لاہور:

ڈائریکٹر جیمز کیمرون ’’ٹرمنیٹر‘‘، ’’ٹائٹینک‘‘ اور ’’اوتار‘‘ جیسی یادگار فلمیں بنا کر عالمی شہرت پاچکے، وہ کینیڈا میں پیدا ہوئے مگر بیشتر زندگی امریکا میں گذاری. 

امریکی شہری بننا چاہتے تھے مگر امریکا نے جنگیں شروع کیں تو اس ملک سے متنفر ہو گئے، اب وہ نیوزی لینڈ کے شہری بن گئے ہیں اور کبھی امریکہ نہیں رہنا چاہتے، نئی فلمیں بھی کیوی کے دیس میں بنائیں گے۔ 

انھوں نے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ کا امریکا تمام مہذب و معقول باتوں سے منہ موڑ رہا ہے جو نہایت خوفناک رجحان ہے اگر امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر اعلی انسانی اقدار کو ملیامیٹ کردیا تو انہیں نظریاتی طور پہ کھوکھلا ہو کر تباہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

تلخ ملاقات

ولادیمیر زیلنسکییوکرین کا مقبول صدر ہے۔ بنیادی طور پر اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیںہے۔ ڈراموں اور فلموں میں درمیانے درجہ کا جگت باز اور کامیڈین تھا۔ 2019 میں یوکرین میں الیکشن منعقد ہوئے جس میں زیلنسکی نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ وہاں کے شہریوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔

2022 میں متعدد وجوہات کی بنا پر روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ صرف ایک وجہ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ زیلنسکی ‘ اپنے ملک میں نیٹو کے ذریعے ‘ ایٹمی میزائل لگانے پر تیار ہو چکا تھا۔ یعنی یوکرین‘ روس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا تھا ۔ سب لوگ یہ بھی بھول گئے کہ اس نے یوکرین میں مارشل لاء نافذ کیا ہوا ہے اور امن کے متعلق بات کرنے والے تمام سیاست دان پابند سلاسل ہیں۔ امریکا کے صدر جو بائیڈن ‘ نائب صدرکمیلا ہیرس‘ پینٹا گون اور نیٹو کے سربراہ نے زیلنسکی کو صرف چند دنوں میں ‘ آزاد دنیا کا چیمپئن بنا کر پیش کر دیا۔

یورپ کو باور کرایا گیا کہ روس سے انھیں خطرہ ہے ۔ لہٰذا اب زیلنسکی کو ہر طرح کی سویلین اور فوجی امداد چاہیے۔ خزانوں کے مونہہ کھول دیے گئے۔ صرف امریکا نے یوکرین کو 250بلین ڈالر امداد فراہم کی جس میں ستر سے سو بلین ڈالر کے ہتھیار تھے۔ بہر حال زیلنسکی ایک بنیان اور پینٹ پہن کر یورپ اور امریکا کادورہ کرتا تھا اور اپنی شرائط پر وہاں سے ہر طرح کی سہولتیں حاصل کرتا تھا۔ یہاں میں ایک حد درجہ نازک نکتہ عرض کروں گا۔ جو بائیڈن ‘ اتنا ضعیف ہو چکا تھا کہ اس کی یادداشت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ وہ ہر معاملہ بھولنے لگ گیا تھا۔ اس کی بیماری کا سب سے زیادہ فائدہ کمیلا ہیرس اور امریکا کی Deep state نے اٹھایا ۔ جوبائیڈن ایک کھلونا بن کر رہ گیا۔ یہ معاملہ بڑی بہتری سے چل رہا تھا۔

امریکا اور یوکرین میں امریکی امداد کا غتر بود جاری تھا کہ حالیہ الیکشن میں ٹرمپ‘ تمام تر مخالفت کے باوجود‘ صدر بن گیا۔ یہ وہ فرق تھا جو دنیا اور زیلنسکی بالکل سمجھ نہیں پائے۔ ان کا خیال تھا کہ ‘ Business as usual ہی رہے گا۔ مگر ٹرمپ ہر معاملہ سمجھ چکا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ پوری دنیا میں کسی بھی جنگ کی حمایت نہیں کرے گا۔ جنگیں ہونے نہیں دے گا‘ بلکہ جو جنگیں جاری ہیں ‘ ان کو ہر قیمت پر ختم کرائے گا۔ اس کے علاوہ امریکی ٹیکس پیئرز کے پیسوں پر چلنے والے اللے تللے مکمل طور پر ختم کرے گا۔ بلکہ امریکا سے دی گئی امداد کو واپس وصول کرے گا۔

