دنیا بھر میں لوگ افطاری میں کیا کھانا پسند کرتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
رمضان المبارک کے دوران دنیا بھر میں سحری اور افطاری کے دسترخوان میں کون سے پکوان تیار کیے جاتے ہیں؟ اس کیلیے ہر ملک کے باشندے اپنی تہذیب اور روایات کے مطابق اپنے دسترخوان سجاتے ہیں۔ماہ رمضان میں سحری و افطاری کیلئے دنیا بھر میں خصوصی اہتمام کیا جاتا یے، تاہم کن ممالک میں افطاری کیلئے کیا کیا پکوان پسند کیے جاتے ہیں؟اس حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جسے قارئین کیلئے شائع کیا جارہا ہے, اگرچہ کھجور، پھل اور جوس جیسے کچھ کھانے ہر جگہ افطار کے دسترخوان کے لیے لازمی سمجھے جاتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں افطار کے لیے کچھ علاقائی اور روایتی کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے
مصر :
محشی ورق العنب یعنی انگور کی بیل کے پتے چاول، گوشت اور مسالوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ ڈش دوسرے عرب ممالک میں معمولی تغیرات کے ساتھ بنائی جاتی ہے، تاہم یہ خالصتاً مصری ڈش ہے۔ مصر میں افطارکے لیے یہ انگور کی پتیوں سے بنے یہ چھوٹے پیکٹ گرم گرم پیش کیے جاتے ہیں۔
بھارت :
ہندوستان میں افطار کے لئے کچھ خصوصی ڈشز بنائی جاتی ہیں جس میں سموسے، چاٹ کا ذائقہ حیرت انگیز ہے۔ سموسے آلو سے بھری ہوئی نمکین پیسٹری ہے، جنہیں ایک پیالے میں توڑ کر دہی اور املی کی چٹنی سے ڈھانپ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان پکوڑوں کا یہاں عام رواج ہے۔
عراق :
تبسی باذنجان، جس کا ترجمہ بینگن کے تھال ہوتا ہے، رمضان کی ایک عمدہ ڈش ہے جسے عراقی گھرانوں میں افطار کے موقع پر پیش کی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح سے بینگن کا کیسرول ہے جسے بینگن، کوفتے، ٹماٹر، پیاز اور لہسن کے تلے ہوئے ٹکڑوں سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سب بیکنگ ڈش میں رکھے جاتے ہیں اور آلو کے ٹکڑوں سے ڈھانپ کر بیک کیا جاتا ہے
پاکستان :
کوئی بھی پاکستانی افطار فروٹ چاٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جو کہ چاٹ مسالہ کے ساتھ بنا ہوا تازہ پھلوں کا سلاد ہے۔ وہاں پر دہی کے شولے اور بیسن کے پکوڑے افطار میں بہت عام ہیں۔
فلسطین :
فلسطینیوں کا افطار مینو اس وقت مکمل ہوتا ہے جب دسترخوان پر مقلوبہ ہوتا ہے۔ یہ چاول کی ایک ڈش ہے جس میں گوشت شامل ہوتا ہے۔ اس میں چاول اور مرغی کا گوشت ملا کر کھایا جاتا ہے۔
شام :
محشی مشرقی وسطیٰ کی اہم ڈش ہے۔ محشی میں گھیاتوری، بینگن اور انگور کی بیل کے پتے استعمال ہوتے ہیں، جن میں چاول، مصالحے اور گوشت کے قیمے سے بنا آمیزہ بھرا جاتا ہے، اور پھر ٹماٹر کی چٹنی اور پودینے کے خشک پتوں میں گھنٹہ تک پکایا جاتا ہے۔
سوڈان :
سوڈان میں رمضان کے لیے ایک لازمی ڈش عصیدہ اور ملاح ہے۔ عصیدہ ایک قسم کا حلوہ ہے جو گندم کے آٹے سے بنایا جاتا ہے، اور بعض اوقات مکھن یا شہد بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اسے ملاح یا اسٹو کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
تنزانیہ :
"قیمات” زعفران کے ذائقے والے چینی کے شربت میں ڈھکے ہوئے کرکرے تلے ہوئے میٹھے پکوڑے، تنزانیہ میں رمضان کا خاص کھانا ہے جو افطار میں کھجور کے ساتھ یا رات کے کھانے کے بعد میٹھے کے طور پر بھی کھائے جاتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات :
"ثرید” ایک روایتی اماراتی ڈش ہے جو روٹی کے ٹکڑوں اور شوربے سے تیار کی جاتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور ٹماٹر سے بنا شوربہ جسے سلونا کہا جاتا ہے اس میں گوشت، یخنی، مسالہ، گاجر اور آلو شامل ہوتے ہیں
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: دنیا بھر میں کیا جاتا ہے میں افطار جاتے ہیں افطار کے کے ساتھ ہوتا ہے کے لیے
پڑھیں:
قرآن کریم اور رمضان المبارک کی برکات
رمضان المبارک کا تعارف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرآن ہی کے حوالے سے کرایا ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم اتارا گیا، اس لیے قرآن کریم اور رمضان المبارک آپس میں لازم ملزوم ہیں اور ان کا یہ جوڑ اس قدر مضبوط ہے کہ نہ صرف یہ کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم اتارا گیا بلکہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی یہ مقدس کتاب پڑھی بھی سب سے زیادہ جاتی ہے۔ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں قرآن کریم اتنا پڑھا اور سنا نہیں جاتا جتنا اس ماہ مبارک میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ آپ تراویح کے حوالے سے دیکھ لیں کہ تراویح میں روزانہ بیک وقت کتنی جگہوں پر قرآن کریم پڑھا اور سنا جاتا ہے اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ تراویح کا وقت ساری دنیا میں ایک نہیں ہے۔ ہم جب سحری کھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی دنیا میں کسی جگہ تراویح کا وقت ہوتا ہے، جب ہم صبح آرام سے فارغ ہو کر دفتر، دکان اور کام پر جا رہے ہوتے ہیں تب بھی کہیں تراویح ہو رہی ہوتی ہیں، اور جس وقت ہم روزہ افطار کرتے ہیں اس وقت بھی دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ہزاروں مسلمان تراویح پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ گویا رمضان المبارک کے دوران شب و روز میں کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں تراویح ادا نہ کی جا رہی ہوں اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان نماز کی حالت میں کھڑے قرآن کریم نہ سن رہے ہوں۔
یہ قرآن کریم کا وہ اعجاز ہے جس کا ہم کھلی آنکھوں سے آج کے دور میں مشاہدہ کر رہے ہیں، بلکہ خود بھی اس میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ ہمارا موجودہ دور تنزل کا دور ہے، ادبار کا دور ہے اور انحطاط کا دور ہے، لیکن معروضی صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے باقی تمام شعبوں میں ہم سمٹ رہے ہیں، سکڑ رہے ہیں اور سہمے ہوئے ہیں، مگر قرآن کریم کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اس کی وسعتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں قرآن کریم کے مدارس نہ ہوں، ہزاروں بچے جس میں حافظ قرآن نہ بن رہے ہوں اور مختلف عنوانات سے قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا عمل جاری نہ ہو۔
میں اس سلسلہ میں اپنے ایک ذاتی مشاہدے اور تاثر کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ سال رمضان المبارک کا ابتدائی عشرہ میں نے امریکہ میں گزارا اور پہلی شب کی تراویح بالٹیمور (ریاست میری لینڈ) کی مسجد رحمت میں پڑھیں۔ پاکستان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک قاری صاحب نے، جو میرے ہمنام ہیں، ڈیڑھ پارہ پڑھا، سینکڑوں مرد اور ان کے ساتھ سینکڑوں عورتیں ملحقہ ہال میں نماز تراویح ادا کر رہی تھیں۔ میں قاری زاہد صاحب کی اقتدا میں تراویح پڑھ رہا تھا کہ میرا ذہن اچانک اس سوال کی طرف گھوم گیا کہ امریکہ میں اس وقت نماز تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ و قراء کی تعداد کیا ہو گی؟ میں چونکہ امریکہ بہت مرتبہ گیا ہوں اور اس کے متعدد شہروں میں گھوما پھرا ہوں، اس لیے اپنے اندازے سے سوال کا جواب یہ سوچا کہ امریکہ کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حافظوں اور قاریوں کی تعداد یقیناً ہزاروں میں ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال ذہن میں آگیا کہ امریکہ کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ایک فیصد اور دو فیصد کے درمیان بتایا جاتا ہے، جبکہ عیسائیوں کی آبادی پچانوے فیصد سے کسی طرح کم نہیں ہوگی اور امریکہ کے عیسائی یورپ کے عیسائیوں کی طرح لامذہب نہیں ہیں بلکہ مذہب اور اس کی عبادات و اقدار کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں، لیکن کیا پچانوے فیصد آبادی رکھنے والے مسیحیوں کو ڈیڑھ فیصد آبادی رکھنے والے مسلمانوں کے ہزاروں حفاظ قرآن کریم کے مقابلے میں اپنی مذہبی کتاب کا ایک بھی ایسا حافظ مل جائے گا جو اسی طرح آگے کھڑا ہو کر بائبل کی کوئی کتاب زبانی پڑھ دے، جس طرح روانی اور تسلسل کے ساتھ حفاظ قرآن کریم سناتے ہیں؟ کافی سوچ و بچار کے بعد بھی مجھے اس سوال کا جواب اثبات میں نہ ملا۔
یہ قرآن کریم کے اعجاز کا وہ سدا بہار پہلو ہے جس کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ پہلو ایسا ہے جس کے ساتھ مسلمان کا تعلق آج بھی قائم ہے، بلکہ یہ عرض کیا جائے تو مناسب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ ایک بار پھر تازہ کر دیتے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر رمضان المبارک میں تراویح اور قیام اللیل کا یہ مربوط نظام نہ ہوتا اور ہر طرف قرآن کی قراءت اور سماع کی گہماگہمی نہ ہوتی تو کیا ہمارا قرآن کریم کے ساتھ یہ جوڑ باقی رہتا جو آج سب کو نظر آرہا اور دنیا بھر اسلام دشمن قوتوں کے لیے اضطراب اور بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے؟ بلکہ قرآن کریم کے حفاظ اور قراء کرام، جو یقیناً دنیا میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ضرور ہوں گے، کیا تراویح، شبینہ اور قیام اللیل کے اس سسٹم کے بغیر قرآن کریم حفظ کر لینے کے بعد اسے زندگی بھر یاد رکھنے میں کامیاب ہو پاتے؟
(جاری ہے)