Daily Mumtaz:
2025-03-03@09:21:52 GMT

ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہائوس میں تلخ کلامی کا واقعہ عالمی میڈیا اور دنیا کے تمام رہنمائوںکی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ جنگ زدہ ملک کا کوئی صدر وائٹ ہائوس میں آکر امریکی صدر کو سخت زبان میں جواب دے گا ، امریکی صدر نے بھی اپنے مزاج کے مطابق سخت لب ولہجہ اپنایا اورامریکی نائب جے ڈی صدر وینس نے اپنے صدر کا بھرپور ساتھ دیا ، اگر وہاں میڈیا موجود نہ ہوتا تو صدر ٹرمپ یوکرین کے صدرکو باکسنگ سٹائل میں تھپڑ بھی رسید کرسکتے تھے ۔بہر حال یہ واقعہ مستقبل کے عالمی اتحاد بننے اور ٹوٹنے کے واضح اشارے دے رہا ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا اور یورپ کی سوچ میں بڑا اختلاف سامنے آیا ہے۔ہٹلرکو ہرانے کیلئے امریکہ ،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا تھا اور بعد ازاں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک عالمی امور میں ہمیشہ اتحادی رہے چاہے افغانستان سے روس کو نکالنے کیلئے افغان جہادکا زمانہ ہو ،افغان جہادکے شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا اور پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے ذریعے روس کو پاش پاش کیا اور روس دو لخت ہوگیا اورکئی ریاستیں قائم ہوئیں ، روس کا گرم پانیوں تک جانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں جوکارروائیاں ہوئیں ان میں امریکہ اور یورپ اتحادی رہے ، عراق جنگ ، لیبیا ، شام پر حملے ہوں یا ایران کے خلاف محاذ آرائی ہو اور حال ہی میں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا ، شاید 80سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ یوکرین جنگ بندکرانے کے معاملے پر اور امریکی صدرکی طرف سے روس کی پالیسیوںکا ساتھ دینے کے اعلانات پر برطانیہ اور یورپ کے حوالے سے امریکہ پہلی مرتبہ تنہائی کا شکار ہوا ہے،و ائٹ ہائوس میں ہونے والی تاریخی جھڑپ میں برطانیہ اور یورپی ممالک نے صدر زیلنسکی کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔امریکی صدر جو دنیا کے بڑے بزنس مینوں میں شمارکئے جاتے ہیں وہ ہر معاملے کو بزنس اور پیسے پر تولنے کے ا نداز میں دیکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوکرین کو 350ارب ڈالر کا اسلحہ دیا اور ہم نے یوکرین کی جنگ لڑی ، دنیا میں سفارتی طور پر دیکھا جائے توکسی بھی تنازع کے حل یا اس کی طرف بڑھنے سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کی جاتی ہے پھر وزرائے خارجہ او ر سربراہ مملکت کے لیول کے حتمی بات چیت کے نتیجے میں معاہدوں کا اعلان کیا جاتا ہے ، یوکرین معاملے پر لگتا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کرنے میں امریکی صدر ناکام رہے اور انہوں نے اپنے ذہن میں تصورکر لیا تھا کہ یوکرینی صدر جب وائٹ ہائوس آئیںگے تو وہ نہ صرف روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیںگے اور منرل معاہدے پر بھی دستخط کر دیںگے لیکن یوکرین کے صدر نے اپنے اتحادیوں برطانیہ اور یورپی ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر صدر ٹرمپ کی بات ماننے سے صاف انکار کیا اور ان کے منہ پر خوب سنائیں، سفارتی ماہرین کے مطابق اگر امریکی صدر نے یہی طرز عمل جاری رکھا تو دنیا میںکوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے ، یوکرین ، یورپ کا پڑوسی ملک ہے اور یورپی ممالک یہ سمجھتے ہیںکہ اگر روس نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تو اگلی باری یورپی ممالک کی آئے گی لہٰذا اسی وجہ سے وہ یوکرین کیساتھ کھڑے ہیں، اس ساری صورتحال میں روس بہت خوش ہے اور روسی وزیر خارجہ نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وائٹ ہائوس میں جوکچھ ہوا وہ ہماری توقعات سے ہٹ کر ہے تاہم جوگفتگو ہوئی اس میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کی جانب سے زیلنسکی کو تھپڑ نہ مارنا ایک معجزہ لگتا ہے ۔ امریکہ اور یورپی اتحادکے نتیجے میں دنیا میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں بالخصوص مسلم ممالک کو بہت نقصان پہنچایا گیا ،ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ، عراق ، لیبیا، شام میں بھی لاکھوں افرادکی جانب سے گئے اور ان ممالک میں مرضی کی حکومتیں لانے کی کوششیںکی گئیں اب یوکرین کے صدر برطانیہ پہنچ چکے ہیں اور برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر یورپی ممالک کے رہنمائوں ان کی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں وہ امریکی صدرکے رویے پر مشاورت کریںگے ، اس تمام صورتحال کے باوجود اگر دیکھا جائے تو یورپ امریکہ کے بغیر مستحکم نہیں رہ سکتا اور انہیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور روسی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی اسلحے کی ضرورت رہے گی، آئندہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر بہت سے اہم فیصلے ہونے والے ہیں دیکھتے ہیں یورپی ممالک برطانیہ،امریکہ کے درمیان اختلافات کس حد تک مزید آگے بڑھتے ہیں ، حال ہی میں فرانس کے صدر بھی جب وائٹ ہائوس گئے تھے تو ان کی بھی سخت گفتگو امریکی صدر سے ہوئی تھی اور انہوں نے بھی امریکی صدرکے موقف کو مستردکیا تھا ۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: برطانیہ اور یورپ یورپی ممالک نے یوکرین کے صدر امریکی صدر وائٹ ہائوس ہائوس میں اور ان