یہ وہ جوہری تبدیلی ہے جس کا مظاہرہ ‘چند دن پہلے ‘ وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کے ساتھ دیکھنے کو ملا۔ ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ بند کرانے کے لیے‘ پوٹن کو بھی اعتماد میں لیا۔ یوکرین کے حکام بالا سے واشنگٹن میں لا تعداد میٹنگز ہوئیں۔ طے یہ ہوا کہ یوکرین امریکا کو قیمتی دھاتیں فراہم کرے گا جس سے امریکا اپنی امداد سے ہونے والے نقصان کو پورا کرے گا۔ یہ تمام معاملات ‘ حد درجہ اعتماد اور مہارت سے ایک معاہدے کی صورت میں لکھے گئے۔ زیلنسکی نے یہ معاہدہ دیکھ لیا تھا اور اس نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر دستخط کرے گا۔

حالانکہ اس کی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔ مگر زیلنسکی ‘ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ میڈیا کی چکا چوند میں رکھنا چاہتا تھا۔ یہاں تک معاملہ بالکل قابل فہم تھا۔ مگر زیلنسکی یہ ادراک نہیں کرپایاکہ اس نے وہائٹ ہاؤس میں کون سی بات کرنی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ تھا کہ کون سی بات نہیں کرنی بلکہ بالکل نہیں کرنی۔ تین دن پہلے جب یوکرین کا صدر ‘ وہائٹ ہاؤس پہنچا تو صدر ٹرمپ نے روایت کے مطابق اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ خود اسے خوش آمدید کہنے کے لیے دروازے سے باہر آیا۔ اس کے بعد اوول آفس (Oval office) میں وہ میٹنگ شروع ہوئی جس میں تمام بین الاقوامی پریس کے نمائندے موجود تھے۔ صدر ٹرمپ نے ابتداء میں یوکرین کے بہادر فوجیوں اور ان کی قربانیوں کی از حد تعریف کی ۔

یہ ملاقات 48منٹ تک جاری رہی۔ معاملہ حد درجہ خوشگوار طریقے سے چل رہا تھا۔ بار بار‘ ٹرمپ‘ کہہ رہا تھا کہ وہ ایک ڈیل میکر ہے اور پوری زندگی ڈیلز کرتا رہا ہے۔ اور اتنی خوفناک جنگ کو رکوانا صرف اور صرف ڈپلومیسی (Diplomacy) سے ہی ممکن ہے۔ میٹنگ کے دوران ‘ زیلنسکی نے سفارتی آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے نائب صدر ‘ JD.vance سے براہ راست سوال کیا کہ ڈپلومیسی سے اس کی کیا مراد ہے؟ ساتھ ہی ساتھ اس نے امریکی نائب صدر کو J.D کہہ کر مخاطب کیا۔ گزارش ہے کہ امریکا میں صرف وہی لوگ آپ کو First name  سے بلا سکتے ہیں جو آپ کے قریبی دوست ہوں یا آپ کی فیملی ہو۔ بہر حال نائب صدر اس بات کو بھی پی گیا۔ اس نے جواب دیا کہ سفارت کاری ایک مشکل کام ہے اور مقصد صرف جنگ رکوانا ہے۔

جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ زیلنسکی معاملہ فہمی میں حد درجہ کمزور انسان ہے۔ اس کے ذہن میں جوبائیڈن اور اس کی سابقہ ٹیم تھی جو اس کی ہر بدتمیزی برداشت کرتی رہتی تھی۔ اس نے نائب صدر کو کہا کہ آپ چلا کیوں رہے ہو۔ ٹرمپ سمجھ گیا کہ یوکرین کا صدر ریڈلائن کراس کر رہا ہے۔ اس نے برملا کہا کہ J.D قطعاً بلند آواز میں بات نہیں کر رہا۔ اب معاملہ بگڑنا شروع ہو گیا۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو سمجھایا کہ مقصد جنگ کو ختم کرنا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر اس بلا کو نہ روکا گیا تو یہ تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ زیلنسکی نے یہ کہا کہ وہ پوٹن کی وعدہ خلافیوںکو جانتا ہے۔ اور اسے میڈیا کے سامنے بار بار قاتل کہنا شروع کر دیا۔ تو معاملہ مزید بگڑ گیا۔

ٹرمپ اس کو یہ بتاتا رہا کہ جنگ سے یوکرین تباہ ہو چکا ہے۔ اس کی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کوئی بھی نوجوان تیار نہیں ہے اور امریکی امداد کے بغیر ‘ یوکرین دو دن بھی روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اسے معاملات کو حل کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے بالکل صاف لہجے میں یوکرین کے صدر کو بتایا کہ اس کے پاس جیتنے کے لیے کسی قسم کا کوئی کارڈ نہیں ہے۔ امریکی امداد ہی وہ سب سے بڑا تاش کا پتا ہے جو یوکرین کو اب تک مفتوح ہونے سے بچا رہا ہے۔ مگر زیلنسکی بہت جذبات میں آ چکا تھا اور یہ بات کسی بھی لیڈر کے لیے حد درجہ خطرناک ہوتی ہے۔

