جب تک سیاسی استحکام نہ ہو ملک میں معاشی استحکام نہیں آسکتا، علی محمد خان WhatsAppFacebookTwitter 0 2 March, 2025 سب نیوز


اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا ہے کہ اکوڑہ خٹک میں دہشت گردی کرنے والے امن کے دشمن ہیں، دہشت گردی کے واقعہ میں جو بھی ملوث ہیں، ان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، اس وقت ملک میں سیاسی افراتفری ہے، جب تک سیاسی استحکام نہ ہو تو ملک میں معاشی استحکام نہیں آسکتا۔


نجی ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت 47 فارم کی حکومت مسلط ہے، جعلی حکومت کام کر رہی نہ اس میں کسی قسم کی کوئی صلاحیت نظر آتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: علی محمد خان استحکام نہ ملک میں

پڑھیں:

جمہوریت اور موروثیت

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز اور رائے دہندگان کو اپنے منشور، نظریات، جمہوری اقدار اور قومی سیاست میں اپنے فعال و مثبت کردار کے حوالے سے اپنا حامی بنا کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور جیت کر اقتدار کے ایوانوں میں آتی ہیں۔

مہذب، باوقار، اصول پسند اور جمہوریت کے علم بردار معاشروں میں سیاسی جماعتیں حکومت حاصل کرنے کے بعد نہ صرف اپنے منشور کے مطابق عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کو ترجیح دیتی ہیں بلکہ ملکی وقار، عزت اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا مثبت، تعمیری اور جمہوری کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکی مصنف میک آئیور (Macivor) لکھتا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشور کا باقاعدہ بیان ممکن نہیں۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ نہ ہی وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کرسکے۔‘‘

ایک سنجیدہ، متحرک اور بااصول جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف جمہوری رویوں کو فروغ اور استحکام ملتا ہے بلکہ ملک کے سیاسی نظام کو قاعدے اور قرینے کے ساتھ باوقار انداز میں آگے بڑھانے اور جمہوری تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عوام اپنے محبوب اور پسندیدہ سیاسی لیڈر کو اس کے سیاسی فکر و فلسفے، نظریات، منشور اور اس کے قول و فعل کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی قیادت کا عروج، نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قائدین کا عوام سے تعلق اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔

وطن عزیز میں چھوٹی بڑی کم و بیش 50 کے قریب سیاسی جماعتیں جو قومی سیاست میں سرگرم ہیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت العلما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ سیاسی جماعتوں میں سے دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ نصف صدی کے دوران ایک سے زائد مرتبہ اقتدار میں آچکی ہیں۔ آج بھی انھی دو جماعتوں کے اشتراک سے ملک میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے قیام، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی دعوے دار ہیں، لیکن ان جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ موروثیت کا غلبہ حاوی نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں یہی صورتحال ہے۔ ان جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شریف اور بھٹو فیملی کے سوا کوئی دوسرا سیاسی رہنما پارٹی کے اہم ترین منصب پر مقابلے میں حصہ نہیں لیتا۔ پارٹی قیادت انھی دو خاندانوں کے نام لکھی جا چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات میں بلاول دوسری مرتبہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ آصف زرداری بدستور پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ آج بلاول بھٹو اپنے نانا، والدہ اور والد کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ مفاہمتی سیاست کے تمام گُر انھوں نے اپنے والد سے سیکھے ہیں جس کا مظاہرہ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر کیا۔

بلاول بھٹو کی مساعی ہی سے مولانا فضل الرحمن 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے۔ پی ٹی آئی سے مفاہمت و بات چیت کے لیے انھوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ قومی سیاست میں بلاول بھٹو جس سنجیدگی، احتیاط و اعتدال کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں وہ ان کے سیاست میں ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو کی صلاحیتیں اور عوام میں ان مقبولیت انھیں وزیر اعظم کے منصب جلیلہ تک لے جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا اکابرین سیاست اپنی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت نافذ کریں گے؟

متعلقہ مضامین

  • ملکی تاریخ میں پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ ایک ارب 19.5 کروڑ ڈالر سرپلس، سٹیٹ بنک: معاشی استحکام کا عکاس، وزیراعظم
  • بلوچستان کی ترقی ضروری، مگر فاٹا کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا. تیمور جھگڑا
  • ملک کو ڈنڈے کے زور پر نہیں چلایا جا سکتا: علی امین گنڈاپور
  • جمہوریت اور موروثیت
  • مہنگائی کا جن بوتل سے نکل جائے تو بند نہیں کیا جا سکتا: وزیر اعلیٰ پنجاب
  • سیاسی روزہ رکھا ہوا ہے، روزہ طویل نہیں ہو سکتا، وقت آنے پر کھولوں گا.شیخ رشید
  • افغانستان میں امریکی ہتھیار، پاکستان کے استحکام کے لئے خطرہ۔۔۔!امریکی اخبار کے خوفناک انکشافات
  • پاکستان کی ریٹنگ  بی مائنس ہونا معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا مظہرہے،وزیرخزانہ
  • فچ ریٹنگز کے اقدامات سے ملکی معیشت میں مزید بہتری اور استحکام آئے گا، وزیرخزانہ
  • پاکستانیوں کے لیے اچھی خبر؛ معاشی استحکام آنے سے پاکستان کی ریٹنگ اپ ہوگئی