پڑھیں:

امریکہ اور یورپ میں بڑھتا عدم اعتماد

اسلام ٹائمز: یوکرینی صدر کو وائٹ ہاوس سے نکال باہر کر دیے جانے کے بعد تقریباً تمام یورپی ممالک نے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ فرانس کے علاوہ پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹاسک نے بھی زیلنسکی کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے: "عزیز یوکرینی دوستو آپ اکیلے نہیں ہو۔" سویڈن کے وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا: "آپ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ پورے یورپ کے لیے جنگ کر رہے ہو۔" اسی طرح جمہوریہ چیک، اسپین اور لتھوانیا نے بھی ملے جلے پیغامات یوکرین کو بھیجے ہیں۔ جارجیا میلونی، اٹلی میں دائیں بازو کی رہنما جو ٹرمپ کی قریبی اتحادی تصور کی جاتی ہے نے یورپی رہنماوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے اختلافات مزید شدید ہونے سے روکیں۔ انہوں نے کہا کہ روم عنقریب امریکہ اور یورپی یونین کا مشترکہ اجلاس منعقد کرے گا تاکہ سفارتکاری اپنے درست راستے پر واپس آ جائے۔ تحریر: علی احمدی
 
جمعہ کے دن ڈونلڈ ٹرمپ اور جی ڈی وینس کی مدد سے امریکہ کی جنرل ڈپلومیسی کا بت صحافیوں کے سامنے ٹوٹ کر چکناچور ہو گیا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، جو امریکہ کی سربراہی میں مغربی طاقتوں کی مدد سے روس کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، نے جمعہ کے دن امریکہ کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کا مقصد روس کے خلاف حمایت کے عوض امریکہ کو اپنے معدنیات کے ذخائر دینے پر مشتمل معاہدے پر دستخط کرنا تھا۔ امریکہ کے 47 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے دروازے سے ہی یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی بے عزتی کرنا شروع کر دی۔ جیسے جیسے ملاقات آگے بڑھتی گئی ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے نائب جی ڈی وینس کی طعنہ آمیز گفتگو میں شدت آتی گئی اور انہوں نے زیلنسکی پر جنگ بندی کی مخالفت کرنے کا الزام عائد کیا۔
 
مغربی ذرائع ابلاغ کے بقول یوکرین کا سفارتی وفد سمجھتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی سے تلخ کلامی کے ذریعے امریکی ذرائع ابلاغ اور عوام کے سامنے اس کی بے عزتی کرنے کا منصوبہ پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ ٹرمپ کے نائب جی ڈی وینس نے بھی زیلنسکی کے خلاف سخت باتیں کیں اور بعض مبصرین کی نظر میں ملاقات میں تناو پیدا ہونے کی اصل وجہ ہی امریکہ کا نائب صدر جی ڈی وینس تھا۔ اخبار فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء سے ہی میڈیا کے سامنے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی حکمت عملی وسیع پیمانے پر دھچکہ پہنچانا ہے اور کیمروں کے سامنے آزاد گفتگو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بین الاقوامی رہنماوں پر اپنا رعب جمانے کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کرتا ہے۔
 