ساتھ ساتھ یہ بھی بات ہوئی کہ زیلنسکی اتنی امداد لینے کے باوجود امریکا کا شکر گزار نہیں ہے۔ بلکہ امریکی نائب صدر نے تو برملاکہا کہ یوکرین کے صدر نے آج تک امریکا کا کسی قسم کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ چند ماہ پہلے‘ صدر ٹرمپ کے سیاسی مخالفین سے خطاب بھی کرتا رہا ہے۔ اب معاملہ حد سے آگے چلا گیا۔ ٹرمپ ‘ حد درجہ ہوشیار آدمی ہے۔ اس نے وہاں کہا کہ وہ دنیا کے میڈیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ زیلنسکی جنگ روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔

میٹنگ ختم ہو گئی۔ ٹرمپ کے اسٹاف نے صدر زیلنسکی کو وہائٹ ہاؤس سے باہر جانے کا کہہ دیا۔ جو حکومتی ‘ ظہرانہ منعقد ہونا تھا ‘ وہ بھی کینسل کر دیا گیا۔ زیلنسکی کو گاڑی تک الوداع کہنے کے لیے ‘ حکومتی سطح کا ایک جونیئر اہلکار آیا ۔ یہ معاملہ پوری دنیا نے براہ راست دیکھا۔ مگر اس کے بعد‘ ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔

یورپ کے سربراہان نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ یوکرین کے صدر کو امداد دیتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ دراصل امریکا کی نہیں بلکہ یورپ کی جنگ ہے۔ ہاں ایک اور بات ۔ میٹنگ کے دوران ‘ زیلنسکی نے حد درجہ درشت لہجے میں صدر ٹرمپ کو کہا ‘ کہ امریکی سمندر کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ مگر یہ تھوڑے عرصے کی بات ہے امریکی عوام کو بھی محسوس ہوجائے گا کہ معاملات کیا ہیں۔ یہ واحد موقع تھا جس پر ٹرمپ نے غصہ سے کہا کہ آپ کون ہیں کہ ہمیں بتائیں‘ کہ امریکی عوام‘ کس معاملہ کو کس طرح محسوس کریں گے۔ یہ بات حد درجہ بے جواز کی گئی ہے۔ بہر حال میٹنگ ختم ہو گئی۔

ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے تمام ملک مل کر بھی یوکرین کی وہ عسکری مدد نہیں کر سکتے‘ جو اکیلا امریکا کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے بغیر‘ یوکرین زیادہ دیر تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ امریکا ‘ کا دفاعی بجٹ ‘ پورے یورپ کے مجموعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔

زیلنسکی کے تین چار غیر ذمہ دارانہ جملوں نے یوکرین کو وہ نقصان پہنچا دیا ہے‘ جو اسے روس بھی نہیں پہنچا سکا۔یوکرین کے سفارت کار‘ دو تین دنوں سے امریکا کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیںکہ معاملہ کو ختم کیا جائے اور معدنیات اور جنگ بندی کی ڈیل پر دستخط کیے جائیں ۔ مگر اب امریکی حکام نہیں مان رہے۔ بہر حال یہ سبق ہے دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے‘ جو بائیڈن سے ہر طرح کے فوائد حاصل کرتے رہے ہیں اور Deep state کے مرہون منت ‘ اپنے ملکوں میں لوگوںکے مقدرسے کھیلتے رہے ہیں۔ خیال ہے‘ کہ ٹرمپ‘ دنیا بدل رہا ہے!

متعلقہ مضامین

  • تلخ ملاقات
  • ساؤتھ کا سپراسٹار، شاہ رخ، سلمان اور اکشے کمار بھی جس کی فلموں کا ریکارڈ نہ توڑ سکے
  • یوکرین کی معدنیات اور امریکا، صدر زیلنسکی کیا چاہتے ہیں؟
  • میری موجودگی میں کسی کو پارٹی چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، خالد مقبول صدیقی
  • میری موجودگی میں کسی کو پارٹی چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی: خالد مقبول صدیقی
  • زلزلے کے خوف نے شہری کو غار میں رہنے پر مجبور کردیا
  • امریکا کے ساتھ اب بھی تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں: یوکرینی صدر
  • ہم چاہتے کیا ہیں؟
  • اداکارہ ماورا حسین 3 بھارتی فلمیں چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئیں؟