Daily Ausaf:
2025-04-18@02:21:36 GMT

انسانیت کی معراج

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

انسان کو ہر صورت میں زندگی بھر علم حاصل کرنے کی جستجو اور تگ ودو کرنی چاہیے علم کی اہمیت اور فضیلت کی تمام مذاہب میں تلقین کی گئی ہے دین اسلام میں علم حاصل کرنے کی بار بار تاکید ہے کچھ لوگ سکولوں اور کالجز میں چند ماہ و سال تعلیم حاصل کرنے اور پیشے ور ڈگریاں لینے کو ہی علم کہتے ہیں اور اسی پر اتراتے رہتے ہیں اس کو علم کا پیمانہ گردانتے ہیں اور اسی احساس برتری میں زندگی گزارتے ہیں جو بالکل مبالغہ آرائی ہے اور غفلت پر مبنی ہے جو خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے علم دنیاوی ہو یا دینی دونوں کا تعلق دین ہی سے ہے چونکہ دین کا راستہ دنیا سے گزرتا ہے ہر قسم کا علم انسان کے لئے کسی نہ کسی موڑ پر کام آتا ہے اپنی زندگی میں حاصل کیا گیا علم اپنے ارد گرد کے لوگوں میں منتقل کرنے اور اپنی نئی نسل کی تربیت کرنے کے لئے عام کرنا ضروری ہے شرط یہ ہے کہ خود اس پر عمل کیا جائے علم جو خود حاصل کیا گیا ہے خود اس پر عمل نہ کر سکیں تو ایسے ہی ہے جیسے گاڑی کو سٹیئرنگ کے بغیر چلانا:
اقبال ؒنے کیا خوب کہا تھا:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
انسان کی پوری زندگی کا خلاصہ صبر اور اور شکر ہے یقین جانئے دو لفظوں کا یہ مجموعہ انسان کو عرش سے لے کر فرش تک نہ صرف راحت وسکون فراہم کرتا ہے بلکہ زندگی میں انسان کو کامیابیوں اور کامرانیوں کے علاوہ انسانیت کی اعلی معراج پر فائز کردیتا ہے اس میں نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی سنور جاتی ہے بلکہ رب العالمین کی خوشنودی بھی حاصل ہوجاتی ہے خدا کا بندہ جب صبر و شکر کا پیکر بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے نئی راہیں کھول دیتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی خوشنودی بہت پسند ہے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو راضی رکھنا اور اللہ کی رضا کے آگئے سرنڈر کرجانا اور پھر اسی کا ہر مصیبت، دکھ تکلیف پر شکر بجالانا یقینا بہت مشکل کام ہے لیکن اس کی سعی کرتے رہنا چاہئے اس نیت کے ساتھ کہ اللہ رب العالمین آپ کو استقامت عطا کرے گا بندوں کے احسانات خاص کر کے مشکل وقت میں کام آنے والے دوستوں اور رشتہ داروں اور اپنے محسنوں کو یاد رکھنا اور ان کی صحت و سلامتی کی دعا کرتے رہنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے چونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے اس لئے احسان مندوں کے احسان کو بھی یقینا پسند کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس بھونچال کے دور میں اپنی شخصیت کو داغدار ہونے سے بچانا کسی جہاد سے کم نہیں لیکن گفتگو میں نرم مزاجی اور شائستگی سے انسان پراگندگی سے بچ سکتا ہے آپ کی صورت کتنی ہی خوش شکل کیوں نہ ہو آپ کتنے ہی بڑے عالم و فاضل اور دانشور کیوں نہ ہوں اگر گفتگو میں شائستگی، تحمل، رواداری اور بردباری نہ ہو تو آپ خود ساختہ اپنی نظر میں سب کچھ ہوں گے دوسروں کی نظر میں صفر ہی رہیں گئے چونکہ آپ کا ہر عمل ردعمل سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے زبان میں مٹھاس نہ ہو لہجہ میں دھیمہ پن نہ ہو الفاظ کا چنائو مناسب نہ ہو تو پریوں کے دیس کے شہزادے اور شہزادیاں بھی بدنما دکھائی دیں گئیں یا ایسے پھول جن سے خوشبو نہیں بدبو ہی محسوس ہوگئی اس لئے آپ کا ایک ایک لفظ لکھنا یا بولنا آپ کی شخصیت تعلیم، علم، خاندان اور معاشرے کا عکس ہوتا ہے۔
تکبر شیطان نے کیا تھا جب اس نے رب ذوالجلال کے حکم کی حکم عدولی کی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا صرف اس بنیاد پر کہ وہ آگ کا بنا ہوا ہے اور آدم علیہ السلام مٹی کے بنے ہوئے ہیں اسی لئے شیطان کو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے دھتکار دیا ہے اور روز قیامت تک حضرت انسان کو شیطان مردو کے شر سے پناہ مانگنے کی دعا کرتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے آج حضرت انسان دولت ،شہرت، تعلیم، عہدے، قبیلے برداری، علاقے اور رتبے کی بنیاد پر گھمنڈ کرتا ہے ارے نادان تیری یہ شان و شوکت چند ساعتوں کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی دین ہے تمہارے ارد گرد جو مجمع اکٹھا یے وہ تو تمہاری پوزیشن رتبے اور عہدے سے منفعت حاصل کرنا چاہتا ہے اس پر تو گھمنڈ نہ کر یہ سب عارضی ہے تو اس پر گھمنڈ نہ کر اور دوسروں کو فائدہ پہنچانیکی کوشش کر چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسرے انسان کو فائدہ پہنچانے کے لئے پیدا کیا ہے یہی بنی نوع انسان کی زندگی کا مقصد حیات ہے آجکل کی دنیا میں جہاں قدم قدم پر جھوٹ اور فراڈ ہے تو اے حضرت انسان اپنی عاقبت اور آخرت خراب نہ کر جھوٹ سے بچ اور گھمنڈ سے بچ جا تو موقع پاکر آج ہی قریبی قبرستان میں چلا جا اور ان مٹی کے ٹیلوں کو دیکھ جہاں اپنے وقتوں کے تم سے بڑے بڑے تیس مار خان مدفون ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس دنیا پر خدائی کا دعوی کیا تھا جن میں فرعون، شداد اور نمرود بھی ہیں اور عبرت حاصل کرلے نہ کر میری میری کہ یہ سب مٹی کی ڈھیری ہے تو اے حضرت انسان حق و سچ کا ساتھ دے چونکہ جان بوجھ کر حق اور سچ کو جھٹلانے پر تیری پکڑ ہوگئی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ تعالی انسان کو کرتا ہے کہ اللہ چونکہ ا کے لئے

