امریکی گلوکارہ کیٹی پیری کا ستاروں تک پہنچنے کا خواب: خلا میں سفر کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
امریکی گلوکارہ کیٹی پیری نے ایک ایسے خواب کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ جیف بیزوس کی خلائی کمپنی ’بلیو اوریجن‘ کے ذریعے خلا میں سفر کرنے والی سیلیبریٹیز کی فہرست میں شامل ہوگئی ہیں۔
کیٹی پیری نے اس موقع پر کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سفر نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی ترغیب دے گا۔
بلیو اوریجن کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں کیٹی پیری کے علاوہ کئی دیگر معروف خواتین بھی شامل ہیں، جن میں جیف بیزوس کی منگیتر لارین سانچیز، ٹی وی میزبان گائل کنگ، ناسا کی سابق راکٹ سائنسدان عائشہ بوو، ریسرچ سائنسدان امندا نووئین، اور فلم پروڈیوسر کیرین فلین شامل ہیں۔ یہ تمام خواتین اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور اب وہ خلا کے سفر کے لیے تیار ہیں۔
لارین سانچیز، جو خود ایک ہیلی کاپٹر پائلٹ اور سابق ٹی وی صحافی ہیں، نے اس پرواز کے عملے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ سفر ’نیو شیپرڈ‘ راکٹ کے ذریعے مغربی ٹیکساس سے کیا جائے گا اور یہ بلیو اوریجن کی 11ویں انسانی خلائی پرواز ہوگی۔ اگرچہ سفر کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن یہ موسم بہار میں کسی وقت ہوگا۔
کیٹی پیری نے اس منفرد موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’میں اس سفر کو ایک ایسے تجربے کے طور پر دیکھ رہی ہوں جو نہ صرف مجھے بلکہ میری بیٹی اور دوسروں کو بھی ستاروں تک پہنچنے کی ترغیب دے گا۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری حدود آسمان سے بھی آگے ہیں۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بلیو اوریجن نے کسی مشہور شخصیت کو خلا میں بھیجا ہو۔ 2021 میں، ’اسٹار ٹریک‘ کے مشہور اداکار ولیم شاٹنر 90 سال کی عمر میں خلا میں جا چکے ہیں۔ شاٹنر، جو ٹی وی سیریز میں کیپٹن کرک کے کردار کےلیے مشہور ہیں، خلا میں جانے والے سب سے عمر رسیدہ فرد بن گئے تھے۔ ان کا یہ سفر سائنس فکشن کے مداحوں کےلیے ایک تاریخی لمحہ تھا، کیونکہ وہ ٹیلی وژن اسکرین پر خلائی جہاز کے کمانڈر کے طور پر نظر آتے تھے اور اب حقیقت میں خلا تک پہنچ چکے تھے۔
کیٹی پیری کا یہ سفر نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک متاثر کن لمحہ ہوگا جو خواب دیکھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سفر ثابت کرتا ہے کہ انسان کی خواہشات اور خوابوں کی کوئی حد نہیں ہے، اور ہم اپنی کوششوں سے ستاروں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: بلیو اوریجن خلا میں یہ سفر
پڑھیں:
اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب
حالیہ دنوں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ایک جملہ کہا جو گویا ہر بیرون ملک پاکستانی کے دل کی آواز تھا: ’ہر پاکستانی جہاں بھی ہو، پاکستان کا سفیر ہے، اُسے وطن کے وقار کا دفاع کرنا ہے اور سچائی کی آواز بننا ہے۔ یہی بات چند روز قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف پھیلنے والی جھوٹ پر مبنی مہمات کے تناظر میں کہی کہ قوم کے اندر سے ایک منظم اور مربوط جواب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان دونوں قائدانہ بیانات نے قوم کو نہ صرف خبردار کیا بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو مخاطب کر کے ایک نیا تقاضا ان کے سامنے رکھا۔ وطن کا دفاع، سچائی کی تبلیغ، اور قومی بیانیے کی ترجمانی۔
ان الفاظ کی بازگشت سن کر، دیارِ غیر میں بسنے والا ہر پاکستانی ایک لمحے کے لیے رُک کر ضرور سوچتا ہے: کیا میرا وطن بھی میرے لیے وہی کردار ادا کر رہا ہے، جس کی مجھ سے توقع رکھتا ہے؟ کیا جس محبت اور وابستگی کے ساتھ میں پردیس کی ریت میں پاکستان کے نام پر اپنا خون پسینہ بہاتا ہوں، وہی احساس ریاستی نظام میں میرے لیے موجود ہے؟
اوورسیز پاکستانی کوئی اجنبی برادری نہیں، وہی لوگ ہیں جو اپنے خواب، خاندان، اور بچپن کی گلیاں پیچھے چھوڑ کر دیارِ غیر میں اپنی اور اپنے وطن کی قسمت سنوارنے نکلے۔ ان میں محنت کش بھی ہیں، پیشہ ور بھی، اور کاروباری حضرات بھی۔ ان کی ترسیلات زر، ان کی دعائیں، ان کی سفارتی نمائندگی اور ان کا کردار ہر اُس مقام پر پاکستان کے لیے وقار کا باعث ہے جہاں پرچمِ سبز و سفید براہِ راست نہیں لہراتا۔
