اسٹیل ملز ملازمین کا نیشنل ہائی وے پر 7 گھنٹے تک احتجاج، ٹریفک کا نظام درہم برہم
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
کراچی:
اسٹیل ملز ملازمین نے نیشنل ہائی پر 7 گھنٹے سے زائد احتجاج کر کے ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا۔
ہفتے کی شام 5 بجے سے شروع کیے جانے والا احتجاج رات ساڑھے بارہ بجے ختم ہوا ، احتجاج کی وجہ سے نیشنل ہائی وے کے دونوں ٹریک پر ٹریفک معطل ہونے سے ملحقہ علاقوں میں بدترین ٹریفک جام رہا۔
ترجمان ٹریفک پولیس کے مطابق اسٹیل ملز کے ملازمین ملازمت سے برطرفی ، بجلی اور سوئی گیس کی بندش کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
جس کی اطلاع پر ٹریفک پولیس نے موقع پر پہنچ کر ٹریفک کو پورٹ قاسم چورنگی سے اندرون علاقہ اور ٹھٹھہ سے آنے والی ٹریفک کو ایف بی ایل کٹ سے اندرون علاقہ کی جانب موڑ دیا۔
اسٹیل مل ملازمین کی جانب سے 7 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے احتجاج نے نیشنل ہائی وے پر ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا جس کی وجہ سے گاڑیوں کو طویل قطاریں لگنے سے عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
ٹریفک پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ مظاہرین نے متعلقہ حکام سے بات چیت کے بعد رات ساڑھے بارہ بجے دھرنا ختم کر دیا جس کے بعد نیشنل ہائی وے کے دونوں ٹریک پر ٹریفک کی روانی بحال کرا دی گئی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نیشنل ہائی وے پر ٹریفک
پڑھیں:
اکانومسٹ کی رپورٹ، ہمارا جمہوری اور تعلیمی نظام
روہیل اکبر/میری بات
ہم تعلیم ،انصاف اور صحت کے معاملہ میں دنیا سے پیچھے تو تھے ہی اب جمہوریت میں بھی ہماری تنزلی ہوگئی ہے۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ(ای آئی یو)کی رپورٹ لکھنے سے پہلے چند باتیں اور بھی پڑھ لیں کہ اس وقت ہمارے اکثر تعلیمی ادارے سربراہان کے بغیر ہی چل رہے ہیں جسکی وجہ سے اداروں میں کام کرنے والوں میں بھی بددلی پائی جارہی ہے ۔بالخصوص اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایسے افراد اہم عہدوں پر براجمان ہیں جن کے بارے میں محتسب نے لکھ کر دیا ہوا ہے کہ انہیں فوری طور پر ان کے عہدوںسے ہٹایا جائے لیکن مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کی وجہ سے کنٹرولر امتحانات سمیت اور بہت سے افراد اہم سیٹوں پر براجمان ہیں حالانکہ پنجاب حکومت تعلیم کے حوالہ سے بہت کچھ کرنا چاہ رہی ہے اور گورنر پنجاب/چانسلر سردار سلیم حیدر خان نے پہلی مرتبہ وائس چانسلرز کانفرنس بھی کروائی جس میں انکا کہنا تھا کہ نوجوان نسل ملک کا مستقبل ہیں ۔انہیں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ پر امن اور ساز گار ماحول فراہم کرنا ادارے کی ذمہ داری ہے تعلیمی معیار اور ماحول پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتااور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں ہراسگی اور ڈرگز کے خلاف زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے ۔ انہوں نے اس بات پربھی زور دیا کہ ویمن یونیورسٹیوں میں مرد ملازمین کم سے کم کرنے کے لیے میکنیزم بنایا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے اپنی اپنی ضد چھوڑ کر میرٹ پر وائس چانسلر لگادینے چاہیے۔ ویسے پنجاب حکومت نے اچھا کام کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین کو ہوم اکنامکس یونیورسٹی لاہور میں4سال کے لیے مستقل وائس چانسلر تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین پنجاب یونیورسٹی اسکول آف کیمسٹری کی پروفیسر ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین نے برطانیہ کی برونل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے اور عالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی جریدوں میں150سے زائد مقالہ جات شائع ہوچکے ہیں ،وہ پنجاب یونیورسٹی میں سنٹر فار اپلائیڈ کیمسٹری کی ڈائریکٹربھی رہ چکی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر زیب النساء حسین کا 25سال سے زائد تعلیمی تجربہ ہے انہیںبرطانیہ سے بہترین محقق ہونے کی بنا پر تین ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ وہ رائل سوسائٹی آف کیمسٹری برطانیہ، امریکن کیمسٹری سوسائٹی کی ممبر ہیں۔ وہ برونل سائنس پارک لندن میں انوائرنمنٹل کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکند ر حیات اور چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان بھی نئے تعلیمی سال میں بچوں کے داخلہ پر فکر مند ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ اس سال 20 لاکھ بچوں کو انرول کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پنجاب حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وزیر تعلیم اور چیف سیکریٹری سے گزارش ہے کہ اساتذہ کی ترقیوں پر بھی غور کیا جائے۔ عرصہ 15سال سے زائد ایک ہی اسکیل میں پڑھاتے پڑھاتے استاد خود احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے کہ ان سے پڑھنے والے بچے چند سالوں میں گریڈ 22 میں پہنچ کر سیکریٹری لگ جاتے ہیں اور وہ بیچارے جس اسکیل میں آتے ہیں اسی میں گھر چلے جاتے ہیں، جہاں اساتذہ کی عزت نہیں ہوگی تو وہاں نظام تعلیم کیا ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں کرپٹ ،بددیانت اور منافقت کرنے والوں کو فوری طور پر عہدوں سے فارغ کیا جائے۔ ساتھ میں ان یونیورسٹیوں میں کئی کئی سال سے عارضی ملازمین کو بھی کنفرم کردیا جائے تاکہ بے یقینی کی فضا ختم ہوسکے ورنہ بے روزگاری تو پہلے ہی اتنی زیادہ ہے کہ لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔
