو گئے ہیں-شہر لاہور کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا اس پیشے سے کئی سو خاندان وابستہ ہیں-جو شہر ہی کے مضافات میں واقع کچی بستیوں یا جھگیوں میں اقامت رکھتے ہیں۔اب ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ چند منظم گروہ گداگری کو انٹرنیشنل سطح پر بھی پرموٹ کر رہے ہیں۔ تانے بانے سعودیہ میں بھی جا ملتے ہیں جہاں سے اب تک گداگری کے الزام میں بہت سے پاکستانیوں کو ’’ڈی پورٹ‘‘کیا جا چکا ہے-جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے-ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے کسی بھی صورت گداگری کو پسند نہیں کیا بلکہ کسب حلال پر زور دیا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے جس کے باعث ذلیل و خوار ہو رہے ہیں-اس ’’ذلت‘‘ کا اہم اور بڑا سبب ’’گداگری‘‘ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو مبعوث فرما کر ساتھ ہی ان کو ذریعہ معاش بھی دے دیا کہ’’روزی کما اور کھا‘‘ حضرت آدم کے بعد انبیا کرام کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوا جبکہ ہر نبی نے اپنے لیئے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اپنایا۔ جیسا کہ حضرت آدمؑ کھیتی باڑی اور حضرت زکریاؓ بڑھئی کا کام کرتے تھے جبکہ حضرت اویسؓ درزی کا کام کیا کرتے تھے-حضرت موسیٰ ؑ بھیڑ بکریاں چراتے تھے-حضرت داد آہن گر تھے۔ حضرت ابراہیم بزاز تھے-حضرت اسماعیل ؑ تیر بناتے تھے۔ خود حضرت محمد ﷺنے مزدوری پر بکریاں چرائیں اور تجارت بھی کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کے لیئے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے روزگار کمانا کتنا ضروری ہے،لیکن عام لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور تعداد میں اضافے کے ساتھ لوگ سہل پسندی کا شکار ہوتے گئے-کام کرنے کی بجائے انہوں نے دوسروں کے سامنے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیئے ہاتھ پھیلانا شروع کر دئیے۔ یہی گداگری کی ابتدا تھی-لفظ گداگری ’’گداگر‘‘سے ماخوذ ہے جو فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایک مانگنے والا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے یہ کسی صورت بھی انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا ۔ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ صحابہ کرام کو انتہائی مشکل حالات سے بھی گزرنا پڑا لیکن ایسے حالات میں بھی انہوں نے صبر اور تقوی کی مثال قائم کی اور کسی کے بھی سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا،کیونکہ ان کے پیش نظر اللہ کا یہ فرمان تھا ’’ہم نے دن کو کسبِ معاش کا وقت بنایا ہے اس میں تمہارے لئے معیشت کے اسباب پیدا کئے اور ان (جانوروں اور پرندوں)کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتے،رزق حلال کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا کہ تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہ حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل یعنی رزق بھی تلاش کر لو،کسی قوم، قبیلے، ملک یا معاشرے کی ترقی کا انحصار اس کے ذرائع معاش پر ہوتا ہے-اگر معاشرے میں چوری، ڈکیتی، گداگری، رشوت اور اقربا پروری کا ماحول ہو تو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جس معاشرے میں معاش کے ذرائع صحیح ہوں، وہی معاشرہ ترقی کر کے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی نہ لائیں-‘‘
آپﷺ نے ہمیشہ ہاتھ سے روزی کمانے کو ترجیح دی اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی-یہ الگ بات ہے کہ آپﷺ نے اپنے در سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا-مگر کبھی اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ فرمائی۔ اس کی وضاحت اس حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے، حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ تو انصاری نے عرض کی ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھاتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں۔ پانی پینے کا پیالہ بھی ہے-فرمایا ’’دونوں چیزیں لے آئو‘‘ انصاری دونوں چیزیں لے آیا۔رسول اللہ ﷺنے دونوں چیزیں لے لیں اور فرمایا یہ دونوں چیزیں کون خریدے گا! ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔آپ نے پھر فرمایا ’’ایک درہم سے زیادہ کون دے سکتا ہے؟‘‘ ایک اور شخص نے عرض کیا ’’میں دو درہم دے سکتا ہوں۔‘‘ آپ نے دونوں درہم انصاری کو دے دئیے اور فرمایا ایک درہم سے گھر والوں کو کھانا خرید کر دو جبکہ دوسرے سے کلہاڑا خریدو اور میرے پاس لے آ-انصاری نے ایسا ہی کیا-رسول اللہ ؓ نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا جا لکڑیاں کاٹو اور پندرہ یوم کے بعد دوبارہ میرے پاس آئووہ شخص لکڑیاں چیرتا اور بیچتا رہا۔ پندرہ دن کے بعد حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے-نبیؓ نے فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا، پھر فرمایا’’خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے۔ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر نہ ہو۔ مانگنے کا عمل کسی طرح بھی درست نہیں۔ سوائے اس کے کہ انسان انتہائی محتاج یا سخت مقروض ہو‘‘ جب آپ سے کسب کے بارے دریافت کیا گیا کہ کون سا کسب یا کاروبار اچھا ہے تو آپ نے ہاتھ سے کام کرنے کو افضل قرار دیا اور عین فرض کہا۔ جس طرح ہمارے لیئے دوسرے فرائض کی بجا آوری لازم ہے-اسی طرح رزق حلال کا حصول بھی عین فرض ہے۔ حدیث ہے’’ بنیادی فرائض کے بعد رزق حلال کی طلب سب سے بڑا فرض ہے۔‘‘ آپ نے مالدار اور تندرست توانا کے لئے خیرات اور صدقہ کو حلال قرار نہیں دیا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی مانگنا ایک قبیح فعل ہے جو اسلام کے نزدیک حرام ہے،دین نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔سوال کرنے والے کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس میں اس کے لئے کتنی ذلت، رسوائی اور خرابی ہے تو کبھی سوال نہ کرے،یعنی بھیک نہ مانگے۔ہمارے ملک میں گداگری باقاعدہ پیشہ بن گیا ہے جبکہ لوگ جوق در جوق اس سے وابستہ ہو رہے ہیں-بڑے شہروں کے علاوہ اب چھوٹے شہر اور قصبے بھی گداگری سے متاثر ہیں۔ماہ رمضان شروع ہوتا ہے تو گداگروں کی ایک بڑی تعداد شہروں کا رخ کرتی ہے-ان میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔گداگر مافیا سے وابستہ لوگ بڑے شہر کے بڑے چوراہے ٹھیکے پر بھی دینے لگے ہیں جبکہ ذمہ دار ادارے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک اور ملک سے باہر گداگری کے پھیلتے ہوئے اس عفریت کو روکا جائے۔گداگری اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے جس پر سخت قانون سازی اور بڑے پیمانے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں چیزیں کے بعد کے لئے