تاہم، ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا نظام، اُن کے ساتھ محض زرمبادلہ کے رشتے سے نہ جُڑا ہو، بلکہ ایک ایسا تعلق قائم ہو جو سہولت، عزت، شمولیت اور انصاف پر مبنی ہو۔ ان کی توقعات کوئی غیرمعمولی نہیں وہ صرف چاہتے ہیں کہ انہیں بھی وہی ریاستی خدمات دی جائیں جو ملک میں موجود کسی شہری کو حاصل ہیں، چاہے وہ خدمات شناختی کارڈ کی تجدید سے ہوں یا تعلیمی اسناد کی تصدیق سے، جائیداد کی ملکیت ہو یا قانونی معاونت، ریکارڈ تک رسائی ہو یا معلومات کی فراہمی۔
مگر افسوس کہ آج بھی لاکھوں پاکستانی صرف ایک زمین کی فرد، کسی مقدمے کی تفصیل، یا تعلیمی دستاویز کی تصدیق کے لیے پاکستان آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں مصنوعی ذہانت، بلاک چین، اور ڈیجیٹل گورننس جیسے تصورات نے قوموں کی بیوروکریسی کو ایک ایپ میں سمو دیا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان بھی ایک ایسا مرکزی اور مربوط ڈیجیٹل نظام قائم کرے جو ہر پاکستانی خواہ وہ گلگت میں ہو یا ریاض میں، ساہیوال میں ہو یا دبئی میں اپنے شناختی کارڈ کے ذریعے ریاست سے جڑا ہو؟
شناختی کارڈ کو ایک ایسا قومی کوڈ بنایا جائے جو تمام اداروں (نادرا، ایف بی آر، محکمہ مال، تعلیمی بورڈز، عدالتیں، پولیس، وزارت خارجہ) سے منسلک ہو۔ ہر پاکستانی شہری کو ایک ایسا پورٹل فراہم کیا جائے جہاں وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے لاگ ان ہو کر اپنی تمام معلومات، دستاویزات، اور درخواستیں مکمل کر سکے۔ تحقیق کے لیے بھی شناختی کارڈ ہی کلید بنے جیسے شہریت ہے، ویسے ہی سہولت ہو۔
یہ صرف ایک سہولت نہیں، یہ ریاست اور شہری کے درمیان رشتے کی از سرِ نو تعریف ہوگی۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب ایک اوورسیز پاکستانی پہلی بار خود کو محض ترسیلات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مکمل پاکستانی شہری محسوس کرے گا۔
اب آئیے وزیرِ اعظم کے دوسرے بیان کی طرف پروپیگنڈے کا مقابلہ اور پاکستان کا دفاع۔ دنیا بھر، خاص طور پر عرب دنیا میں، پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے، افواہیں اور پروپیگنڈا مہمات وقتاً فوقتاً شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ افسوس کہ ان مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مؤثر، ریاستی سطح پر منظم عربی زبان کا پلیٹ فارم موجود نہیں۔ جب دشمن ہماری شناخت عربی زبان میں مسخ کرتا ہے تو ہماری خاموشی گویا تائید بن جاتی ہے۔
یہاں ایک قومی ضرورت ابھرتی ہے: پاکستان کو ایک ایسا سنٹرل عربی میڈیا پلیٹ فارم قائم کرنا چاہیے جو عرب دنیا کے ناظرین کو پاکستان کی درست تصویر پیش کرے، دوست ممالک سے تعلقات کو ثقافتی اور علمی بنیادوں پر مضبوط کرے، اور مخالفین کی عربی زبان میں کی جانے والی مہمات کا محقق اور شائستہ جواب دے۔ یہ مرکز نہ صرف دفاعی بیانیہ بنائے بلکہ پاکستان کے مثبت پہلو تعلیم، مذہب، ثقافت، ترقی، خواتین، اور سائنس کو عرب دنیا کے سامنے رکھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اوورسیز پاکستانی ان مہمات میں پاکستان کے سب سے بڑے محافظ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ وہاں کی زبان، معاشرت اور سوچ سے واقف ہیں۔ اگر ریاست انہیں مواد، تربیت، اور ایک مربوط پلیٹ فارم فراہم کرے تو وہ محض ترسیلات بھیجنے والے نہیں بلکہ نظریاتی صفوں کے اولین سپاہی بن سکتے ہیں۔
جہاں تنقید ہو وہاں انصاف بھی لازم ہے۔ حکومتِ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں کچھ خوش آئند اقدامات کیے ہیں: جیسے تعلیمی اداروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے کوٹہ، ایف بی آر میں فائلر کی حیثیت، خواتین کی عمر کی رعایت، اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے منصوبے۔ وزیرِ اعظم کا خطاب بھی اسی شعور کی ایک کڑی ہے۔ یہ سب اقدامات قابلِ تحسین ہیں، مگر اب وقت ہے ان اقدامات کو ایک جامع اور مستقل قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ یہ تعلق وقتی نہ ہو بلکہ پائیدار ہو۔
اوورسیز پاکستانی کسی گوشے میں بیٹھے خاموش تماشائی نہیں، وہ اُس قومی جسم کی زندہ رگیں ہیں جو وطن سے ہزاروں میل دور بھی دھڑک رہی ہیں۔ اگر انہیں ریاست کی سہولت، عزت، اور رابطہ حاصل ہو جائے تو وہ صرف بیرون ملک سفیر نہیں، پاکستان کے سب سے بڑے محافظ، مشیر، اور معمار بن سکتے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم انہیں وہ پاکستان دیں جو ان کے دل میں ہے، سہل، جڑا ہوا، باوقار، اور جواب دہ۔ یہ نہ صرف ان کا حق ہے، بلکہ ہماری قومی حکمت، سفارتی ضرورت، اور انصاف کی تکمیل بھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں