ٹیکس مقدموں کے حل کیلیے کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد:
ملک بھر کی عدالتوں میں ٹیکس مقدموں کے حل کیلیے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آگئیں.
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت 7 نومبر 2024 کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ایک لاکھ 8 ہزار 366 ایسے مقدمے زیر التوا ہیں جن میں 4457 ارب روپے کی رقم شامل ہے۔
سپریم کورٹ میں قریباً ریونیو کے 6 ہزار مقدمے زیر التوا ہیں۔ 2 ہزار مقدمے مختلف ٹربیونلز اور عدالتوں میں زیر التوا ہیں جن میں حکم امتناع جاری کئے جا چکے ہیں۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا اعلیٰ عدالتوں میں 108,366 مقدمے زیر التوا ہیں، جن میں 4,457 ارب روپے شامل ہیں۔
اجلاس میں فیصلے کے بعد واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا، جس میں فریقین سے تجاویز کی درخواست کی گئی۔
کمیٹی نے سفارشات مرتب کیں کہ ایف بی آر اور صوبائی ریونیو انتظامیہ میں مضبوط متبادل تنازعات کے حل یعنی اے ڈی آر کا نظام شروع کیا جائے،جس سے کاروباری اداروں اور ریاستی اخراجات میں کمی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زیر التوا ہیں عدالتوں میں
پڑھیں:
رائٹ سائزنگ، نیپرا، اوگرا و دیگر ریگولیٹریز سے مشیروں، اسٹاف کی تعدد، تنخواہوں کی تفصیلات طلب
اسلام آباد:وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے خود مختار اداروں و نیپرا، اوگرا، سمیت دیگر ریگولیٹری اداروں سے مشیروں کی تعداد، اسٹاف کی تفصیلات اور تنخواہوں کے ڈھانچے سے متعلق معلومات طلب کرلیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاوٴس میں چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں سینیٹرز محسن عزیز، شیری رحمٰن، فیصل واوڈا، ذیشان خانزادہ، انوشہ رحمان، کابینہ ڈویژن اور وزارت خزانہ و محصولات کے سیکریٹریز اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو نے انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2025ء موخر کردیا۔ اجلاس میں جون 2024ء سے مارچ 2025ء تک کی مدت پر مشتمل سالانہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
اجلاس میں کمیٹی نے سینیٹر ذیشان خانزادہ کے سترہ فروری 2025ء کو سینیٹ میں پیش کردہ نجی بل انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2025" پر غور کیا۔
اجلاس کے دوران بل کے منی بل ہونے کے حوالے سے اعتراضات زیر بحث آئے۔ کمیٹی اراکین نے اس بات پر غور کیا کہ کیا اس بل میں بعض ترامیم اس طرح شامل کی جا سکتی ہیں کہ وہ منی بل کی تعریف میں نہ آئیں؟
اجلاس میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ اگر کسی بل کے منی بل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق تعین نہ ہوسکے تو اس کے بارے میں قانون کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کا تعین کرسکیں۔
اس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے ایک بل کے معاملے میں اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے مگر ابھی تک جواب ہی نہیں آیا۔
رکن کمیٹی سینیٹر انوشہ رحمان نے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل براہ راست ٹیکسیشن میں مداخلت نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی تجویز بہتری لاسکتی ہے تو اسے روکنے کے بجائے زیر غور لانا چاہیے۔
اس معاملے پر مزید وضاحت کے لیے کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایف بی آر کے چیئرمین کو اگلے اجلاس میں طلب کیا جائے تاکہ بل کو حتمی شکل دی جا سکے۔
اجلاس میں کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری کا وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کے اقدام پر بریفنگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی حکومت کے حجم کو مختصر کرکے صرف بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور دیگر اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جائیں۔
سیکریٹری کابینہ نے واضح کیا کہ اس عمل سے ریگولیٹری اتھارٹیز متاثر نہیں ہوں گی البتہ ان اداروں سے مشیروں کی تعداد، اسٹاف کی تفصیلات اور تنخواہوں کے ڈھانچے سے متعلق معلومات طلب کی گئی ہیں جب کہ خودمختار اداروں پر رائٹ سائزنگ کے ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں قائم ’رائٹ سائزنگ کمیٹی کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنایا جاسکے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے حکومتی اصلاحات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف حکومت اخراجات کم کرنے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف کابینہ کا حجم دگنا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ رائٹ سائزنگ پالیسی سے سرکاری ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان افراد کا کیا بنے گا جنہیں جبری ریٹائرمنٹ پر بھیجا جائے گا؟ اس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیاکہ یہ فیصلہ ناگزیر تھا اور اس سے ریاست کو نمایاں بچت حاصل ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر ضروری اسامیوں کے خاتمے سے پہلے ہی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے جو حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔
نئے وزراء کی تقرریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ نئے وزراء کی شمولیت وزارتوں کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے گی اور یہ بھی ادارہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ مالی نظم و ضبط اور انتظامی کارکردگی کے درمیان توازن قائم رکھنا اور اصلاحاتی اقدامات پر عمل درآمد آسان نہیں۔
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کا محکمہ وار تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ اجلاس میں مزید تبادلہ خیال کیا جائے گا