گداگری بہت بڑا سوشل ایشو ہے جس نے مستقل پیشے کی صورت اختیار کر لی ہے۔گداگری کے اب نت نئے طریقے متعارف ہو گئے ہیں-شہر لاہور کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا اس پیشے سے کئی سو خاندان وابستہ ہیں-جو شہر ہی کے مضافات میں واقع کچی بستیوں یا جھگیوں میں اقامت رکھتے ہیں۔اب ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ چند منظم گروہ گداگری کو انٹرنیشنل سطح پر بھی پرموٹ کر رہے ہیں۔ تانے بانے سعودیہ میں بھی جا ملتے ہیں جہاں سے اب تک گداگری کے الزام میں بہت سے پاکستانیوں کو ’’ڈی پورٹ‘‘کیا جا چکا ہے-جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے-ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے کسی بھی صورت گداگری کو پسند نہیں کیا بلکہ کسب حلال پر زور دیا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے جس کے باعث ذلیل و خوار ہو رہے ہیں-اس ’’ذلت‘‘ کا اہم اور بڑا سبب ’’گداگری‘‘ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو مبعوث فرما کر ساتھ ہی ان کو ذریعہ معاش بھی دے دیا کہ’’روزی کما اور کھا‘‘ حضرت آدم کے بعد انبیا کرام کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوا جبکہ ہر نبی نے اپنے لیئے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اپنایا۔ جیسا کہ حضرت آدمؑ کھیتی باڑی اور حضرت زکریاؓ بڑھئی کا کام کرتے تھے جبکہ حضرت اویسؓ درزی کا کام کیا کرتے تھے-حضرت موسیٰ ؑ بھیڑ بکریاں چراتے تھے-حضرت داد آہن گر تھے۔ حضرت ابراہیم بزاز تھے-حضرت اسماعیل ؑ تیر بناتے تھے۔ خود حضرت محمد ﷺنے مزدوری پر بکریاں چرائیں اور تجارت بھی کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کے لیئے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے روزگار کمانا کتنا ضروری ہے،لیکن عام لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور تعداد میں اضافے کے ساتھ لوگ سہل پسندی کا شکار ہوتے گئے-کام کرنے کی بجائے انہوں نے دوسروں کے سامنے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیئے ہاتھ پھیلانا شروع کر دئیے۔ یہی گداگری کی ابتدا تھی-لفظ گداگری ’’گداگر‘‘سے ماخوذ ہے جو فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایک مانگنے والا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے یہ کسی صورت بھی انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا ۔ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ صحابہ کرام کو انتہائی مشکل حالات سے بھی گزرنا پڑا لیکن ایسے حالات میں بھی انہوں نے صبر اور تقوی کی مثال قائم کی اور کسی کے بھی سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا،کیونکہ ان کے پیش نظر اللہ کا یہ فرمان تھا ’’ہم نے دن کو کسبِ معاش کا وقت بنایا ہے اس میں تمہارے لئے معیشت کے اسباب پیدا کئے اور ان (جانوروں اور پرندوں)کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتے،رزق حلال کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا کہ تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہ حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل یعنی رزق بھی تلاش کر لو،کسی قوم، قبیلے، ملک یا معاشرے کی ترقی کا انحصار اس کے ذرائع معاش پر ہوتا ہے-اگر معاشرے میں چوری، ڈکیتی، گداگری، رشوت اور اقربا پروری کا ماحول ہو تو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جس معاشرے میں معاش کے ذرائع صحیح ہوں، وہی معاشرہ ترقی کر کے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی نہ لائیں-‘‘
آپﷺ نے ہمیشہ ہاتھ سے روزی کمانے کو ترجیح دی اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی-یہ الگ بات ہے کہ آپﷺ نے اپنے در سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا-مگر کبھی اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ فرمائی۔ اس کی وضاحت اس حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے، حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ تو انصاری نے عرض کی ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھاتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں۔ پانی پینے کا پیالہ بھی ہے-فرمایا ’’دونوں چیزیں لے آئو‘‘ انصاری دونوں چیزیں لے آیا۔رسول اللہ ﷺنے دونوں چیزیں لے لیں اور فرمایا یہ دونوں چیزیں کون خریدے گا! ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔آپ نے پھر فرمایا ’’ایک درہم سے زیادہ کون دے سکتا ہے؟