ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمود سمیر) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہائوس میں تلخ کلامی کا واقعہ عالمی میڈیا اور دنیا کے تمام رہنمائوںکی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ جنگ زدہ ملک کا کوئی صدر وائٹ ہائوس میں آکر امریکی صدر کو سخت زبان میں جواب دے گا ، امریکی صدر نے بھی اپنے مزاج کے مطابق سخت لب ولہجہ اپنایا اورامریکی نائب جے ڈی صدر وینس نے اپنے صدر کا بھرپور ساتھ دیا ، اگر وہاں میڈیا موجود نہ ہوتا تو صدر ٹرمپ یوکرین کے صدرکو باکسنگ سٹائل میں تھپڑ بھی رسید کرسکتے تھے ۔بہر حال یہ واقعہ مستقبل کے عالمی اتحاد بننے اور ٹوٹنے کے واضح اشارے دے رہا ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا اور یورپ کی سوچ میں بڑا اختلاف سامنے آیا ہے۔ہٹلرکو ہرانے کیلئے امریکہ ،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا تھا اور بعد ازاں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک عالمی امور میں ہمیشہ اتحادی رہے چاہے افغانستان سے روس کو نکالنے کیلئے افغان جہادکا زمانہ ہو ،افغان جہادکے شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا اور پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے ذریعے روس کو پاش پاش کیا اور روس دو لخت ہوگیا اورکئی ریاستیں قائم ہوئیں ، روس کا گرم پانیوں تک جانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں جوکارروائیاں ہوئیں ان میں امریکہ اور یورپ اتحادی رہے ، عراق جنگ ، لیبیا ، شام پر حملے ہوں یا ایران کے خلاف محاذ آرائی ہو اور حال ہی میں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا ، شاید 80سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ یوکرین جنگ بندکرانے کے معاملے پر اور امریکی صدرکی طرف سے روس کی پالیسیوںکا ساتھ دینے کے اعلانات پر برطانیہ اور یورپ کے حوالے سے امریکہ پہلی مرتبہ تنہائی کا شکار ہوا ہے،و ائٹ ہائوس میں ہونے والی تاریخی جھڑپ میں برطانیہ اور یورپی ممالک نے صدر زیلنسکی کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔امریکی صدر جو دنیا کے بڑے بزنس مینوں میں شمارکئے جاتے ہیں وہ ہر معاملے کو بزنس اور پیسے پر تولنے کے ا نداز میں دیکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوکرین کو 350ارب ڈالر کا اسلحہ دیا اور ہم نے یوکرین کی جنگ لڑی ، دنیا میں سفارتی طور پر دیکھا جائے توکسی بھی تنازع کے حل یا اس کی طرف بڑھنے سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کی جاتی ہے پھر وزرائے خارجہ او ر سربراہ مملکت کے لیول کے حتمی بات چیت کے نتیجے میں معاہدوں کا اعلان کیا جاتا ہے ، یوکرین معاملے پر لگتا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کرنے میں امریکی صدر ناکام رہے اور انہوں نے اپنے ذہن میں تصورکر لیا تھا کہ یوکرینی صدر جب وائٹ ہائوس آئیںگے تو وہ نہ صرف روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیںگے اور منرل معاہدے پر بھی دستخط کر دیںگے لیکن یوکرین کے صدر نے اپنے اتحادیوں برطانیہ اور یورپی ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر صدر ٹرمپ کی بات ماننے سے صاف انکار کیا اور ان کے منہ پر خوب سنائیں، سفارتی ماہرین کے مطابق اگر امریکی صدر نے یہی طرز عمل جاری رکھا تو دنیا میںکوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے ، یوکرین ، یورپ کا پڑوسی ملک ہے اور یورپی ممالک یہ سمجھتے ہیںکہ اگر روس نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تو اگلی باری یورپی ممالک کی آئے گی لہٰذا اسی وجہ سے وہ یوکرین کیساتھ کھڑے ہیں، اس ساری صورتحال میں روس بہت خوش ہے اور روسی وزیر خارجہ نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وائٹ ہائوس میں جوکچھ ہوا وہ ہماری توقعات سے ہٹ کر ہے تاہم جوگفتگو ہوئی اس میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کی جانب سے زیلنسکی کو تھپڑ نہ مارنا ایک معجزہ لگتا ہے ۔ امریکہ اور یورپی اتحادکے نتیجے میں دنیا میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں بالخصوص مسلم ممالک کو بہت نقصان پہنچایا گیا ،ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ، عراق ، لیبیا، شام میں بھی لاکھوں افرادکی جانب سے گئے اور ان ممالک میں مرضی کی حکومتیں لانے کی کوششیںکی گئیں اب یوکرین کے صدر برطانیہ پہنچ چکے ہیں اور برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر یورپی ممالک کے رہنمائوں ان کی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں وہ امریکی صدرکے رویے پر مشاورت کریںگے ، اس تمام صورتحال کے باوجود اگر دیکھا جائے تو یورپ امریکہ کے بغیر مستحکم نہیں رہ سکتا اور انہیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور روسی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی اسلحے کی ضرورت رہے گی، آئندہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر بہت سے اہم فیصلے ہونے والے ہیں دیکھتے ہیں یورپی ممالک برطانیہ،امریکہ کے درمیان اختلافات کس حد تک مزید آگے بڑھتے ہیں ، حال ہی میں فرانس کے صدر بھی جب وائٹ ہائوس گئے تھے تو ان کی بھی سخت گفتگو امریکی صدر سے ہوئی تھی اور انہوں نے بھی امریکی صدرکے موقف کو مستردکیا تھا ۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: برطانیہ اور یورپ یورپی ممالک نے یوکرین کے صدر امریکی صدر وائٹ ہائوس ہائوس میں اور ان
پڑھیں:
یورپی یونین کی طرف سے اسائلم قوائد سخت، سات محفوظ ممالک کی فہرست جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اپریل 2025ء) یورپی یونین نے بدھ 16 اپریل کو سات ممالک کی ایک فہرست جاری کی ہے جنہیں وہ 'محفوظ‘ سمجھتا ہے، کیونکہ اس اتحاد کے رکن ممالک تارکین وطن کی واپسی میں تیزی لانا چاہتے ہیں۔
اس فہرست میں کوسووو، بنگلہ دیش، کولمبیا، مصر، بھارت، مراکش اور تیونس شامل ہیں۔
پناہ کی درخواستیں دینے والوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟توسیع شدہ فہرست کا مطلب ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک تیز رفتار طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے محفوظ سمجھے جانے والے ممالک کی درخواستوں پر کارروائی کریں گے کیونکہ ان کی کامیابی کا امکان کم ہے۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت میگنس برنر کا کہنا ہے، ''بہت سے رکن ممالک کو پناہ کی درخواستوں کے حوالے سے ایک بڑے بیک لاگ کا سامنا ہے، لہٰذا ہم سیاسی پناہ کے فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے وہ کچھ کر سکتے ہیں جو ضروری ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
یہ تبدیلی اب کیوں کی جا رہی ہے؟برسلز پر''غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کی آمد کو روکنے اور ملک بدری میں تیزی لانے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ دائیں بازو کی سخت گیر جماعتیں یورپ بھر میں تارکین وطن مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں سویڈن، اٹلی، ڈنمارک اور نیدرلینڈز جیسے ممالک نے جلد سے جلد فیصلوں کے لیے فوری قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا اور کمیشن پر زور دیا تھا کہ وہ اس حوالے سے فوری کارروائی کرے۔
اگرچہ یورپی یونین نے سن 2015 میں بھی اسی طرح کی فہرست پیش کی تھی ، لیکن ترکی کو شامل کرنے یا نہ کرنے پر گرما گرم بحث کی وجہ سے اس منصوبے کو ترک کردیا گیا تھا۔
اطالوی وزیر داخلہ ماتیو پیانتیدوسی نے کہا کہ یہ تبدیلی اطالوی حکومت کے لیے ایک کامیابی ہے جس نے ہمیشہ دو طرفہ اور کثیر الجہتی سطح پر قوانین پر نظر ثانی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘‘
ادارت: عاطف بلوچ