اس حوالے سے مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے ادارہ شماریات کی جو رپورٹ شیئر کی ہے وہ پریشان کردینے والی ہے کہ جنوری 2025 میں صرف 63,000 لوگ نوکری کے لئے ملک سے باہر چلے گئے ۔اس تناسب سے سالانہ 750,000 لوگ نوکری کے حصول کے لئے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم اور شہباز شریف حکومت کے اقتدار میں ملک سے 20 لاکھ لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزراء شرمندہ ہونے کی بجائے ملک میں بیروزگاری اور کاروبار ختم ہونے کی مبارکباد دیتے تھکتے نہیں ہیں جبکہ ملک کے 20 لاکھ پڑھے لکھے ٹرینڈ لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے کشتیوں میں جاتے ہوئے سمندر میں ڈوب گئے اب آتے ہیں۔ اس رپورٹ کی طرف جس کامیں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ جمہوریت کی درجہ بندی 2024میں پاکستان کی 6درجے تنزلی ہو گئی اور یہ 10بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں آگیا۔رپورٹ میں دنیا بھر کی 165آزاد ریاستوں اور 2خودمختار خطوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ا نڈیکس پانچ بنیادوں پر ممالک کا جائزہ لیتا ہے جس میں انتخابی عمل، حکومت کی فعالیت، سیاسی شرکت، سیاسی ثقافت، اور شہری آزادی شامل ہیں ۔ہر ملک کی 4 میں سے ایک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے جس میں مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ نظام اور آمرانہ نظام شامل ہے۔ پاکستان عالمی درجہ بندی میں 2.84کے مجموعی اسکور کے ساتھ 124ویں نمبر پر رہا جس کی درجہ بندی آمرانہ حکومت کے طور پر کی گئی۔ عالمی انڈیکس میں گراوٹ کے نتیجے میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آمرانہ حکومتیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید آمرانہ ہو جاتی ہیں اور دنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی (39.2)فیصدآمرانہ حکومتوں میں رہائش پذیر ہے جس کا تناسب حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ اب 60ممالک کی درجہ بندی آمرانہ حکومتوں کے طور پر کی گئی ہے۔EIU کی رپورٹ نے خطے کے تجزیے میں بتایا ہے کہ ایشیا اور آسٹریلیا میں اوسط انڈیکس اسکور 2024 میں لگاتار چھٹی بار 5.41سے گر کر 5.31پر آگیا جن میںبنگلہ دیش، جنوبی کوریا اور پاکستان بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک ہیں جن کی عالمی درجہ بندی میں بالترتیب 25، 10 اور 6 درجے تنزلی ہوئی۔ دنیا کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل 70سے زائد ممالک بشمول پاکستان میں گزشتہ سال انتخابات منعقد ہوئے جہاں دھاندلی جیسے مسائل کو اجاگر کیا گیا ۔یہ صورتحال خاص طور پر آمریتوں میں ہوتی ہے بہت سے ممالک بشمول آذربائیجان، بنگلہ دیش، بیلاروس، ایران، موزمبیق، پاکستان، روس اور وینزویلا میں آمرانہ حکومتوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے ہر طرح کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کو جمہوری عمل جیسا کہ انتخابی جوڑ توڑ، تقسیم کی سیاست اور سیاسی بدامنی کے لیے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ جنوبی ایشیا میں 2024کے انتخابات دھوکا دہی اور تشدد سے متاثر ہوئے۔
پاکستان میں 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حکام کی جانب سے سیاسی جبر اور مداخلت کے الزامات بھی لگائے گئے ۔جنوبی ایشیا میں جمہوریت کے امکانات غیر یقینی ہیںڈیموکریسی انڈیکس کے ڈائریکٹر جان ہوئی کا کہنا تھا کہ 2006سے انڈیکس کے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آمریت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور دنیا کی جمہوریتوں کو مشکلات درپیش ہیں۔یہ تو تھی رپورٹ اب حکومت کے اتحادی جناب مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے لاہور کے صدر نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔محمد افضل خان کا کہنا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو حکمرانوں نے بھکاری بنا دیا۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر ملک میں اشیا ئے خورونوش کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔جھوٹے حکومتی دعوئوں سے عوام بہل نہیں سکتے۔ غریب پاکستانیوں کو عملی ریلیف کی اشد ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی مفاداتی سیاست نے عوام کو فاقوں اور خودکشیوں پرمجبور کررکھا ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی نے ملک کو معاشی بدحالی کا شکار بنایا عوام سے غلط بیانی کرکے حکمران خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں ۔