‘‘ ایک اور شخص نے عرض کیا ’’میں دو درہم دے سکتا ہوں۔‘‘ آپ نے دونوں درہم انصاری کو دے دئیے اور فرمایا ایک درہم سے گھر والوں کو کھانا خرید کر دو جبکہ دوسرے سے کلہاڑا خریدو اور میرے پاس لے آ-انصاری نے ایسا ہی کیا-رسول اللہ ؓ نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا جا لکڑیاں کاٹو اور پندرہ یوم کے بعد دوبارہ میرے پاس آئووہ شخص لکڑیاں چیرتا اور بیچتا رہا۔ پندرہ دن کے بعد حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے-نبیؓ نے فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا، پھر فرمایا’’خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے۔ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر نہ ہو۔ مانگنے کا عمل کسی طرح بھی درست نہیں۔ سوائے اس کے کہ انسان انتہائی محتاج یا سخت مقروض ہو‘‘ جب آپ سے کسب کے بارے دریافت کیا گیا کہ کون سا کسب یا کاروبار اچھا ہے تو آپ نے ہاتھ سے کام کرنے کو افضل قرار دیا اور عین فرض کہا۔ جس طرح ہمارے لیئے دوسرے فرائض کی بجا آوری لازم ہے-اسی طرح رزق حلال کا حصول بھی عین فرض ہے۔ حدیث ہے’’ بنیادی فرائض کے بعد رزق حلال کی طلب سب سے بڑا فرض ہے۔‘‘ آپ نے مالدار اور تندرست توانا کے لئے خیرات اور صدقہ کو حلال قرار نہیں دیا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی مانگنا ایک قبیح فعل ہے جو اسلام کے نزدیک حرام ہے،دین نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔سوال کرنے والے کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس میں اس کے لئے کتنی ذلت، رسوائی اور خرابی ہے تو کبھی سوال نہ کرے،یعنی بھیک نہ مانگے۔ہمارے ملک میں گداگری باقاعدہ پیشہ بن گیا ہے جبکہ لوگ جوق در جوق اس سے وابستہ ہو رہے ہیں-بڑے شہروں کے علاوہ اب چھوٹے شہر اور قصبے بھی گداگری سے متاثر ہیں۔ماہ رمضان شروع ہوتا ہے تو گداگروں کی ایک بڑی تعداد شہروں کا رخ کرتی ہے-ان میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔گداگر مافیا سے وابستہ لوگ بڑے شہر کے بڑے چوراہے ٹھیکے پر بھی دینے لگے ہیں جبکہ ذمہ دار ادارے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک اور ملک سے باہر گداگری کے پھیلتے ہوئے اس عفریت کو روکا جائے۔گداگری اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے جس پر سخت قانون سازی اور بڑے پیمانے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں چیزیں کے بعد کے لئے
پڑھیں:
اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کردی گئیں: وزیراعظم
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعظم شہباز شریف نے سمندر پار پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دفاع محفوظ ہے، کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اور جو ایسا کرے گا اس آنکھ کو پاکستانی پاو¿ں تلے روند دیں گے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کے پہلے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایک کروڑ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک میں مقیم ہیں اور انہوں نے وہاں شبانہ روز محنت سے اپنا، خاندان اور ملک کے لئے نام کمایا۔انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے سفیر ہیں، آپ ہمارے سروں کے تاج ہیں، بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا نام کمایا، ایک کروڑ سے زائد اوورسیز پاکستانیوں نے ملک کی خدمت کی۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم آپ کی جتنی بھی پذیرائی کریں وہ کم ہے، اس لئے نہیں کہ آپ اربوں ڈالر بھیج رہے ہیں، وہ آپ اپنی محنت عظمت اور دیانت سے بھیج رہے ہیں اور پاکستان کو درپیش فارن ایکسچینج کے چیلنج کے گیپ کو پورا کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آپ کے تمام پوائنٹس کو نوٹ کیا، ہم آپ کی سہولت کے لئے جو آپ پاکستان کی عظیم خدمت کررہے ہیں اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے بے پناہ کاوشیں کررہے ہیں اور پاکستان کا جھنڈا بیرون ملک میں بلند کررہے ہیں، جس کے لئے جتنی بھی مراعات آپ کے قدموں میں نچھاور کریں وہ کم ہے، انشاللہ وہ وقت آئے گا جب آپ کی پذیرائی کے لئے اور جائز مطالبات کو منظور کرنے کے لئے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سچے پاکستانی اور زبردست پروفیشنل ہیں، جو دل میں ہوتا ہے وہی بات ان کی زبان پر ہوتی ہے، اللہ کے کرم سے ان کے ہاتھوں میں پاکستان کا دفاع محفوظ ہے، پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اور جو کوئی میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اس آنکھ کو پاکستانی پاو¿ں تلے روند دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کے اندر جو دہشت گردی پھیلائی گئی ہے، اس کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں، دہشت گردوں کی فنڈنگ کون کررہا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو عظیم قربانیاں دی جارہی ہیں اور ماضی میں بھی جب دہشت گردوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا تھا تو 80 ہزار لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، اس میں ڈاکٹرز سمیت سیاستدان، دکاندار اور مزدور بھی شامل تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو جہاد کیا اور جنگ لڑی، اس کی مثال عصر حاضر میں نہیں ملتی، آج پھر اسی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے، کیا وجہ ہے کہ 2018 میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوچکا تھا اور دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ اتنی بڑی دہشت گردی کی یلغار کو ختم کرنا آسان کام نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چند سالوں میں فاش غلطیاں کی گئیں، سوات سمیت دیگر مقامات پر درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو آباد کیا گیا، ماضی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھایا، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے واقعات کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ وطن کا جوان ہم سب کی حفاظت کے لئے اپنے بچوں کو یتیم کرجائے اور پھر سوشل میڈیا پر اس کے خلاف جو زہر اگلا جائے تو کیا وہ برداشت کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے کوئی نرم گوشہ رکھ سکتا ہے، یہی فرق ہے ہارڈ سٹیٹ اور سافٹ سٹیٹ میں، ہارڈ سٹیٹ کے یہی تقاضے ہیں جب کہ سافٹ سٹیٹ کے جو دوسرے تقاضے ہیں وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو معاشی استحکام آرہا ہے، یہ آپ کی شبانہ روز محنت اور ٹیم ورک کا نتیجہ ہے، ایسا ہی ٹیم ورک رہا تو پاکستان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنے گا، پاکستانیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، اگر آپ کسی عہدے پر ہیں تو سب ٹھیک لیکن جب عہدے پر نہیں تو آپ پاکستان کے خلاف سازشیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کے مقدمات کے جلد سے جلد فیصلوں کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کردی گئی ہیں جبکہ پنجاب میں بھی ایسی عدالتوں کے قیام کا عمل جاری ہے، اس سلسلے میں پنجاب میں قانون سازی ہوچکی ہے اور بلوچستان میں بھی بہت جلد یہ کام ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے شواہد کی ای ریکارڈنگ کی سہولت بہت جلد دی جائے گی تاکہ آپ کو پاکستان نہ آنا پڑے اور مقدمات کی بھی ای فائلنگ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، یہ کام انشااللہ 90 دن کے اندر مکمل ہوجائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی چارٹر یونیورسٹیز میں تمام سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں کے لئے 10 ہزار سیٹوں میں 5 فیصد کوٹہ فکس کیا جارہا ہے، اسی طرح سے وفاق میں ڈگری دینے والے اداروں میں 10 ہزار سیٹوں میں 5 فیصد کوٹہ آپ کے بچوں کے لئے مختص کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے بچوں کے لئے میڈکل کالجوں میں 15 فیصد کوٹہ رکھا جارہا ہے، اس فیصلے سے 3 ہزار بچوں کو میڈیکل کالجز میں پاکستان میں داخلہ مل سکے گا جبکہ کاروباری لین دین اور بینک کے معاملات میں سب کو فائلرز کے طور پر ٹریٹ کیا جائے گا، اس سے آپ کو ٹیکس ادائیگی میں بہت ریلیف ملے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اوورسیز پاکستانی خواتین کے لئے جو پاکستان میں سرکاری نوکری حاصل کرنا چاہیں ان کے لئے عمر کی حد کو 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کی جارہی ہے۔
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بے پناہ خدمات کے عوض ہر سال 14 اگست کو جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کارنامے انجام دیے، حکومت کی جانب سے انہیں سول ایوارڈ دیے جائیں گے، ان کے نام پاکستانی سفارت خانے، وزارت سیفران اور او پی ایف ملکر تجویز کریں گے، ہر سال 15 ایسے خواتین وحضرات جو ملک کو سب سے زیادہ فارن ایکسچینج بھیجیں گے ان کو سول ایوارڈز دیا کرے گی۔
صحافی پر افغانی ہونے پر شناختی کارڈ منسوخی کے خلاف کیس، وزارتِ داخلہ کو 30 روز میں اپیل پر فیصلہ کرنے کا حکم
مزید :