خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے معروف علاقے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں جمعہ کو خودکش دھماکے میں جامعہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی سمیت 8 افراد شہید ہو گئے ہیں جب کہ 20 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔
میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ مولانا حامد الحق دارالعلوم حقانیہ کی مسجد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ جارہے تھے تو مسجد کے خارجی دروازے کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ، مولانا حامد الحق حقانی اور وہاں موجود لوگ شدید زخمی ہوئے۔
مولانا کو نازک حالت میں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں چونکہ جمعہ کو بہت زیادہ رش ہوتا ہے، اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دارالعلوم حقانیہ کے ارد گرد جمع ہوگئے جس کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم رہا، ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ دھماکا خودکش حملہ آور نے مولانا حامد الحق کو ٹارگٹ کر کے خود کو دھماکے سے اڑایا ہے۔
یہ خودکش حملہ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایریا میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مدرسہ میں سیکیورٹی کے لیے 23 پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے جب کہ مولانا حامد الحق کی سیکیورٹی کے لیے بھی چھ پولیس اہلکار تعینات تھے۔
یہی وجہ ہے کہ زخمیوں میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مدرسہ کے داخلی دروازوں پر مدرسہ انتظامیہ کی بھی سیکیورٹی موجود تھی۔ اس کے باوجود خودکش حملہ آور کا مدرسے کے اندر تک چلے جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مولانا حامد الحق حقانی شہید کی نماز جنازہ ہفتے کو اکوڑہ خٹک میں ادا کر دی گئی، انھیں اپنے والد مولانا سمیع الحق شہیدکے پہلو اور اپنی والدہ کے قدموں میں دفن کیا گیا ہے۔
مولانا حامد الحق جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بھی تھے۔ وہ اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بنے تھے۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق نامور عالم دین تھے۔ مولانا سمیع الحق کے والد کا نام مولانا عبدالحق تھا، وہ بھی خیبرپختونخوا کی بہت بڑی مذہبی شخصیت تھے، انھوں نے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔
دارالعلوم حقانیہ کو افغان جہاد کے برسوں میں شہرت حاصل ہوئی، اس مدرسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ہزاروں افغان طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی مولانا سمیع الحق کے ساتھ بڑی گہری وابستگی تھی اور مولانا سمیع الحق طالبان کے ’’باپ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔
اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں ایک بار مولانا سمیع الحق نے ملا عمر کو اپنے بہترین طالب علموں میں سے ایک قرار دیا تھا اور انھیں ایک ’’فرشتہ نما انسان‘‘ کہا تھا۔ مولانا سمیع الحق متحدہ مجلس عمل کے بانی رہنماؤں میں شامل اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ بھی تھے۔
انھوں نے متحدہ دینی محاذ کی بھی 2013میں بنیاد رکھی تھی۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے تاہم بعد میں سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ نہ دیے جانے پر ان کے تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات کی خبریں بھی آئی تھیں۔
مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق ان کے سیاسی ومذہبی جانشین تھے۔ اخبار کی خبر میں ہی بتایا گیا ہے مولانا حامد الحق نے اپنے والد کے قتل کے بعد کہا تھا کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیونکہ والد صاحب افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔
مولانا حامد الحق کے اس سیاسی ومذہبی پس منظر سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ ایسی شخصیت تھے، جوکئی گروپوں کا ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب چونکہ تحقیقات جاری ہیں، جب تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آتی تو فی الحال قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس قتل کے پیچھے کوئی گروپ تھا یا نہیں۔
البتہ میڈیا نے سیکیورٹی ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں خود کش حملہ فتنہ الخوارج اور ان کے سر پرستوں کی مذموم کارروائی ہے ، ابتدائی اطلاعات کے مطابق خود کش حملہ فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے کیا جس میں مولانا حامد الحق حقانی کو نشانہ بنایا گیا ،مولانا حامد الحق حقانی نے گزشتہ ماہ رابطہ عالم اسلامی کے تخت ہونے والی کانفرنس میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا تھا، سیکیورٹی ذرایع کے مطابق مولانا حامد الحق نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کو بھی خلاف اسلام قرار دیا تھا۔ اس بیانیے پر انھیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، نماز جمعہ کے دوران دھماکا اس بات کی غمازی کرتا ہے کے فتنہ الخوارج، ان کے پیروکاروں اور سہولت کاروں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
مولانا حامد الحق کی خودکش حملے میں شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ کرم کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر کرم کے حالات پر شروع میں ہی سخت گیر پالیسی اختیار کی جاتی اور وہاں شرپسند اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جاتا تو شاید خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آجاتی۔