پڑھیں:

ماہ رمضان کے ثمرات کو محفوظ رکھیے۔۔۔۔ !

 الحمدﷲ! ہم پر رمضان کا بابرکت مہینا سایہ فگن رہا، اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں سے نوازتا رہا، ہم سب ماہ رمضان کی فضیلتوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ اﷲ سبحان و تعالیٰ کی توفیق سے رمضان کے روزے رکھے، نماز، تراویح، قیام لیل، ذکر و اذکار کی کثرت، تہجد اور طاق راتوں میں شب قدر کے حصول کے لیے شب بیداری کا بھی اہتمام کیا۔ مخلوق خدا کے ساتھ ہم دردی و غم گساری کا برتاؤ کیا۔

صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اﷲ کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ الحمدﷲ! ہم میں سے بہت سے لوگوں کو بہ توفیق الٰہی اعتکاف کی سعادت بھی نصیب ہوئی، بلاشبہ! اعتکاف افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ اعتکاف کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ بقرہ میں آیا ہے، مفہوم پیش خدمت ہے: ’’اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک کر دو۔‘‘

اعتکاف کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے کہ اعتکاف رسول کریم ﷺ کی سنّت ہے۔ حضرت علی (زین العابدین) بن حسینؓ اپنے والد امام حسینؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرے کے برابر ہے۔‘‘

(بہیقی، شعب الایمان)

یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کے پاس جتنا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے وہ اس کی حفاظت کے لیے بھی اتنا ہی فکر مند اور چوکس رہتا ہے۔ اس کی حفاظت ہی اس کی زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔ رمضان کے روزوں، شب بیداری اور تمام عبادات کا اولین مقصد تقویٰ کا حصول ہوتا ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ رمضان میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں لیکن رمضان کے اختتام پر شیاطین آزاد ہو جاتے ہیں اور ان تمام اعمالِ قبیح اور اخلاقِ رزیلہ جن کو ہم نے رمضان میں ترک کیا ہُوا تھا، مائل کرنے پر اکساتا اور آمادہ کرتا ہے۔ لہٰذا رمضان کی ان نیکیوں اور تقویٰ کو شیطان کے ہاتھوں ضایع ہونے سے اپنے آپ کو بچانا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔

عالم اسلام کے مشہور عالم و دانش ور مولانا ابوالحسن ندویؒ نے ’’دو روزے‘‘ کے خوب صورت عنوان پر چھوٹا اور بڑا روزہ کے دل نشیں استعارے کو استعمال کرتے ہوئے جو گفت گُو کی ہے اس کا مختصر خلاصہ پیش خدمت ہے:

’’روزے دو طرح کے ہیں ایک چھوٹا اور ایک بڑا۔ چھوٹا روزہ 12 یا 13 گھنٹے کا ہوتا ہے، چھوٹے روزے کا قانونی ضابطہ یہ ہے کہ اس روزے کی پابندیاں محدود ہیں۔ یہ رمضان المبارک کا روزہ ہے۔ یہ روزہ طلوع فجر سے شروع ہو کر غروب آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس چھوٹے روزے کی افطاری لذیذ کھانوں اور عمدہ مشروب ہیں۔ یہ روزہ کھجور اور ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے۔ اس چھوٹے روزے کے احکامات اور پابندیاں سب کو معلوم ہیں۔ بڑا روزہ اسلام کا روزہ ہے۔ اسلام خود ایک روزہ ہے۔

یہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اس کی سحری پہلی سانس سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بڑا روزہ مومن کے آفتابِ عمر کے غروب ہونے پر ختم ہوگا۔ یہ بڑا روزہ ایمان والے کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ اس کا دورانیہ معین نہیں ہے، تقریباً 60 سال، 70 سال،80 سال یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ زندگی کا یہ طویل روزہ کس چیز سے کھلے گا۔۔۔ ؟ حضرت رسول کریم ﷺ کے دست مبارک سے جامِ کوثر سے کھلے گا۔

اگر وہ روزہ پکا ہے اور اس روزے کی شرائط پر پورے اترے تو یہ محض اﷲ کی توفیق اور اس کا فضل و کرم ہے کہ ہم دنیا سے کلمہ پڑھتے ہوئے گئے، یہ بڑا روزہ اسی وقت ختم ہو جاتا ہے، اس کا افطار اس کی ضیافت یہی کلمۂ طیّبہ ہے۔ یہ بڑا روزہ ہر اس کام سے ٹوٹ جاتا ہے جس کے کرنے سے اﷲ سبحان و تعالیٰ نے منع کیا، جیسے چھوٹے روزے میں غیبت منع ہے ایسے ہی بڑے روزے میں بھی غیبت منع ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا، فحش بولنا، رشوت کا لین دین، سود خوری، اسراف، فضول خرچی ممنوع ہے، اس چھوٹے روزے کے اختتام پر ہم ہرگز آزاد نہیں ہیں، وہ بڑا روزہ برابر چلتا رہے گا، وہ بڑا روزہ اس چھوٹے روزے پر بھی سایہ فگن ہے۔

یہ چھوٹا روزہ اس بڑے روزے کا جُز ہے۔ وہ بڑا روزہ چلتا رہے گا، رمضان ختم ہونے کے بعد یہ نہ سمجھیں کہ چلو چھٹی ہوئی، اب ہم آزاد ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، ہم بالکل آزاد نہیں، ہمارے گلے میں اسلام کے بڑے روزے کا طوق پڑا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، اﷲ کے ہاں اس روزے کا حساب کتاب ہوگا جو چیز حرام ہے، قیامت تک حرام رہے گی۔

