ٹیکس مقدموں کے حل کیلئے کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
ٹیکس مقدموں کے حل کیلئے کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آ گئیں WhatsAppFacebookTwitter 0 2 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)
ملک بھر کی عدالتوں میں ٹیکس مقدموں کے حل کیلیے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آگئیں.
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت 7 نومبر 2024 کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ایک لاکھ 8 ہزار 366 ایسے مقدمے زیر التوا ہیں جن میں 4457 ارب روپے کی رقم شامل ہے۔
سپریم کورٹ میں قریباً ریونیو کے 6 ہزار مقدمے زیر التوا ہیں۔ 2 ہزار مقدمے مختلف ٹربیونلز اور عدالتوں میں زیر التوا ہیں جن میں حکم امتناع جاری کئے جا چکے ہیں۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا اعلیٰ عدالتوں میں 108,366 مقدمے زیر التوا ہیں، جن میں 4,457 ارب روپے شامل ہیں۔
اجلاس میں فیصلے کے بعد واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا، جس میں فریقین سے تجاویز کی درخواست کی گئی۔
کمیٹی نے سفارشات مرتب کیں کہ ایف بی آر اور صوبائی ریونیو انتظامیہ میں مضبوط متبادل تنازعات کے حل یعنی اے ڈی آر کا نظام شروع کیا جائے،جس سے کاروباری اداروں اور ریاستی اخراجات میں کمی ہوگی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
بجٹ میں عمومی ٹیکس سے بچنے کیلئے برآمدکنندگان کی لابنگ جاری
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس ادائیگی نے برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کو بڑے فرق سے پیچھے چھوڑ دیا ہے، لیکن اگلے بجٹ میں برآمد کنندگان پر عمومی ٹیکس نظام لاگو کرنے سے بچنے کے لیے لابنگ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق پہلے سات ماہ (جولائی تا جنوری) کے دوران، ایف بی آر نے موجودہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے سے 285 ارب روپے اینٹھ لیے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 184 ارب روپے تھے۔
ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے کے مختلف سلیبز پر غیرمعمولی اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں مجموعی وصولی 100 ارب روپے بڑھ کر 285 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
برآمد کنندگان کے معاملے میں، حکومت نے ایک مخصوص فارمولہ متعارف کروایا جس کے تحت ان پر 11 فیصد ٹیکس کی شرح نافذ کی گئی اور انہیں عمومی ٹیکس نظام سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
اس سے پہلے برآمدی آمدنی پر سالانہ صرف 1 فیصد ٹیکس عائد کیا جاتا تھا، لیکن 25- 2024ء کے بجٹ میں ایک نیا فارمولا متعارف کروایا گیا جس کے تحت 1 فیصد پرانے طریقے سے لاگو ہوگا جبکہ برآمدات میں اضافے پر مزید 1 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
برآمد کنندگان نے موجودہ مالی سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران 118 ارب روپے بطور انکم ٹیکس ادا کیے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 55 ارب روپے تھے۔
ریٹیلرز کے لیے، حکومت نے’تاجر دوست اسکیم‘ متعارف کروائی جس سے تقریباً 2 ملین روپے جمع ہونے کی توقع تھی۔
ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کے مطابق، ٹیکس مشینری نے 236G اور 236H کے تحت ریٹیلرز/ ہول سیلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے انہیں ایک طرح سے دباؤ میں رکھا جس کے نتیجے میں مزید 2.5 لاکھ ریٹیلرز نے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کیے اور ان کی ٹیکس ادائیگی میں بھی اضافہ ہوا۔
اب آئی ایم ایف کی جائزہ مشن اسلام آباد پہنچ رہی ہے تاکہ 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے پہلے جائزے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے، لہٰذا ہر قسم کی آمدنی کو عمومی ٹیکس نظام کے تحت لانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ زرعی انکم ٹیکس (AIT) کے معاملے میں کیا گیا، جہاں چاروں صوبوں نے قانون سازی کی، جس کے تحت یکم جولائی 2025 سے ٹیکس کی وصولی شروع کی جائے گی۔
موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران 604 ارب روپے سے زائد کے بڑے ٹیکس خسارے کے پیش نظر، برآمد کنندگان کی طرف سے عمومی ٹیکس نظام سے بچنے کے لیے زبردست لابنگ جاری ہے۔