دوسری طرف یورپی سربراہان اور رہنماوں نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حمایت کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ یورپی رہنما اس وقت خود کو قیادت سے محروم تصور کر رہے ہیں۔ یورپ کے سب سے بڑے اسلحہ کے ذخائر رکھنے والا ملک فرانس ہے جس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہم سب نے تین سال پہلے یوکرین کی مدد اور روس پر پابندیاں عائد کر کے درست اقدام انجام دیا ہے اور ہمیں اس کام کو جاری رکھنا چاہیے۔" امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے یورپی اتحادیوں کے خلاف مسلسل بیان بازی اور اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا امریکہ اور یورپ کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہونے والا ہے جس میں اداروں کی حکمرانی، آزاد تجارت اور چند طرفہ پالیسیوں کی جگہ طاقتور افراد، نیشنلزم اور اقتصادی مرچنٹلزم لے لے گا اور یوں ہمیشگی اتحادوں کا تصور ختم ہو جائے گا۔
 
1956ء میں جب اس وقت کے امریکی صدر آئزنہاور نے برطانیہ اور فرانس کو سویز کینال پر کنٹرول واپس لینے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال سے روک دیا تھا تب سے ہی فرانس اور امریکہ میں بے اعتمادی کی فضا پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اگرچہ آئزنہاور نے 1944ء میں جرمن نازیوں کے تسلط سے فرانس کو آزادی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن سویز کینال والے بحران میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کی کوشش کی۔ امریکہ کا یہ اقدام فرانس کی نظر میں غداری اور بے عزتی قرار پایا۔ تقریبا ستر برس بعد فرانس فوجی شعبے میں یورپ کا امریکہ پر انحصار کم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ کی فوجی مدد نے ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک براعظم یورپ کی سلامتی کو یقینی بنایا ہوا ہے۔
 
جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ امریکہ کی شان و شوکت زندہ کر دے گا اور امریکہ اس کی پہلی ترجیح ہے۔ یہ نعرے پاپولسٹک، نیشنلسٹ اور اینٹی گلوبلائزیشن ہیں۔ یہ نعرے اس وقت سامنے آئے جب عالمی سطح پر امریکہ کی سربراہی میں لبرل عالمی نظام تشکیل پا رہا تھا۔ جب 2020ء میں ٹرمپ کو جو بائیڈن سے شکست ہوئی تو ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ امریکہ گذشتہ صورتحال میں واپس لوٹ گیا ہے۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکہ سرد جنگ کے بعد والے موقف کی جانب واپس جا رہا تھا اور لبرل نظام مضبوط بنانے اور پاپولسٹک رجحانات کنٹرول کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ لیکن اب ٹرمپ کے دوبارہ صدر بن جانے کے بعد یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ٹرمپ نہیں بلکہ جو بائیڈن غلط راستے پر گامزن تھا۔ ٹرمپ اور اس کی ٹیم خود کو طاقتور افراد کے طور پر پیش کرتے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔
 
یوکرینی صدر کو وائٹ ہاوس سے نکال باہر کر دیے جانے کے بعد تقریباً تمام یورپی ممالک نے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ فرانس کے علاوہ پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹاسک نے بھی زیلنسکی کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے: "عزیز یوکرینی دوستو آپ اکیلے نہیں ہو۔" سویڈن کے وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا: "آپ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ پورے یورپ کے لیے جنگ کر رہے ہو۔" اسی طرح جمہوریہ چیک، اسپین اور لتھوانیا نے بھی ملے جلے پیغامات یوکرین کو بھیجے ہیں۔ جارجیا میلونی، اٹلی میں دائیں بازو کی رہنما جو ٹرمپ کی قریبی اتحادی تصور کی جاتی ہے نے یورپی رہنماوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے اختلافات مزید شدید ہونے سے روکیں۔ انہوں نے کہا کہ روم عنقریب امریکہ اور یورپی یونین کا مشترکہ اجلاس منعقد کرے گا تاکہ سفارتکاری اپنے درست راستے پر واپس آ جائے۔

متعلقہ مضامین

  • یوکرین جنگ: امن مذاکرات میں امریکہ بھی شامل ہو گا، زیلنسکی
  • زیلنسکی کا یو ٹرن: ٹرمپ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کے لیے تیار
  • باقی دنیا کے لیے غیر مستحکم ہوگا!
  • امریکہ اور یورپ میں بڑھتا عدم اعتماد
  • امریکی صدر ٹرمپ سے کشیدگی، کینیڈا سمیت یورپی ممالک کا یوکرینی صدر سے اظہار یکجہتی
  • اوول آفس میں تلخی پر یوکرینی صدر کو معافی مانگنی چاہیے: امریکی وزیرِ خارجہ
  • ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان جھڑپ وتلخ کلامی کی وجہ کیا بنی؟
  • ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا
  • یوکرینی صدر سے زبانی جھڑپ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان سامنے آگیا