کرم ہی نہیں بلکہ کرک اور بنوں، کوہاٹ وغیرہ میں بھی بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان معاملات پر بھی آنکھیں بند رکھی گئیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صوبے کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہاں بھی ان کے سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں۔ نرم حکومتی رٹ اور عزم کی کمزوری کے باعث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کی اپنی سیکیورٹی بھی خاصی سخت ہے۔ اتنی سخت سیکیورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور کا مولانا حامد الحق تک پہنچ جانا، اندرونی سیکیورٹی لیپس کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ بغیر اندرونی سہولت کاری کے خودکش جیکٹ پہن کر کسی شخص کا آزادانہ طور پر سیکیورٹی بیریئر سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر جاسوسی اور سہولت کاری کرنے والوں کی کسی بھی ملک میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں بھی ایسے شخص موجود ہیں جو کسی بھی لالچ میں آ کر کسی کی جان کا سودا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں فسادات پیدا کرنا، پاکستان میں انارکی پیدا کرنا اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا کن قوتوں کی آرزو، تمنا اور مفادات کا تقاضا ہے، اس کے بارے میں بھی خاصے واضح اشارے موجود ہیں۔ ملک کے پالیسی سازوں کو بھی صورت حال کا خاصی حد تک اندازہ ہے۔
پاکستان کے عوام کا تقاضا ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کی سرکوبی کیے بغیر ملک کی معیشت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی داخلی استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے اندرونی سہولت کاروں، ان کے کیریئرز، ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز کے خلاف ٹارگٹڈ اور نتیجہ خیز کارروائی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔
افغانستان کی حکومت کا منفی کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے پار جو حالات ہیں، ان کے اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کرنے اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں موجود افغانستان کے باشندوں کا مزید قیام ملک کی سالمیت اور استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ویسے بھی اب کسی بھی افغان شہری کا پاکستان میں بطور مہاجر اور پناہ گزین قیام نہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مربوط اور ٹھوس قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں امن ہے اور افغانستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔
ایسی صورت میں افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی قیادت کو پاکستان میں قیام کی ضد کرنی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی غیرقانونی طور پر موجود افراد کو امریکا سے نکالنا شروع کر رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے اور پاکستان میں موجود تمام غیرقانونی غیرملکیوں کو نکالے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ کی مولانا سمیع الحق کے خودکش حملہ ا ور اکوڑہ خٹک میں پاکستان میں پاکستان کو صورت حال میں بھی الحق کی کے ساتھ نہیں ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
دارالعلوم حقانیہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام کے دینی طلبا کا دینی مرکزو درسگاہ ہے ، سراج الحق
نوشہرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 مارچ2025ء)سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق مرکزی امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نہ صرف پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام کے دینی طلبا کا دینی مرکز اور درسگاہ ہے جامعہ دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل طلبا دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں اور وہی طلبا فراغت کے بعد دنیا بھر میں دین اسلام کی پھیلا اور سربلندی میں مصروف عمل ہیں، دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور مولانا حامد الحق حقانی کو نشانہ بنانا پاکستان کی سلامتی شعار اسلام کو نشانہ بنانے کی مترادف ہے اگر خطے میں قیام امن کے لیے افغانستان کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہوتو ایک بار نہیں بلکہ پاکستان میں قیام امن تک جاری رہنی چاہئے۔۔(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم اور سابق ایم این اے و سربراہ جمعیت علما اسلام (س) مولانا حامد الحق حقانی کی نماز جنازہ کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا سراج الحق نے مزید کہا کہ مولانا حامد الحق حقانی نہ صرف جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم تھے بلکہ اپنی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علما اسلام س کے سربراہ بھی تھے اور شہید اور ان کے خاندان کا پاکستان میں قیام امن ،سیاسی ،سماجی ودینی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں شہید مولانا حامد الحق حقانی اور کے شہید والد مولانا سمیع الحق حقانی کی پاکستان میں سیاسی ،سماجی اور دینی خدمات کو تاریخ سہنری حروف سے لکھے جائیں گے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو ایسے واقعات کی سدباب کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ دارالعلوم حقانیہ پر حملے سے پوری امت مسلمہ میں تشویش پائی جاتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردوں کی اس بزدلانہ فعل سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے دین اسلام کی سربلندی اور دینی مدارس کی تحفظ فرض عین سمجھ کر کریں گے اور نائب مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک مولانا حامد الحق حقانی شہید کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اللہ تعالی شہید کے درجات بلند اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