کوشش یہ کیجیے کہ آپ کا یہ بڑا روزہ کا صحیح طریقے پر افطار ہو۔ جیسے کوئی روزہ دار سورج ڈوبتے ہوئے، کسی کے کہنے پر بھی ایک سیکنڈ پہلے روزہ نہیں توڑتا، اسی طرح جب آفتابِ عمر ڈوبنے کے قریب ہو تو اب کوئی جتنا بھی کہے یہ حرام چیز لے لو، یہ حرام دوا کھا لو، تو آپ کو زندگی کا بڑا روزہ زندگی کی آخری سانس تک نہیں کھولنا، پوری زندگی اﷲ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، اس کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنا ہے، جیسے ہم رمضان کے روزے میں آخر وقت تک اجتناب کرتے رہے۔

ہم رمضان کو رخصت کرتے وقت اس تصور سے خوش ہیں کہ اﷲ کا شُکر یہ روزہ تو ختم ہوگیا، اگر زندگی رہی تو پھر اگلا رمضان ہوگا۔ لیکن ہم اور ہماری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ البتہ وہ طویل اور مسلسل روزہ رہے گا۔ وہ بڑا روزہ مبارک ہو، اس روزے کا خیال رکھیے گا، یہ روزہ نہ توڑیے گا، یہ روزہ ٹوٹا تو سب کچھ ٹوٹ جائے گا۔ دین اسلام، ایمان سب بگڑ جائے گا، بس یہی دو روزے ہیں، ایک روزہ قریب المیعاد ہے وہ رمضان کا دن بھر کا روزہ ہے۔ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا، جب تک مومن کی سانس اور جان میں جان ہے اس وقت تک ہے۔‘‘

ماہِ رمضان کے گزر جانے کے بعد ہمیں خود شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھتے ہوئے رمضان کی نیکیوں، عبادات اور اعمال صالحہ کی حفاظت کرنی ہے اور اﷲ کی بارگاہ میں اس پر استقامت کی دعا مانگنی ہے اور اپنی زندگی کے معمولات، مخلوقِ خدا کے ساتھ ہم دردی و غم گساری اور تعلقات کو قانون خداوندی کی اطاعت و فرماں برداری اور تقویٰ کے راستے پر گام زن کرنے کی کوشش و سعی میں مصروف رہنا ہے، ذکر و اذکار کی پابندی کرنا ہے تاکہ اﷲ سبحان و تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔ سورۃ النساء کی ایک آیت کا مفہوم پیشِ خدمت ہے:

’’اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اﷲ کا ذکر کرتے رہو۔‘‘

ماہ رمضان کی عبادات مقبول و منظور ہونے کی علامت یہی ہے کہ ہم ماہ صیام کے بعد بھی اعمالِ صالحہ اور عبادات کو جاری رکھیں۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام عبادات اور اعمال صالحہ کو جاری رکھنے کی اور برائیوں سے اجتناب کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • ماہ رمضان کے ثمرات کو محفوظ رکھیے۔۔۔۔ !
  • این اے 213 عمر کوٹ میں ضمنی الیکشن، پیپلز پارٹی کو برتری حاصل
  • پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی پر لاہور قلندرز کو بڑا اعزاز حاصل
  • اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں اللہ نے معیشت کو استحکام بخشا ہے، وزیراعظم
  • سائنسدانوں کی اہم پیش رفت، ایک اور سیارے پر زندگی کے آثار دریافت
  • حکومت نے ٹی بلز اور پی آئی بیز کے ذریعے 1,220 ارب روپے کا قرض حاصل کر لیا
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • چند اصول ارتقائے ذات کے
  • چینی صدر شی جن پھنگ  انسانیت کا گہرا احساس رکھنے والے رہنما ہیں،وزیراعظم  ملائیشیا
  • وزیراعظم شہباز شریف کی مستونگ میں بلوچستان کانسٹیبلری کی گاڑی پر دہشتگرد حملے کی مذمت