واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے تحت انگریزی کو امریکہ کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ 

اس فیصلے سے سرکاری اداروں، وفاقی فنڈنگ حاصل کرنے والی تنظیموں اور تارکین وطن پر گہرا اثر پڑنے کا امکان ہے۔

یہ اقدام سابق صدر بل کلنٹن کے دور میں نافذ کیے گئے قوانین کو منسوخ کرتا ہے، جو سرکاری اداروں کو غیر انگریزی بولنے والوں کیلئے زبان کی سہولت فراہم کرنے کا پابند بناتے تھے۔ 

نئے حکم کے تحت اب سرکاری ادارے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ وہ غیر انگریزی زبانوں میں خدمات فراہم کریں یا نہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق اس اقدام کا مقصد "قومی یکجہتی کو فروغ دینا اور سرکاری معاملات کو آسان بنانا" ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے "انگریزی سیکھنا نہ صرف معاشی مواقع کھولتا ہے بلکہ تارکین وطن کو امریکی معاشرے میں گھلنے ملنے میں مدد دیتا ہے۔"

یہ فیصلہ ٹرمپ کے "امریکہ فرسٹ" ایجنڈے کے حامیوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے، جبکہ تارکین وطن کے حقوق کے حامی، سول رائٹس تنظیمیں اور ڈیموکریٹ رہنما اس پر تنقید کر رہے ہیں۔

معروف قدامت پسند تجزیہ کار چارلی کرک نے اسے "قومی اتحاد کیلئے ایک بڑا قدم" قرار دیا، جبکہ امیگرنٹ رائٹس گروپ "یونائیٹڈ وی ڈریم" کی ڈائریکٹر انابیل مینڈوزا نے کہا "یہ فیصلہ تارکین وطن، خاص طور پر سیاہ فام اور ہسپانوی برادریوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔"

پورٹو ریکو میں، جہاں اسپینش بنیادی زبان ہے، اس فیصلے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ امریکہ میں 75 فیصد لوگ گھروں میں صرف انگریزی بولتے ہیں، لیکن تقریباً 42 ملین افراد ہسپانوی اور لاکھوں لوگ چینی، ویتنامی اور عربی زبانیں بولتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے لاکھوں افراد کیلئے سرکاری خدمات اور قانونی معلومات حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے انگریزی زبان کو ترجیح دینے کیلئے اقدامات کیے ہیں۔ 2017 میں، ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کی ہسپانوی ویب سائٹ بند کر دی تھی، جو 2021 میں صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد بحال کی گئی تھی۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تارکین وطن

پڑھیں:

ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہائوس میں تلخ کلامی کا واقعہ عالمی میڈیا اور دنیا کے تمام رہنمائوںکی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ جنگ زدہ ملک کا کوئی صدر وائٹ ہائوس میں آکر امریکی صدر کو سخت زبان میں جواب دے گا ، امریکی صدر نے بھی اپنے مزاج کے مطابق سخت لب ولہجہ اپنایا اورامریکی نائب جے ڈی صدر وینس نے اپنے صدر کا بھرپور ساتھ دیا ، اگر وہاں میڈیا موجود نہ ہوتا تو صدر ٹرمپ یوکرین کے صدرکو باکسنگ سٹائل میں تھپڑ بھی رسید کرسکتے تھے ۔بہر حال یہ واقعہ مستقبل کے عالمی اتحاد بننے اور ٹوٹنے کے واضح اشارے دے رہا ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا اور یورپ کی سوچ میں بڑا اختلاف سامنے آیا ہے۔ہٹلرکو ہرانے کیلئے امریکہ ،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا تھا اور بعد ازاں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک عالمی امور میں ہمیشہ اتحادی رہے چاہے افغانستان سے روس کو نکالنے کیلئے افغان جہادکا زمانہ ہو ،افغان جہادکے شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا اور پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے ذریعے روس کو پاش پاش کیا اور روس دو لخت ہوگیا اورکئی ریاستیں قائم ہوئیں ، روس کا گرم پانیوں تک جانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں جوکارروائیاں ہوئیں ان میں امریکہ اور یورپ اتحادی رہے ، عراق جنگ ، لیبیا ، شام پر حملے ہوں یا ایران کے خلاف محاذ آرائی ہو اور حال ہی میں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا ، شاید 80سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ یوکرین جنگ بندکرانے کے معاملے پر اور امریکی صدرکی طرف سے روس کی پالیسیوںکا ساتھ دینے کے اعلانات پر برطانیہ اور یورپ کے حوالے سے امریکہ پہلی مرتبہ تنہائی کا شکار ہوا ہے،و ائٹ ہائوس میں ہونے والی تاریخی جھڑپ میں برطانیہ اور یورپی ممالک نے صدر زیلنسکی کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔امریکی صدر جو دنیا کے بڑے بزنس مینوں میں شمارکئے جاتے ہیں وہ ہر معاملے کو بزنس اور پیسے پر تولنے کے ا نداز میں دیکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوکرین کو 350ارب ڈالر کا اسلحہ دیا اور ہم نے یوکرین کی جنگ لڑی ، دنیا میں سفارتی طور پر دیکھا جائے توکسی بھی تنازع کے حل یا اس کی طرف بڑھنے سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کی جاتی ہے پھر وزرائے خارجہ او ر سربراہ مملکت کے لیول کے حتمی بات چیت کے نتیجے میں معاہدوں کا اعلان کیا جاتا ہے ، یوکرین معاملے پر لگتا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کرنے میں امریکی صدر ناکام رہے اور انہوں نے اپنے ذہن میں تصورکر لیا تھا کہ یوکرینی صدر جب وائٹ ہائوس آئیںگے تو وہ نہ صرف روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیںگے اور منرل معاہدے پر بھی دستخط کر دیںگے لیکن یوکرین کے صدر نے اپنے اتحادیوں برطانیہ اور یورپی ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر صدر ٹرمپ کی بات ماننے سے صاف انکار کیا اور ان کے منہ پر خوب سنائیں، سفارتی ماہرین کے مطابق اگر امریکی صدر نے یہی طرز عمل جاری رکھا تو دنیا میںکوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے ، یوکرین ، یورپ کا پڑوسی ملک ہے اور یورپی ممالک یہ سمجھتے ہیںکہ اگر روس نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تو اگلی باری یورپی ممالک کی آئے گی لہٰذا اسی وجہ سے وہ یوکرین کیساتھ کھڑے ہیں، اس ساری صورتحال میں روس بہت خوش ہے اور روسی وزیر خارجہ نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وائٹ ہائوس میں جوکچھ ہوا وہ ہماری توقعات سے ہٹ کر ہے تاہم جوگفتگو ہوئی اس میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کی جانب سے زیلنسکی کو تھپڑ نہ مارنا ایک معجزہ لگتا ہے ۔ امریکہ اور یورپی اتحادکے نتیجے میں دنیا میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں بالخصوص مسلم ممالک کو بہت نقصان پہنچایا گیا ،ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ، عراق ، لیبیا، شام میں بھی لاکھوں افرادکی جانب سے گئے اور ان ممالک میں مرضی کی حکومتیں لانے کی کوششیںکی گئیں اب یوکرین کے صدر برطانیہ پہنچ چکے ہیں اور برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر یورپی ممالک کے رہنمائوں ان کی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں وہ امریکی صدرکے رویے پر مشاورت کریںگے ، اس تمام صورتحال کے باوجود اگر دیکھا جائے تو یورپ امریکہ کے بغیر مستحکم نہیں رہ سکتا اور انہیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور روسی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی اسلحے کی ضرورت رہے گی، آئندہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر بہت سے اہم فیصلے ہونے والے ہیں دیکھتے ہیں یورپی ممالک برطانیہ،امریکہ کے درمیان اختلافات کس حد تک مزید آگے بڑھتے ہیں ، حال ہی میں فرانس کے صدر بھی جب وائٹ ہائوس گئے تھے تو ان کی بھی سخت گفتگو امریکی صدر سے ہوئی تھی اور انہوں نے بھی امریکی صدرکے موقف کو مستردکیا تھا ۔

متعلقہ مضامین

  • باقی دنیا کے لیے غیر مستحکم ہوگا!
  • امریکہ اور یورپ میں بڑھتا عدم اعتماد
  • پیپلزپیرا میڈیکل ونگ کا اجلاس؛ صرف حاضر سروس سرکاری ملازم کو عہدیدار بنانے کی قرار داد منظور
  • ٹرمپ نے انگریزی کو امریکا کی سرکاری زبان قرار دے دیا
  • رہبر انقلاب اسلامی کا یوکرینی زبان میں پیغام جاری
  • ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز
  • گلگت، تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے چیف سیکرٹری کی زیر صدارت اہم مشاورتی اجلاس
  • ٹرمپ کی یکہ تازیاں اور یورپ پر اس کے اثرات
  • امریکا فلپائن کو فوجی امداد دیکر چین کو محدود کرنے کے عمل میں مہرہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، چینی میڈیا