پڑھیں:

ماہ مبارک میں ایک بہترین کتاب کا انتخاب

اسلام ٹائمز: اس کتاب کی تین خاصیتیں ہیں، جو باقی تمام کتب سے اسے ممتاز کرتی ہے۔ پہلی خاصیت یہ ہے کہ دین اسلام ایک اجتماعی مسلک و مکتب ہے۔ یعنی اسلامی معارف اور فکری نظام، محض ذہنی تصور نہیں بلکہ ایک اجتماعی عملی ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے، جو انسان کی اجتماعی زندگی پر مبنی ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے کہ اسلام میں انسانی زندگی کیلئے کیا منصوبہ ہے۔؟ اس کا کیا مقصد ہونا چاہیئے اور اس مقصد تک پہنچنے کیلئے کیا طریقہ ہے۔؟ اس کتاب میں موصوف نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.com

اچھی کتاب کا انتخاب بھی ایک ہنر ہے۔ یہی ہنر دسیوں انسانوں کو باہنر بنا دیتا ہے۔ اس ہنرمندی کے مرحلے تک پہنچنے کے لئے بھی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہ مبارک رمضان اس ہنرمندی کے لئے ایک بہترین ماحول ہے۔ جس میں خداوند عالم نے انسان کی خود سازی، فکر سازی اور ذہن سازی کے لئے ایک بہترین اور لاریب کتاب بھیجی ہے۔ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے، جس کی تلاوت، تدبر اور اس کی عبارتوں کی طرف نگاہ کرنا بھی عبادت ہے اور خداوند متعال نے اسی مہینے میں ہی اس کتاب کو نازل کیا ہے۔ ہر انسان جس کا تعلق اسلام ہے، وہ ماہ مبارک رمضان میں اس کتاب شریف کی حتماً تلاوت کرتے ہیں۔ اس کی تفسیر اور اس کے ترجمے کا بھی مطالعہ کرتے ہیں اور کماحقہ کرنا بھی چاہیئے اور ساتھ اس پر تفکر، تعقل اور تدبر کرنا چاہیئے، کیونکہ تدبر و تفکر خود ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔

ہم میں سے اکثر عربی زبان سے نابلد ہیں۔ جس کی وجہ سے قرآن کریم کی تلاوت کے علاؤہ کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتے ہیں۔ لہذا ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر کچھ کتابیں، کچھ تراجم، کچھ تفاسیر اور کچھ اخلاقی اور ایک خاص کتاب کی تجویز آپ قارئین کے خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ماہ مبارک رمضان میں جس کا بھی آپ مطالعہ کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں۔ اگر آپ میں سے کوئی قرآن کے ترجمے کا مطالعہ کرنا چاہے تو شیخ محسن علی نجفی، علامہ ذیشان حیدر جوادی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے ترجمے کا مطالعہ کریں۔ اگر تفسیر کی طرف مراجعہ کرنا چاہیں تو تفسیر تسنیم، تفسیر نمونہ، شہید صدر کی لکھی ہوئی تفسیر سورہ حمد، روح اللہ خمینی کی لکھی گئی تفسیر سورہ حمد اور آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی تفسیر سورہ حمد و تفسیر سورہ برائت میں سے کسی ایک کا مطالعہ کریں۔

اگر باقی کتابوں کی طرف مراجعہ کرنا چاہیں تو سرفہرست نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ ہیں، جن کا ترجمہ مفتی جعفر حسین نے کیا ہے، ان کا مطالعہ کریں۔ اگر اخلاقی کتب کی طرف مراجعہ کرنا چاہیں تو چہل حدیث امام خمینی، معراج السعادہ ملا نراقی اور شہید مطہری کی کتاب انسان کامل کی طرف مراجعہ کریں۔ ان کتب کے بعد ہماری طرف سے ایک خاص کتاب کی تجویز ہے، جس کتاب کے لکھاری نے قرآن و حدیث، نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ سے استنباط کرکے ایک ایسے موضوع پر لب کشائی کی ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے درمیان مہجور شدہ موضوع ہے۔ وہ موضوع کرہ ارض پر حاکمیت اسلام کا موضوع ہے۔ یہ کتاب انسانوں کے اندر ایک انقلاب پیدا کرتی ہے۔ ایک تحول ایجاد کرتی ہے۔

اس عصر میں اسلام ناب محمدی کے لئے ایک فکری بنیاد بن گئی ہے۔ جس کتاب پر حاشیہ لکھے جا رہے ہیں۔ دروس دیئے جا رہے ہیں۔ اس کتاب کا نام فارسی میں "طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن " ہے، جبکہ اردو میں "قرآن میں اسلامی طرزِ فکر کے بنیادی خدوخال" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک کلامی کتاب ہے۔ غیبت کبریٰ سے لیکر اب تک علمائے تشیع نے دین اسلام کو چند حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دور میں دین کو نقلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی کتاب الاعتقاد ہے۔ دوسرے دور میں دین کو کلامی و عقلی انداز میں دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال شیخ مفید علیہ الرحمہ کی کتاب تصحیح الاعتقاد ہے۔ تیسرے دور میں دین کو فلسفی انداز میں دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال نصیرالدین طوسی کی کتاب تجرید الاعتقاد ہے۔

چوتھے دور میں دین کو اجتماعی نگاہ سے دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ جس میں بالا بیان شدہ تمام جہات کو جمع کرکے صرف نظری نگاہ سے دیکھنے کے بجائے عملی طور پر معاشرے میں تطبیق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کا آغاز سید جمال الدین افغانی، شیخ محمد عبدہ، علامہ اقبال سے لے کر علامہ طباطبائی و امام خمینی اور ان کے شاگرد خاص طور پر شہید مطہری، شہید بہشتی، علامہ تقی مصباح، علامہ جوادی آملی، علامہ تقی جعفری اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے حاکمیت دین کے نام سے بیان کیا ہے۔ حکومت اسلامی کے طور پر ایرانی معاشرے میں نافذ کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نوع نگاہ کو رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اپنی کتاب "طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن" اردو میں "قرآن میں اسلامی طرز تفکر کے بنیادی خدوخال" میں بیان کیا گیا ہے۔

اس کتاب کی تین خاصیتیں ہیں، جو باقی تمام کتب سے اسے ممتاز کرتی ہے۔ پہلی خاصیت یہ ہے کہ دین اسلام ایک اجتماعی مسلک و مکتب ہے۔ یعنی اسلامی معارف اور فکری نظام، محض ذہنی تصور نہیں بلکہ ایک اجتماعی عملی ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے، جو انسان کی اجتماعی زندگی پر مبنی ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے کہ اسلام میں انسانی زندگی کے لئے کیا منصوبہ ہے۔؟ اس کا کیا مقصد ہونا چاہیئے اور اس مقصد تک پہنچنے کے لیے کیا طریقہ ہے۔؟ اس کتاب میں موصوف نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ ثانیاً، دین اسلام ایک منظم اور مربوط اصولوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی دین اسلام کی تمام تر فکری بنیادیں مربوط اور منظم انداز میں ایک وحدت کے طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔

دین کے مجموعی نظام کا ایک جزو، اس مرکب کا ایک عنصر اور اس مضبوط عمارت کا ایک ستون ہے، جو دیگر اجزا و عناصر کے ساتھ ہم آہنگ اور باہم مربوط ہے۔ اس طریقے سے، ان اصولوں کے مجموعے سے دین کا ایک جامع اور ہمہ گیر نقشہ اخذ کیا جاسکے گا، جو  ایک مکمل آئیڈیالوجی یا تصورِ حیات پر مشتمل ہے اور ایک ہمہ جہتی انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے ہم آہنگ ہے۔ تیسرا یہ کہ موصوف نے اسلامی اصولوں کے استنباط اور فہم دین میں دین کے بنیادی مصادر اور اساسی متون بالخصوص قرآن مجید کو اصل اور ماخذ قرار دیا ہے۔ اجتہادی اور تفسیری روش کے عین مطابق قرآنی مفاہیم کو جدید انداز میں پیش کیا ہے۔

اس میں نہ ذاتی رجحانات ہیں، نہ ہی انفرادی آراء ہیں، نہ دوسروں کے فکری ذخیرے سے استفادہ کیا ہے بلکہ دین کے مفاہیم اور مقاصد کے حصول کے لئے قرآن سب سے کامل اور مستند دستاویز ہے کہ جس میں کسی بھی سمت سے باطل داخل نہیں ہوسکتا اور جس میں ہر چیز کے لیے روشنی موجود ہے، بشرطیکہ ہم اس میں گہرے تدبر سے کام لیں، جیسا کہ خود قرآن نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔" آیئے اس کتاب سے استفادہ کرتے ہیں۔ موصوف نے قرآنی لہجے میں اسلام ناب محمدی کو بیان کیا ہے اور انسانوں کے اندر ایک تحول، طوفان اور انقلاب بپا کرکے اسلامی انقلاب کے لئے بنیاد فراہم کی ہے۔ چلیں اس جہت سے بھی ایک دفعہ دیکھتے ہیں۔ اس کتاب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے درج ذیل ایمیل پر رابطہ کریں۔
arifbaltistani125@gmail.com

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں 26 نومبر کو رینجرز کی ہلاکت کے کیس میں ملزم ہاشم عباسی کی ضمانت منظور
  • آئی ایم ایف کا جائزہ وفد کل اسلام آباد پہنچے گا
  • اسلام آباد: موٹروے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ
  • ماہ مبارک میں ایک بہترین کتاب کا انتخاب
  • سلاسل طریقت کا طرز تعلیم و تربیت
  • لاہور، ممتاز عراقی عالم دین علامہ سید عزالدین الحکیم کا دورہ ادارہ منہاج الحسینؑ
  • بے ہنر صاحبان اختیار
  • عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو طلب کرلیا
  • عافیہ صدیقی کیس، سوچ  نہیں سکتے حکومت اٹارنی جنرل آفس کی معاونت رد کر دے: اسلام آباد ہائیکورٹ